تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری جعلی مینڈیٹ والے موجودہ و سابقہ کرپٹ و بد کردار حکمرانوں کے دور میں ان کی انتہائی بد انتظامیوںاور لاپرواہیوں کی وجہ سے قصابوں نے ہمیں بیمار و مردہ جانوروں حتیٰ کہ گدھے تک کا گوشت بھی کھلا ڈالا ہے جبکہ سابق ادوار میں توکتا ذبح کرتے ہوئے بھی افرادرنگے ہاتھوںپکڑے جاچکے ہیں عوام کو حرام و انتہائی بد بودار گوشت کھا کر سابقہ اور مو جودہ سبھی حکمران ٹولوںکے نزدیک پھٹکنے سے انتہائی بدبوکے ببھوکے محسوس ہوتے ہیں۔ مہنگائی کی یہی صورتحال رہی توآئندہ لوگ عید قربان پربکروںکی جگہ وڈیروں،سودخورسرمایہ داروں اور انگریز کے پھٹو جاگیرداروں کو ہی قربان ہوتا دیکھنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہو گا ۔کہ سارے ملک کا سرمایہ توفی ایک ہزار افراد میں سے صرف ایک شخص کے پاس جمع ہوتا چلا جارہا ہے۔ نابغٔہ عصرو عقبریٔ اسلام ایک نامور (مرحوم) عالم دین جن کی تحریریںاور کتب میرے لکھے گئے پمفلٹ”آئینہ مرزائیت “کی طرح دنیا میں سب سے زیادہ زبانوں میں ترجمہ ہو کر پڑھی جاتی ہیں نے پاکستان بننے سے قبل ہی دنیا بھر کے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو انتباہ کرتے ہوئے کہاتھا کہ اب سرمایہ داری کا دور لد چکا۔
روپے کی خدائی کا تخت متزلزل ہے ناجائز جمع کردہ سرمایہ کو اب بہر حال جانا ہے ایک ہاتھ وہ ہے جو آپ کے سرمایہ کے ساتھ آپ کو بھی لے ڈوبے گا اور دوسرا ہاتھ وہ ہے جو جب بھی اٹھے گا انصاف کے لیے اٹھے گااور آپ سے اتنا ہی چھینے گاجتنا آپ نے ناجائز طور طریقوں سے جمع کررکھا ہے بہر حال سرمایہ داری ایک ناسور ہے اور اسلام اس کا نشتر ہے۔ معیشت کے بارے میں انہوں نے اپنی کتب سود ،معاشیات اسلام میں سیر حاصل بحث کی ہے۔اور سب سے پہلے فوجی ڈکٹیٹر ایوب خان کی چین جاکر ماؤزے تنگ سے ملاقات کاواقعہ تو عوام نہیں بھولے کہ جب چھوٹی سی بیٹھک میں ملاقات شروع ہو ئی تو انھیں گرمی محسوس ہوئی تو سوال کرڈالا کہ آپ کے ہاں پنکھے کس ماہ میں چھتوں پر لٹکائے جاتے ہیں فوراً چینی صدر جسے آپ لاکھ بے دین اور کیمو نسٹ کہتے رہیں نے جواب دیا کہ میں پنکھے لگوارہا ہوں ہمارا ملک غریب ہے جب تمام عوام کی چھتوں پر پنکھے لٹک جائیں گے تو آخری پنکھا میں لگوا لوں گا(mine will be the last fan (جبکہ67سال سے ہم اللہ اکبر اور لا الہ الا اللہ کے نعروںکوبھلا کر ڈالروں کی گنتی کی تسبیحاں کرتے چلے آرہے ہیں
حکمران ہو ش کے ناخن لیں کہ تمہارے پلازے ،جنگلہ بسیں اور کھلی سڑکیں انسانوں کے لیے خوراک اور پیاس کا متبادل نہیں ہیں تم خزانوں پر سانپ بن کر بیٹھے ہو اور ان کواپنے اللے تللے کاموں پر لٹا رہے ہوقوم تمہیں کبھی معاف نہیں کرے گی جاگ چکی ہے ظلم و اندھیرے کی رات کی کوکھ سے صبح ضرور جنم لے گی۔شاید تمہارے رائے ونڈی و زرداری محلات سے تمہار ے ہیلی کاپٹروں کو بھی اڑنے کا موقع نہ مل سکے ہمہ قسم استحصال ، مہنگائی ، بیروز گاری ، بدامنی کے لیے مؤثر پلان بنا ڈالو وگرنہ سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا ۔جب لاد چلے گا بنجارا۔سود خور کرپٹ حکمران اور نو دولتیے سرمایہ دار پورے ملک کی دولت پر سانپ نہیں اژدھے بنے بیٹھے ہیںایسے ماحول میں بھوکے سانپوں کوخود ہی ان سے نپٹنا ہو گاکہ عوام تو صرف جعلی نعروں اوروعدوں پرووٹ ہی دینے کے قابل ہیں اور مسلسل دھوکے کھاتے ہیں۔
Election
سابقہ انتخابات میں تو جعلی بینکوں کے چیک دیکر دیہاتیوں سے ووٹ ٹھگ لیے گئے دوسرے امیداوارنے بجلی کے کھمبے بنانے والی فیکٹریوں سے بجلی کے پول منگوا کر چکوک اور ٹبہ آبادیوں پر پھنکوادیے کہ بجلی آپ کے علاقہ میں لگ رہی ہے اور فراڈ کے زریعے ووٹ حاصل کرکے منتخب ہو گئے اور بجلی کے کھمبے اکھاڑ کرواپس فیکٹریوں میں بھجوادیے گئے اورا یسے امیداور بھی منتخب ہو ئے جنہوں نے میٹرک پاس بچیوں کو پی ٹی سی ٹیچر کی تعیناتی کے جعلی لیٹر لا کر دیے اور اسی طرح نمبر داروں اور مؤثر افراد کے بچوں کو کلرک و سرکاری ادروں میں چپڑاسی رکھوانے کے جعلی لیٹر دیکرووٹروں کو الو بنا کر جیت گئے عوام مسلسل دھوکے کھاتی رہی ہے انھیں غربت اور بیروزگاری سر کھجلانے تک کی فرصت نہیں دیتی خدائے عزو جل پاکستان بننے پر لاکھوں شہید مائوں بہنوں بچوں ،بچیوں کے طفیل اس دفعہ سبھی موجودہ و سابقہ حکرانوں سے جان چھڑوا کر اسی کے پاک نام اور آقائے نامدار محمدمصطفیٰ ۖ کے صدقے اللہ اکبر کی تحریک کو کا میاب کریں گے کہ لوگ یہ جان چکے ہیں کہ اب ہماری جنگ آخری۔مورچہ چھوڑ نہ جائے کوئی ۔حکمرانو! مستقبل قریب کے حالات سے ڈروجب سنگلاخ چٹانوں اور ویران ریگستانوں میں سانپوں اور اژدھوں کی حکمرانی ہو گی اور بھوکے پیاسے سانپ،بچھو اور اژدھے ہمارے ہی صحرائوں سے نکل کرشہروںکا رخ کر جائیں گے اور میٹھا پانی بالکل دستیاب نہ ہو نے کی وجہ سے آدمی آدمی کے ہی خون کا پیاسا ہو گااور حشرات الا ارض و جنگلی جانوراور بھوکے پیاسے نڈھال کسان پانی کی تلاش میں سرگرداں ہوں گے۔
زمین کے اندر رہنے والے سبھی حشرات سانپ بچھو وغیرہ خشک اور بنجر زمین میں رہ نہیں سکتے غرضیکہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا راج ہو گا!ڈاکوئوں ، لٹیروں کے گروہ اور جتھے مختلف علاقوں پر قابض ہو کراپنی حکمرانی کے سکے چلانے لگیں گے دریائے بیاس تو ہندو بنئیے کو بیچ ڈالا گیا تھا پاکستان بنتے ہی ہندو سامراجیوں نے اپنے آقائوں کے ساتھ مل کر جو 75سالہ پلان بنا یا تھا وہ کامیاب ہوتا نظر آرہا ہے بھارتیوں نے بہت محنت کرکے اپنے چولستان اور بنجر زمینوں کو آباد کرلیا ہے اور ہم ٹھہرے کام چور ، بجلی چور اور رشوت خور اورا ب تو دریائے ستلج کی گزرگاہ تک صحرائے گوبی کی طرح چولستانی ریگستانوںمیں تبدیل ہو چکی ہے ہم پاکستانی ملت نے اپنے آپ کو فرقوں، لسانی گروہوں اور برادریوں میںتو تقسیم کرڈالا ہے مگر بھارت کے ساتھ پانی کی تقسیم میں ناکام ہو چکے ہیں۔ آبی دہشت گرد بھارت چھوٹے بڑے تین درجن سے زائد ڈیم بنا کرہمیں بھوکا پیاسا مارنے کے لیے خوفناک پلان بنا چکا ہے ادھر ہم”ہنوز دلی دور است “کے مصداق اور پنگھوڑے میں پڑے آخری مغل عیاش رنگیلے بادشاہ کی طرح”دے سیراں چوٹا”کا راگ الاپ رہے ہیں فوجی ڈکٹیٹر ہوں یا جمہوری کرپٹ آمر حکمران سبھی اپنا اپنا کردار ادا کرچکے ہیں کہ بچھو ئوں کی طرح جس کی بھی دم پر ہاتھ لگائو ہمارے ہاں وہی سردار ہے ۔غریب عوام کے خون پرقائم پاکستانی بینکوں اور خزانوں سے کھربوں روپے لوٹ کربیرون ممالک جمع کیے گئے ہیں اور ان کی اولادیں تک و ہاں صنعتوں کے ایمپائر و پلازے کھڑے کرچکی ہیں اور عوا م کی طرف سے آخری دھکا دینے کی انتظار میں ہیں و گرنہ ان کا تو اس “دیار غیر” میں دل نہیں لگتاوہ بیرون ملکوں کی رنگین راتوں اور شراب و کباب کی محفلوں کے رسیاہیں سیاسی جھٹکا ہوتے ہی سبھی حکمران ٹولوں کی رات کے اندھیروں میں بھاگ جانے کی تیاریاں مکمل ہیں بلاول وزردای ہائوسز میں ایسے ہیلی پیڈ بن گئے ہیں
جن میں دو تین ہیلی کاپٹر وں میں ہمہ وقت ڈرائیور انھیں پلک جھپکنے میں اڑانے کے لیے مو جود ہیں عمرانی بنی گالائی محلات میں بھی ایسی تیاریوں کے پلان بن رہے ہیں حکمرانو! ڈرو اس وقت سے کہ ایرانی بادشاہ رضا شاہ پہلوی کو دو گز زمین کا ٹکڑا اسکے یورپی آقائوں نے دفن ہو نے کے لیے نہ دیا تھا شریف برادران ،زرداری اور عمران خان غور سے سنو کہ تمہارے محلات میں توپھٹے پرانے میلے کچیلے کپڑوںاور ٹوٹی پھوٹی جوتیوں والے غریب پسے ہوئے طبقات کے لوگ حتیٰ کہ تمہارے ہی کارکنان داخل تک نہیں ہو سکتے مگر آپ کی شہ زوریوں اور اکڑی گردنوں کو دیکھ کر ان مجبوروں کی آنکھوں میں خاص چمک پیدا ہو چکی ہے وہ بحری قذاقوں کی طرح تمہارے ہی خون کے پیاسے ہو کر اپنے ہی نچوڑے گئے خون سے تعمیر کردہ تمہارے محلات کی اینٹ سے اینٹ بجاڈالنا چاہتے ہیںکسانو ں ، مزدوروں ، کے ممکنہ لانگ مارچ کے وقت تمہارے گن مین اور حفاظتی باڑیںان کا راستہ نہیں روک سکیں گی۔ کہ وہ حکمرانوں کی حرام خوراکیوں کی بدولت تیار ہونے والے تمہارے ڈھول نماتوندوںپراچھلناکودنا اوربدبودارجسموں کو دریا بُردہوتا دیکھناچاہتے ہیں جنہوں نے غرباء کے جسموں سے آخری قطرہ ٔخون تک نچوڑ ڈالا ہے۔