ہیمبرگ (جیوڈیسک) شمالی جرمنی کی شہری ریاست ہیمبرگ سے جمعے کی شام ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق کل ہفتہ آٹھ جولائی کی سہ پہر اپنے اختتام کو پہنچنے والی اس سربراہی کانفرنس کے پہلے روز کے اختتام پر جرمن چانسلر اور اس اجتماع کی میزبان رہنما انگیلا میرکل نے کہا کہ پہلے دن دنیا کی ترقی یافتہ اور ترقی کی دہلیز پر کھڑی معیشتوں کے بیس میں سے اکثر رہنماؤں نے اتفاق کیا کہ عالمی سطح پر تجارت کو زیادہ آزادانہ اور منصفانہ خطوط پر استوار کرنے کی ضرورت ہے۔
پہلے دن کی کارروائی کے اختتام پر جرمن چانسلر میرکل نے ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں کہا، ’’اکثر رہنماؤں نے اتفاق کیا کہ عالمی تجارت زیادہ آزادانہ اور منصفانہ ہونی چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس سمٹ کے اختتامی اعلامیے پر کام کرنے والے ماہرین کو آج رات دیر گئے تک کام کرنا ہو گا۔‘‘
چانسلر میرکل نے مزید کہا کہ سمٹ کے چند شرکاء نے اختلافی رائے کا اظہار بھی کیا اور اس حوالے سے اختلاف رائے کو اتفاق رائے میں بدلنے کی کوششیں جاری رہیں گی۔
روئٹرز کے مطابق اس کانفرنس کے بارے میں خدشہ تھا کہ اس میں شریک دنیا کی سب سے بڑی معیشت کے رہنما یعنی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اقتصادی حفاظت پسندی کی سوچ اور تحفظ ماحول سے متعلق ان کی پالیسی کے باعث امریکی صدر باقی ماندہ شرکاء سے الگ تھلگ ہو کر رہ جائیں گے۔ تاہم ایسا نہیں ہوا۔
سمٹ کے پہلے دن کے اختتام پر جرمن سربراہ حکومت نے کہا، ’’تجارت کے بارے میں تقریباﹰ سبھی رہنماؤں نے اس یقین کا اظہار کیا کہ عالمی تجارت کو زیادہ آزادانہ اور منصفانہ ہونا چاہیے۔ میں صرف اتنا ہی کہہ سکتی ہوں کہ اختتامی اعلامیے میں تجارت کے حوالے سے شرکاء کے مشترکہ موقف سے متعلق آج رات دیر گئے تک کام کیا جائے گا۔‘
انگیلا میرکل نے یہ اعتراف بھی کیا کہ سمٹ کے پہلے دن شرکاء کے مابین جو بحث ہوئی، وہ بہت بھرپور تھی۔ ’’میں اس بات سے انکار نہیں کر سکتی کہ یہ بحث بہت ہی مشکل بھی تھی۔‘‘
جرمن چانسلر کے بقول کانفرنس کی پہلے دن کی کارروائی کے پہلے نصف حصے میں امریکی صدر ٹرمپ نے ماحولیاتی سیاست سے متعلق اپنی اختلافی پالیسی کے باوجود اس نشست میں شرکت کی اور بحث میں حصہ لیا۔
ہفتہ آٹھ جولائی کو اس کانفرنس کا دوسرا اور آخری دن ہو گا، جس کے اختتام پر ایک مشترکہ اعلامیہ بھی جاری کیا جائے گا۔