شہر کے بیشتر علاقوں میں کبھی گیس کی لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے تو کبھی قلت آب کا مسئلہ۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ تو گرمیوں کی آمد کے ساتھ ہی بڑھتی چلی جاتی ہے اور نوبت غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ تک جا پہنچتی ہے۔ گیس اور پانی ہماری زندگی کا اہم مسئلہ ہے جس کی وجہ سے گھریلو صارفین کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گیس کی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے گھروں میں لوگوں کو کھانے پکانے کا مسئلہ الگ ہوتا ہے اور بسوں ، گاڑیوں میں سی این جی کی صورت میں گیس غائب ہونے سے الگ پریشانی جھیلنا پڑتی ہے۔
سی این جی نہ ملنے کی صورت میں سی این جی اسٹیشن پر گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ جاتی ہیں اورلوگوں کا گھنٹوں کا وقت لائن میں لگنے کے باعث برباد ہوجاتا ہے۔ ان قطاروں میں ایسے افراد بھی شامل ہوتے ہیں کہ جن کو ہسپتال جانا ہوتا ہے یا امتحانی مراکز پہنچنا ہوتا ہے یا اور بہت سے ضروری کام ہوتے ہیں مگر سی این جی لائن میں وقت ضرورضائع ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے ہر روز طلبہ و طالبات بھی اسکول اور کالج وقت پر نہیں پہنچ پاتے اور لوگ کام سے بھی لیٹ ہو جاتے ہیں۔
دوسری جانب قلت آب کے مسئلے نے تو جڑیں ہی گہری کرلی ہیں۔ آئے روز پانی کی کمی ہورہی ہے۔ جس کی وجہ سے احتجاج، دھرنے اور روڈ بلاک، جلائو گھیرائو کے ساتھ کاروبار بند ٹریفک متاثر، پولیس انتظامیہ انتہائی پریشان دیکھائی دیتی ہے۔ ایسے حالات میں جب خواتین گھروں کی چار دیواری سے نکل کر سڑکوں پر آجاتی ہے تو پولیس ہزار چاہنے کے باوجود بھی کچھ کرنے سے قاصر دیکھائی دیتی ہے۔ گزشتہ روز کراچی کے علاقے اورنگی ٹائون میں پانی کی کمی اور واٹر ٹینکرز مافیہ کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ایک خاتون پھسل کر گر گئی جس سے اس کے پائوں کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ اس کا احتجاج اپنی جگہ درست تھا مگر اس نئی مصیبت نے ماں سمیت بیٹیوں کو بھی پریشانی میں ڈال دیا۔
یہ ایسی ضروریات ہے کہ جن سے ہمارے مستقبل کا لمحہ لمحہ جڑا ہوا ہے۔ اگر یہ صورتحال رہتی ہے اس ملک کی تو ترقی کی جن منازل کو ہم نے گزشتہ کئی برسوں سے طے کرنے کا سوچا تھا شاید کبھی نہ کرپائیں۔ ہمارے نوجوان جن کو اسکولوں اور کالجزوں اور یونیورسٹیوں کی زینت ہونا چاہیے تھا وہ کبھی میٹرک بورڈ آفس کے باہر تو کبھی انٹر بورڈ آفس کے گیٹ پر احتجاج کرتے دیکھائی دیتے ہیں۔ ہماری نرسیں اپنے مستقبل سے خائف کئی روز تک مریضوں کو تڑپتا چھوڑ کر روڈ وں کی زینت بن کر دھرنے دیتی شور شرابہ کرتی نظر آتی ہیں۔ ہمارے اساتذہ کبھی اپنی نوکری پکی کرنے تو کبھی پکی نوکری کی تنخواہ نہ ملنے کا رونا روتے ہیں اور اسمبلی ہالوں کے باہر خود سوزی کرنے کی کوششیں کرتے ہیں۔
Target Killing
وکلا ء کی دن دھاڑے ٹارگٹ کلنگ ہوتی اور صحافیوں کو نامعلوم افراد گولیوں سے بھون کر چلے جاتے ہیں۔ سیاست سے لے کر معیشت تک کوئی بھی خود کو محفوظ نہیں سمجھتا۔ ایسے میں ہمارے مستقبل کو روشن کرنے والے معمار کیا واقعی اس ہدف کو عبور کر پائیں گے۔
میری اعلیٰ حکام سے اپیل ہے کہ اگر ہمارے بچوں کا روشن مستقبل چاہتے ہیں تو آج ہمیں پانی، بجلی، گیس ، روٹی کپڑا اور مکان جیسے مسائل میں نہ الجھایا جائے۔ ہمارے طلباء کا مستقبل دھرنے اور احتجاجوں سے نہیں بلکہ کلاس رومز میں ہے۔ ہماری نرسوں کی جگہ سڑک نہیں بلکہ اسپتالز ہیں۔ ہمارے اساتذہ کی جگہ اسمبلی کا گیٹ نہیں بلکہ اسکول کے کمرے ہیں جہاں ہمارے بچوں کا مستقبل ہے۔ جہاں ہمارے بیماروں کی صحت ہے۔
اگر آج ہم ان جیسے مسائل میں گھرے رہے تو ہمارے وقت کا ضیاع تو ہوگا ہی ساتھ میں وطن عزیز کا مستقبل انتہائی خطرے میں چلا جائے گا اور ہمارے لئے ہمارا ملک بہت اہم ہے ہمیں اس کی قدر کرنی ہوگی آج ملک ہے تو ہم اگر یہ نہ رہا تھا شاید۔ داستان تک نہ ہوگی ہماری داستانوں میں۔