تحریر: ایم سرور صدیقی میں نے کہا ایسا ہونا عین ممکن ہے۔۔۔اس معاشرہ میں قدم قدم پر طبقاتی سٹیٹس موجود ہے جس سے اب چھٹکارا پانا محال ہے اس نے کہا۔۔۔۔ نہیں یار کیسی بات کر دی آپ نے؟ میں نے جواباً عرض کیا۔۔۔ کسی دفتر، پولیس اسٹیشن یا کسی شخصیت سے دو افراد کو ایک ہی نوعیت کا کام ہو ایک آدمی کا تعلق کسی عام سے علاقہ یا محلے سے ہو دوسرا ڈیفنس، بحریہ، عسکری یا ماڈل ٹائون کا رہائشی ہو دونوں سے ایک جیسا طرز ِ عمل۔۔ایک جیسا سلوک کبھی نہیں ہو گا۔
مجھ کو ڈر ہے چاند پر بھی آدمی منتقل ہو جائے گا طبقوں سمیت
اس نے گھبرا کر کہا اس کا مطلب ہے بیڑاہی غرق ہو گیا ہاں۔۔۔میں نے آہ بھر کر یاسیت سے کہا ہم تقسیم در تقسیم ہوتے چلے جا رہے ہیں پہلے برادریوں کے نام پر۔۔ کبھی لسانی اور علاقائی سوچ نے ہمیں پارہ پا رہ کیا۔۔ پھرفرقوں اور مسالک نے ہمیں تقسیم کر دیا اب طبقاتی سٹیٹس نے ۔۔اس نے ماتھے پرہاتھ رکھتے ہوئے ٹھنڈی آہ بھری یار اس ملک کے ساتھ کیا کیا ہو رہا ہے اور کسی کو مطلق احساس تک نہیں یہ بے خبری ہے یا تجاہل ِ عارفانہ ؟ آپ اسے اجتماعی بے حسی کا نام دے۔
سکتے ہیں میرے لہجے میں تلخی عود آئی اس کا کوئی حل بھی ہے۔۔۔وہ سراپا سوال تھا
شاید اب ہم اس منزل سے آگے نکل آئے ہیں ۔۔میں نے کہا مجھے تو بہتری کی کوئی امید نظر نہیں آرہی مایوس ہو گئے۔۔اس نے عجیب سے لہجے میں کہا۔۔۔میں گھبرا کر اٹھ کھڑاہوا۔۔۔اس نے کہا اب کیا ہوا؟ لگتا ہے۔۔۔ میرا ایمان کمزور ہو گیا ہے میں نے ہاتھ ملتے ہوئے جواب دیا مایوسی تو میرے مذہب میں کفر ہے۔۔۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہونا گناہ ہے ۔۔اس نے میرے ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا لیکن یار یہ سامنے کی بات لوگوں کی تمجھ میں کیوں نہیں آتی؟ شاید میری طرح ان کی بھی مت ماری گئی ہے میں نے جواباً کہا۔۔ان مکالموںنے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیاتنہائی میں غور وفکرکے کئی دریچے کھل گئے عجیب و غریب خیالات،کئی مظلوموں کے ہاڑے، بھوک سے بلبلاتے بچوں کی سسکیاں، کوڑا کرکٹ کے ڈھیر سے رزق تلاش کرنے والوں کے غم،پوری زندگی سسک سسک کر جینے والوںکی آہیں، ایک ایک لقمے کو ترستے لوگ، غربت کے ہاتھوں اپنی ہی زندگی کا خاتمہ کرنے والے بزدل یا پھر محرومیوں کا شکار اس ملک کے80%شہری جن کے پاس زندگی کی بنیادی سہولتیں بھی نہیں یا وہ بے بس۔۔۔ غربت کے مارے جواپنے لخت ِ جگر بیچنے کیلئے کتبے لگائے۔
شہر کی سڑکوںپر بیٹھے ہیں یاوہ جو روٹی کھانے کیلئے ہسپتالوںمیں اپنا خون بیچتے پھرتے ہیں یا اپنے ہی گردے بیچنے کیلئے مجبور ہیں میں کس کس کا تذکرہ کروں کس کس کا نوحہ پڑھوں۔ کس کس کی بات کروں۔۔ ایک طرف تیرا فرمان ہے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہونا گناہ ہے مایوسی تو اسلام میں کفر ہے۔۔۔ خدایا مجھے فہم و ادراک دے۔۔میری رہنمائی کر پھر یہ سب کچھ کیا ہے؟ظالموںنے مظلوموں کا جینا عذاب کیوں بنادیاہے میں سوچتاہوں ہمارے ملک کے نام کے ساتھ اسلامی جمہوریہ بھی لگا ہواہے لیکن یہ ملک اسلامی ہے نہ جمہوری۔۔۔اگرہو تو دونوں صورتوںمیں عوام کے کچھ حقوق تو ہونے چاہییں۔۔جن ممالک کو ہم کافر اورغیر مسلم قرار دیتے ہیں ان میں جانوروںکے بھی حقوق ہوتے ہیں اور ان کے حق میں آواز بلند کرنے کیلئے کئی تنظیمیں بھی موجود ہیں لیکن جس ملک کو ہم اسلامی جمہوریہ سمجھتے اور لکھتے ہیں یہاں تو غریب انسانوںکا کوئی حق تسلیم نہیں کیا جاتا وہ بے چارے ساری زندگی سسک، سسک کرجیتے ہیں نہ مرتے ہیں۔ کبھی سو چتاہوںہم تقسیم در تقسیم ہوتے چلے جارہے ہیں پہلے برادریوں کے نام پر۔۔ کبھی لسانی اورعلاقائی سوچ نے ہمیں تقسیم کیا۔۔ پھرفرقوں اور مسالک نے ہمیں اکائی بناڈالا اب طبقاتی سٹیٹس سے جینا محال ہے کیا ہمارے آ س پاس روشنی کی کوئی کرن نہیں؟۔۔۔۔
Allah
گلے شکوے، حالات کی شکائتیں اور مایوسی کی باتیں کرتے کرتے یوں لگا جیسے میرے دماغ میں روشنی کا ایک جھماکا ساہواہو پورا ماحول جگ مگ جگ مگ کرنے لگا میں تو روشنی کی ایک ایک کرن کو ترستا تھا یہاں ہر چیز روشنی میں نہائی ہوئی تھی حد ِ نظر روشنی ہی روشنی۔۔۔ جیسے نور ہی نور۔۔۔ دل نے سوال کیا الہی یہ کیا ماجرا ہے۔۔۔ لگا جیسے کسی نے دل کے دروازے پر دستک دی ہو۔۔ کوئی کہہ رہا ہو۔۔۔تم لوگوں نے اپنے آپ کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے گلے شکوے، شکائتیں اورمایوسی ہی کو زندگی سمجھ لیا ہے جانتے ہو غور نہ کرنے والے یقینا خسارے میں ہیں۔۔میں آنکھیں ملتاہوا اٹھ کھڑاہوا احساس ہو ا جیسے میرے اندر کوئی بول رہا ہو لہجہ تنبیہ جیسا لیکن مشفق۔۔۔ قدرت کا فیصلہ اٹل ہے۔۔۔ اللہ تعالیٰ کواپنے کہے کا پاس ہے یہ بشر ہی ہے جس نے فسادبپا کررکھاہے یہ انسان بننے کیلئے کیوں راغب نہیں ہوتا۔۔۔ حالات بدل سکتے ہیں ،محرومیاں ختم اور ایک نئے دور کا آغاز کوئی اچھنبے کی بات نہیں لیکن ا س کیلئے کوشش کرنا پڑتی ہے خدا کبھی اس کے حالات نہیں بدلتا جو خود خواہش اور عملی کوشش نہ کرے مسلمان ہونا ہی کافی نہیں اس کے ساتھ ساتھ انسان سے پیار اور انسانیت سے محبت لازمی شرط ہے مٹی کے پتلے نے شاید ہی سوچا ہو برادریوں کے نام پر۔۔ کبھی لسانی اورعلاقائی سوچ نے اسے کہاں لاکھڑا کیا ہے۔ فرقہ بندی اور مسالک کے جھگڑے اب طبقاتی سٹیٹس۔۔۔۔ اور کتنی پستی میں گرنے کا ارادہ ہے؟ کلیمی دو قدم کے فاصلے پر ہے حیف صد حیف کسی کو اس کا ادراک بھی نہیں۔۔۔میرے اندر کے انسان نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔
نہ کر خواج خضردیاں منتاں تیرے اندر آب ِ حیاتی ہو
جس دن اس معاشرہ کو تفرتوںکا خاتمہ اور انسانیت کااحترام کرنا آگیا آدھے سے زیادہ مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے ۔۔۔میں دل ہی دل میں دہرانے لگاحالات بدل سکتے ہیں ،محرومیاں ختم اور ایک نئے دور کا آغاز کوئی اچھنبے کی بات نہیں یقینا اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہونا گناہ ہے مایوسی تو اسلام میں کفرہے۔ کفرکا سینہ ایمان سے روشن کرنے کیلئے ہمت ، محنت ،کوشش اورجدوجہدناگزیرہے اللہ کسی کی محنت ضائع نہیں کرتا ہم نے اپنے حالات بدلنے کیلئے اپنی سوچیں بھی تبدیل کرناہیں اپنے شب و روز میں تبدیلی لانے کیلئے یہی سب سے پہلا فلسفہ ہے معاشرے سے غربت،جہالت ، افلاس کے خاتمہ کیلئے انتھک محنت کرناہے پیجھے مڑ کر نہیں دیکھنا آگے۔۔۔ اور آگے ۔۔۔ اور آگے بڑھتے ہی جاناہے سفر 100کلو میٹرکا ہو یا پھر چندکوس کا آپ پہلا قدم اٹھائیں گے تو طے ہوگا انسان کو اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات پیدا کیا ہے دنیا کا بڑے سے بڑا مسئلہ اس کے سامنے کچھ بھی نہیں۔۔۔بات وہی پیش ِ نظررکھیں کلیمی دو قدم کے فاصلے پرہے حیف صد حیف کسی کو اس کا ادراک بھی نہیں۔ایک بات کا فیصلہ کرلیں ہم نے ساری زندگی سسک، سسک کرجیناہے یا پھر دنیا کو کچھ کرکے دکھانا ۔۔۔ کچھ بن کر دکھاناہے جس کو یہ فلسفہ تمجھ میں آگیا اس کیلئے برادری، لسانی اورعلاقائی سوچ ،فرقہ بندی ، مسالک اور طبقاتی سٹیٹس کچھ معنی نہیں رکھتے انسانیت ہی مقدم رہے گی کلیمی دو قدم کے فاصلے پر ہے تو پھر جستجو کیوں نہیں؟۔
اس نے کہا عجیب شعر ہے مجھ کو ڈر ہے چاند پر بھی آدمی منتقل ہو جائے گا طبقوں سمیت میںنے کہا ایساہونا عین ممکن ہے۔۔۔ اس معاشرہ میں قدم قدم پر طبقاتی سٹیٹس موجودہے جس سے اب چھٹکارا پانا محال ہے اس نے کہا۔۔۔۔ نہیں یارکیسی بات کردی آپ نے؟ میں نے جواباً عرض کیا۔۔۔ کسی دفتر،پولیس اسٹیشن یا کسی شخصیت سے دو افرادکو ایک ہی نوعیت کا کام ہو ایک آدمی کا تعلق کسی عام سے علاقہ یا محلے سے ہو دوسرا ڈیفنس، بحریہ، عسکری یاماڈل ٹائون کا رہائشی ہو دونوں سے ایک جیسا طرز ِ عمل ۔۔ایک جیسا سلوک کبھی نہیں ہو گا اس نے گھبرا کر کہااس کا مطلب ہے بیڑاہی غرق ہو گیا ”ہاں۔۔۔میں نے آہ بھر کر یاسیت سے کہا ہم تقسیم در تقسیم ہوتے چلے جارہے ہیں پہلے برادریوں کے نام پر۔۔ کبھی لسانی اورعلاقائی سوچ نے ہمیں پارہ پا رہ کیا۔۔ پھرفرقوں اور مسالک نے ہمیں تقسیم کردیا اب طبقاتی سٹیٹس نے ۔۔اس نے ماتھے پرہاتھ رکھتے ہوئے ٹھنڈی آہ بھری یار اس ملک کے ساتھ کیا کیا ہورہاہے اور کسی کو مطلق احساس تک نہیں یہ بے خبری ہے یا تجاہل ِ عارفانہ ؟ آپ اسے اجتماعی بے حسی کا نام دے سکتے ہیں میرے لہجے میں تلخی عود آئی اس کا کوئی حل بھی ہے۔۔۔وہ سراپا سوال تھا شاید اب ہم اس منزل سے آگے نکل آئے ہیں۔۔میں نے کہا مجھے تو بہتری کی کوئی امید نظر نہیں آ رہی مایوس ہو گئے۔۔اس نے عجیب سے لہجے میں کہا۔۔۔میں گھبراکر اٹھ کھڑاہوا۔۔۔اس نے کہا اب کیا ہوا؟ لگتا ہے۔۔۔میرا ایمان کمزورہوگیاہے میں نے ہاتھ ملتے ہوئے جواب دیا مایوسی تو میرے مذہب میں کفرہے۔۔۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہونا گناہ ہے ۔۔اس نے میرے ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے کہ لیکن یار یہ سامنے کی بات لوگوں کی تمجھ میں کیوں نہیں آتی؟۔
Poverty
شاید میری طرح ان کی بھی مت ماری گئی ہے میں نے جواباً کہا۔۔ان مکالموں نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیاتنہائی میں غور و فکر کے کئی دریچے کھل گئے عجیب و غریب خیالات، کئی مظلوموں کے ہاڑے، بھوک سے بلبلاتے بچوںکی سسکیاں، کوڑا کرکٹ کے ڈھیر سے رزق تلاش کرنے والوں کے غم، پوری زندگی سسک سسک کر جینے والوں کی آہیں، ایک ایک لقمے کو ترستے لوگ، غربت کے ہاتھوں اپنی ہی زندگی کا خاتمہ کرنے والے بزدل یا پھر محرومیوں کا شکار اس ملک کے 80% شہری جن کے پاس زندگی کی بنیادی سہولتیں بھی نہیں یا وہ بے بس۔۔۔ غربت کے مارے جو اپنے لخت ِ جگر بیچنے کیلئے کتبے لگائے شہر کی سڑکوں پر بیٹھے ہیں یاوہ جو روٹی کھانے کیلئے ہسپتالوں میں اپنا خون بیچتے پھرتے ہیں یا اپنے ہی گردے بیچنے کیلئے مجبور ہیں میں کس کس کا تذکرہ کروں کس کس کا نوحہ پڑھوں۔ کس کس کی بات کروں۔۔ ایک طرف تیرا فرمان ہے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہونا گناہ ہے مایوسی تو اسلام میں کفر ہے۔۔۔ خدایا مجھے فہم و ادراک دے۔۔میری رہنمائی کر پھر یہ سب کچھ کیا ہے؟ظالموں نے مظلوموں کا جینا عذاب کیوں بنادیاہے میں سوچتاہوں ہمارے ملک کے نام کے ساتھ اسلامی جمہوریہ بھی لگا ہوا ہے لیکن یہ ملک اسلامی ہے نہ جمہوری ۔۔۔اگرہو تو دونوں صورتوں میں عوام کے کچھ حقوق تو ہونے چاہییں۔۔جن ممالک کو ہم کافر اورغیر مسلم قرار دیتے ہیں ان میں جانوروںکے بھی حقوق ہوتے ہیں اور ان کے حق میں آواز بلند کرنے کیلئے کئی تنظیمیں بھی موجود ہیں لیکن جس ملک کو ہم اسلامی جمہوریہ سمجھتے اور لکھتے ہیں یہاں تو غریب انسانوں کا کوئی حق تسلیم نہیں کیا جاتا وہ بے چارے ساری زندگی سسک، سسک کر جیتے ہیں نہ مرتے ہیں۔
کبھی سوچتا ہوں ہم تقسیم در تقسیم ہوتے چلے جا رہے ہیں پہلے برادریوں کے نام پر۔۔ کبھی لسانی اورعلاقائی سوچ نے ہمیں تقسیم کیا۔۔ پھرفرقوں اور مسالک نے ہمیں اکائی بناڈالا اب طبقاتی سٹیٹس سے جینا محال ہے کیا ہمارے آ س پاس روشنی کی کوئی کرن نہیں؟ ۔۔۔ گلے شکوے، حالات کی شکائتیں اورمایوسی کی باتیں کرتے کرتے یوں لگا جیسے میرے دماغ میں روشنی کا ایک جھماکا ساہواہو پوراماحول جگ مگ جگ مگ کرنے لگا میں تو روشنی کی ایک ایک کرن کو ترستا تھا یہاں ہر چیز روشنی میں نہائی ہوئی تھی حد ِ نظر روشنی ہی روشنی۔۔۔ جیسے نور ہی نور۔۔۔ دل نے سوال کیا الہی یہ کیا ماجرا ہے۔۔۔ لگا جیسے کسی نے دل کے دروازے پر دستک دی ہو۔۔ کوئی کہہ رہاہو ۔۔۔تم لوگوںنے اپنے آپ کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیاہے گلے شکوے، شکائتیں اورمایوسی ہی کو زندگی سمجھ لیا ہے جانتے ہو غور نہ کرنے والے یقینا خسارے میں ہیں۔۔میں آنکھیں ملتاہوا اٹھ کھڑاہوا احساس ہو ا جیسے میرے اندر کوئی بول رہا ہو لہجہ تنبیہ جیسا لیکن مشفق۔۔۔ قدرت کا فیصلہ اٹل ہے۔۔۔ اللہ تعالیٰ کواپنے کہے کا پاس ہے یہ بشر ہی ہے جس نے فسادبپا کر رکھا ہے یہ انسان بننے کیلئے کیوں راغب نہیں ہوتا۔۔۔ حالات بدل سکتے ہیں ،محرومیاں ختم اور ایک نئے دور کا آغاز کوئی اچھنبے کی بات نہیں لیکن ا س کیلئے کوشش کرنا پڑتی ہے خدا کبھی اس کے حالات نہیں بدلتا جو خود خواہش اور عملی کوشش نہ کرے مسلمان ہونا ہی کافی نہیں اس کے ساتھ ساتھ انسان سے پیار اور انسانیت سے محبت لازمی شرط ہے مٹی کے پتلے نے شاید ہی سوچا ہو برادریوں کے نام پر۔۔ کبھی لسانی اورعلاقائی سوچ نے اسے کہاں لاکھڑا کیا ہے۔ فرقہ بندی اور مسالک کے جھگڑے اب طبقاتی سٹیٹس۔۔۔۔ اور کتنی پستی میں گرنے کا ارادہ ہے؟ کلیمی دو قدم کے فاصلے پرہے حیف صد حیف کسی کو اس کا ادراک بھی نہیں۔۔۔میرے اندرکے انسان نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔
نہ کر خواج خضردیاں منتاں تیرے اندر آب ِ حیاتی ہو
جس دن اس معاشرہ کو تفرتوں کا خاتمہ اور انسانیت کااحترام کرنا آگیا آدھے سے زیادہ مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے ۔۔۔میں دل ہی دل میں دہرانے لگاحالات بدل سکتے ہیں، محرومیاں ختم اور ایک نئے دور کا آغاز کوئی اچھنبے کی بات نہیں یقینا اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہونا گناہ ہے مایوسی تو اسلام میں کفرہے۔ کفرکا سینہ ایمان سے روشن کرنے کیلئے ہمت، محنت ،کوشش اورجدوجہدناگزیرہے اللہ کسی کی محنت ضائع نہیں کرتا ہم نے اپنے حالات بدلنے کیلئے اپنی سوچیں بھی تبدیل کرناہیں اپنے شب و روز میں تبدیلی لانے کیلئے یہی سب سے پہلا فلسفہ ہے معاشرے سے غربت، جہالت، افلاس کے خاتمہ کیلئے انتھک محنت کرنا ہے پیجھے مڑ کر نہیں دیکھنا آ گے۔۔۔ اور آگے۔۔۔ اور آگے بڑھتے ہی جاناہے سفر 100کلو میٹرکا ہو یا پھر چندکوس کا آپ پہلا قدم اٹھائیں گے تو طے ہوگا انسان کو اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات پیدا کیا ہے دنیا کا بڑے سے بڑا مسئلہ اس کے سامنے کچھ بھی نہیں۔۔۔بات وہی پیش ِ نظررکھیں کلیمی دو قدم کے فاصلے پرہے حیف صد حیف کسی کو اس کا ادراک بھی نہیں۔ایک بات کا فیصلہ کرلیں ہم نے ساری زندگی سسک، سسک کرجیناہے یا پھر دنیا کو کچھ کرکے دکھانا ۔۔۔ کچھ بن کر دکھاناہے جس کو یہ فلسفہ تمجھ میں آ گیا اس کیلئے برادری، لسانی اورعلاقائی سوچ، فرقہ بندی، مسالک اور طبقاتی سٹیٹس کچھ معنی نہیں رکھتے انسانیت ہی مقدم رہے گی کلیمی دو قدم کے فاصلے پرہے تو پھر جستجو کیوں نہیں۔