ابھی لکھیں تو کیا لکھیں ہر اک جانب اداسی ہے ابھی سوچیں تو کیا سوچیں؟ ہر اک سُو، ہُو کا عالم ہے ابھی بولیں تو کیا بولیں؟ ہر اک انسان پتھر ہے ابھی دھڑکیں تو کیا دھڑکیں؟ فضا پر نیند طاری ہے۔ ہر اک مقتل کی شہہ رگ سے لہو کی لہر جاری ہے۔ ابھی دیکھیں تو کیا دیکھیں؟ ہر اک انسان کا سایہ۔ ابھی مٹی پہ بھاری ہے۔ ابھی لکھیں تو کیا لکھیں؟
Mohsin Naqvi
محسن نقوی نے یہ نظم کب لکھی معلوم نہیں۔ لیکن یہ ہمارے آجکل کے حالات کی مکمل عکاسی کرتی ہے سچ تو یہ ہے کہ جنھوں نے ہمیں اس انجام تک پہنچایا ہے ،اب وہ خود بھی پریشان ہیں ۔ہر روز ایک نیا سانحہ ،ہر روزایک بری خبر، اعتبار تو کسی کا رہا نہیں انتظار ہی باقی رہ گیا ہے وہ بھی ہر روز کسی بری خبر کا ۔کوئی دن ہی شائد اب عافیت سے گزرتا ہو۔
ایک خبر پڑھ کے دل میں عجیب سا خیال آیا خبر کیا تھی کہ اب ایجنسیوں کو بھی دہشت گردی کا علم ٹی وی چینلز پہ چلنے والے بریکنگ نیوز کے” ٹکرز” سے ہوتا ہے۔ یہ کیوں نہیں سوچا جاتا کہ کہیں اس میں” سب سے پہلے نیوز ہم نے دی ”کے خواہش مند تو شامل نہیں؟؟؟ گو ہر طرف کیمرے کا راج ہے مگر مجرم پھر بھی صاف بچ کے نکل جاتے ہیں۔ جہاں سے زرا بھی انصاف ملنے کی امید پائی جاتی ہو اسے راہی عدم کر دیا جاتا ہے لیکن جہاں سے مارنے والوں کو حمایت ملنی ہو انہیں گرم ہوا بھی نہیں لگتی بلکہ وہ کروڑوں ، اربوں میں کھیل رہے ہیں۔ اب تو اراکین اسمبلی کے خوف کا یہ عالم ہے کہ سینیٹر اور اراکین اسمبلی نے سینٹ کے چیئرمین اور قومی اسمبلی کے سپیکر سے درخواست کی ہے کہ ان اداروں کی آفیشل ویب سائیٹ سے ان کی تصاویر، گھر کا پتہ، فون نمبرز اور ای میل ایڈریس ہٹا دیئے جائیں پہلے جو، سینیٹر اور ایم این اے بڑے فخر سے اپنی گاڑیوں پر ” مونوگرام ” لگا کر گھوما کرتے تھے اب خوف کے باعث انہوں نے یہ مونوگرام بھی ہٹا دیئے ہیں۔ کہتے ہیں ”جان ہے تو جہان ہے ” جہان بھی تب تک آباد ہوتا ہے جب آپ کی سرحدیں محفوظ ہوں، محافظ الرٹ ہوں محافظوں کے ہاتھ باندھ کر آپ چین کی نیند تو نہیں سو سکتے نا؟
ایک خوفناک سچ یہ ہے کہ ہر کوئی اپنے آپ کو بچانے میں لگا ہے۔ اور میڈیا ایک تواتر سے” لڑائو اور تماشہ دیکھو ”کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے دلوں میں نفرتوں اور بغاوتوں کے بیج بونے کے بعد اب پھول تو کھلنے سے رہے۔حال تو بدتر ہوا ہی ہے مستقبل بھی مخدوش نظر آتا ہے ایسے میں جتنی عقل کی ضرورت ہے جتنی سمجھداری سے کام لینے کی ضرورت ہے، جتنی قومی یکجحتی کی ضرورت ہے وہ دور دور تک نظر نہیں آتی حکمران اچھا بھی کریں تو اُلٹا پڑ جاتا ہے کیونکہ اچھا کرنے کے لیئے اچھی نیت ہونا ضروری ہے۔ جبکہ ان کو نہ تو اچھے مشیر میسر ہیں اور نہ ہی دلوں میں خوف خدا باقی ہے۔ ایک جھوٹ کو چھپانے کے لیے ہزار جھوٹ بولنے پڑتے ہیں ۔ان کو سچ سننے کی عادت نہیں اور سچ یہ ہے کہ کسی دل سے ان کے لیے دعا تو کیا نکلے صرف بد دعا ہی نکلتی ہے۔ ہمارے ملک میں عام آدمی کا جینا تو حرام ہوا ہی تھا اب اچھے کھاتے پیتے لوگ بھی تفکر کے مارے سو نہیں سکتے کہ جانے کیا ہوگا؟ گرمی میں لوڈ شیڈنگ اور بجلی کے بلوں کا تصور ہی لرزائے دیتا ہے، ہر شخص سوچتا ہے زیادہ سے زیادہ کما لوں تا کہ میری زندگی آسان ہو ،اپنی آسانی کے لیے وہ دوسرے کا نقصان کر دیتا ہے ،اور اسےاحساس تک نہیں ہوتا کیونکہ وہ خود کو حق پر سمجھتا ہے۔ جب حکمران ظالم ہوں تو رعایا بھی بدنیت ہو جاتی ہے ،کوئی آفت آجائے تو اس کے پردے میں بھی اپنی جیبیں بھر لی جاتی ہیں ،اسی لیئے اب ان کے ہر عمل کو لوگ شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں چولستان اور تھر میں قحط اور خشک سالی کوئی نئی بات نہیں۔
Culture
یہاں کے لوگوں کا رہن سہن، ریت رواج، خوراک وغیرہ ہر شئے ہم لوگوں سے مختلف ہے۔ باجرے کی روٹی کھاتے ہیں جھاڑیوں میں اگنے والی نباتات کو جن میں سانگلیاں، پھگوسی، بھاٹا، کرہوں وغیرہ کو پکا کے بطور سالن استعمال کرتے ہیں”چینڑے کا بھت” اس علاقے کی خاص سوغات ہے، پٹھانے خان کی آواز میں بابا فرید کی ایک کافی بھی ہے ”چینڑا انج چھڑیندہ یار ” چولستان جس کو روہی بھی کہتے ہیں اسکی پیاس مشہور ہے لیکن اس پیاسی روہی کا بھی اپنا ایک حسن ہے۔ ان علاقوں کا حسن اور کلچر تباہ کرنے سے بہترہے کہ وہیں پر ان کو پانی اور علاج معالجے کی سہولیات فراہم کی جائیں۔ روہی میں ہمارے مرید رہتے تھے وہ جب بھی آتے اپنے علاقے کی سوغاتیں لے کر آتے ان کے چٹے سفید دانتوں کا راز ”پیلو اور کنیر کی مسواک تھی ”ان کی بکریاں روہی کے نباتات پر پلتی تھیںجن کا وہ دودھ پیتے تھے۔ پانی کی تلاش میں میلوں پیدل چلنا دس دس گھڑے سروں پے اٹھانا انکی زندگیوں کا حصہ ہے ان علاقوں کے لوگ ایسی سخت زندگی کے عادی ہوتے ہیں۔یہ لوگ نقل مکانی کر لیتے ہیں۔ لیکن جہاں جاتے ہیں محنت مزدوری کرتے ہیں کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے، حتٰی کہ ان کی عورتیں بچے تک سخت سردی اور سخت گرمی میں سڑکوں پر روڑی کوٹتے، اینٹیں ڈھوتے، بھٹوں پر اینٹیں بناتے دیکھے جا سکتے ہیں مگر بھیک مانگتے کبھی نہیں دیکھا۔ لیکن اب ان کو بھی بھیک پر لگایا جائے گا ان کے سبز قدم جہاں پڑتے ہیں وہاں سے غیرت اور انا کا جنازہ اُٹھ جاتا ہے۔ یہی حال سندھ کے تھر کا ہے تھریوں کی زندگی بھی محنت مشقت سے عبارت ہے۔ وہ بھی پانی کی تلاش میں بھٹکتے پھرتے ہیں بارش ہی ایسے علاقوں میں زندگی ہے ان کی بنائی رلیاں اور کڑھایئبوں کا ایک خاص حسن ہے۔ جن سے بیگمات نے کروڑوں کمائے ہیں مگر انہیں کوئی پانی تک مہیا نہیں کر سکا۔ اگر انہیں صرف پانی اور علاج کی سہولت حاصل ہو جائے تو ان کی زندگیاں آسان ہو جائیں۔ انہیں نہ تو ان کے دوروں کی ضرورت ہے نہ انکے کروڑوں، اربوں کی۔
پانی نہ ہونے کی وجہ سے ان کے جانور مرتے ہیں اور جانور مرنے کے بعد بچے مرتے ہیں ،پہلے تھر کا حسن مور مرے، اسی وقت اس خطرے کا ادراک کر لینا چاہیئے تھا قحط کا خدشہ موجود تھا لیکن اربوں روپے سندھی ثقافت کے نام پر برباد کرنے والی سندھ حکومت پہلے تو بھنگ پی کر سوئی رہی۔ سنا ہے بھنگ کے نشے میں ایک خاصیت ہوتی ہے کہ جس موڈ میں بھنگ پیو وہی موڈ نشہ اترنے تک باقی رہتا ہے سید قائم علی شاہ صاحب نے بھی عادت بنا لی ہے گھوٹا لگائو اور ہر مسلہء بھول جائو ورنہ اس سال قحط کی نشاندہی کر دی گئی تھی، جس ملک میں ڈیم نہ بنیں اور دشمن دریائوں کا پانی بھی روک لے تو وہاں صرف تھر میں ہی قحط نہیں پورے ملک میں ایسی آفتوں کا خطرہ موجود ہے پانی اور بجلی کی کمیابی نے جو حشر زراعت کا کیا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، اب کے میں اپنے گائوں گئی تو راستے میں آنے والی ہر شوگر مل کے باہر سے لے کر اندر تک جاتی گنوں سے سے لدی ٹرالیا ں ویسے ہی کھڑی تھیں جیسے دو ہفتے پہلے کھڑی تھیں، گنا سوکھ کے وزن میں آدھا بھی نہیں رہا۔ٹرالیاں بھی سب کسانوں کی اپنی نہیں ہوتیں بے چارے کرایوں پر حاصل کرتے ہیں اور ٹرالیوں کے مالک روز کے روز کرایہ وصول کر لیتے ہیں خنکی اور بارش میں بھی کسان اپنی ٹرالیوں کے ساتھ بیٹھے رہنے پر مجبور ہوتے ہیں روٹی چائے پانی کا خرچہ الگ رونی صورتوں والے ادھ موئے کسان جی بھر کے حکومت کو بد دعائیں دیتے ہیں۔
کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں کہ آئیندہ فصل نہیں بونی ۔تغاری اٹھا لیں گے، بھیک مانگ لیں گے، چوری کر لیں گے۔ کماد نہیں اگائیں گے سارا عرصہ محنت کر کے کیا ملا خون پسینہ ایک کر کے فصل اگائی اور اب حالت یہ ہے کہ سزا کی طرح دن کاٹ رہے ہیں۔ کب ٹرالیوں سے گنا اترے گا کب ہما ری محنت کا صلہ ملے گا۔ پچاس من ویسے ہی ہر ٹرالی سے مہنا کر دیا جاتا ہے اور باقی گنا سوکھ کر وزن گرا دیتا ہے پھر اتنے انتظار اور خواری کے بعد مل مالکان جو بھی ریٹ لگائیں لینا پڑتا ہے کہ بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی، اور کچھ نہیں تو لاگت ہی واپس مل جائے۔ ان حوصلہ شکن حالات میں شاہان وقت کو دعا کون دے گا؟ ملک کی تمام شوگر ملوں پر ان کا قبضہ ہے لیکن چینی کا ریٹ کبھی کم نہیں ہوتا۔ ان کا حال تو اس بادشاہ جیسا ہو چکا ہے علامہ اقبال نے ”اسرار و رموز ” میں حضرت میاں میر کا ایک واقعہ نظم کیا ہے۔
جس کے مطابق حضرت میاں میر کے ارادت مندوں میں ہندوستان کا ایک بادشاہ بھی تھا …….وہ ان دنوں دکن کی ایک ریاست پر قبضہ کرنے کے لیئے مصروف جنگ تھا ایک روز اس بادشاہ نے حضرت میاں میر کی خدمت میں حاضر ہو کر دعا کے لیے درخواست کی کہ دکن کی ریاست پر اسے فتح حاصل ہو آپ یہ بات سن کر خاموش رہے، یہاں تک کہ اسی وقت آپکے ایک عقیدت مند نے چاندی کے کچھ سکے آپکی نذر کیے …..اور درخواست کی کہ یہ حقیر نذر قبول فرمائیں …حضرت میاں میر قادری نے اپنے عقیدت مند سے مخاطب ہو کر فرمایا یہ روپیہ ہمارے اس بادشاہ کو دے دو جو بادشاہی کے لباس میں گداگر ہے ….اگرچہ اسکی حکومت دور دور تک پھیلی ہوئی ہے لیکن پھر بھی اس کا شمار دنیا کے مفلس ترین لوگوں میں ہوتا ہے کہ وہ اپنی نظریں لوگوں کے دستر خوانوں پر جمائے ہوئے ہے۔ اس کی حرص و ہوس اور بھوک نے فساد پھیلا رکھا ہے ……اس کی ناداری سے اللہ کی مخلوق پریشان ہے۔ اس کی تہی دستی سے ضعیف آزار میں مبتلا ہیں۔ اس کی سطوت اہل جہاں کی دشمن ہے …اس کا کارواں نوع انسانی کا رہزن ہے …اس نے اپنے فکر خام کی وجہ سے لُوٹ مار کا نام تسخیر رکھ لیا ہے۔
…خود اس کا لشکر اور اس کے غنیم کا لشکر اس کی بھوک کی تلوار سے ٹکڑے ٹکڑے ہیں…شائد اس کو معلوم نہیں کہ بھکاری کی بھوک کی آگ تو اسی کی حد تک محدود رہتی ہے …لیکن بادشاہ کی بھوک کی آگ ملک و ملت کو فنا کر دیتی ہے ….. ہمارے بادشاہوں کی بھوک نہ جانے کب مٹے گی۔ پاکستان میں چلنے والے ہر کاروبار کو یہ اپنے نام کر لینا چاہتے ہیں۔ اتحاد شوگر مل میاں حمزہ شہباز خرید رہے ہیں اب تک سودہ مکمل ہو چکا ہو گا لیکن نئی انتظامیہ کے مل سنبھالنے تک کسان رلتے رہیں گے اور اتنے سارے مسائل کے درمیان ہماری سوچیں یہیں پہ اٹکی رہیں گی کہ لکھیں تو کیا لکھیں !