کراچی (جیوڈیسک) گڈانی شپ یارڈ حادثے میں انتقال کرجانے والے افراد کی تعداد 20 ہو گئی ہے، جبکہ 58 افراد زخمی ہیں جن میں سے آٹھ کی حالت نازک بتائی جا رہی ہے۔
حادثے کو 30 گھنٹے گزر چکے ہیں۔ لیکن، اب بھی وقفے وففے سے آگ بھڑک اٹھتی ہے اور دھماکے سنائی دینے لگتے ہیں۔ آگ پر مکمل طور پر قابو پانے میں مزید کچھ وقت لگ سکتا ہے، کیوں کہ فائربریگیڈ کے عملے کے پاس آگ بجھانے کے لئے درکار فوم مطلوبہ تعداد میں دستیاب نہیں۔
حادثے کے بیشتر زخمیوں کو کراچی کے سول اسپتال میں منتقل کیا گیا ہے، جہاں برنس وارڈ میں ان مریضوں کا علاج جاری ہے۔ مریضوں میں سے اکثریت ابھی تک کچھ بتانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ صرف ایک آدھ مریض ہی واقعے کی تفصیلات بتانے کے قابل ہے۔
بدھ کو مخملستان نامی ایک زخمی کے قریبی عزیز نور خان نے بتایا کہ حادثے کے وقت مخملستان، جو سوات کا رہنے والا ہے، متاثرہ بحری جہاز پر روز مرہ کے کام میں مصروف تھا۔ پیشے کے اعتبار سے وہ فٹر ہے، جبکہ وہ خود بھی مزدور ہے لیکن حادثے کے وقت اس جگہ سے دور تھا۔
نور خان کے مطابق، اچانک زور دار دھماکہ ہوا اور ہر طرف آگ ہی آگ پھیل گئی۔ کسی کی کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ جہاز میں اس وقت 100 سے قریب لوگ اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے، جن میں سے کئی افراد کا ابھی بھی کچھ پتہ نہیں۔
شپ یارڈ حادثے میں محفوظ رہنے والے افراد اور عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ حادثے کے وقت ناکارہ بحری جہاز پر مزدور، گیس کٹر کے ذریعے جہاز کے مختلف حصوں کو توڑنے میں مصروف تھے کہ دھماکا ہوگیا۔ دھماکے سے لوہے کی چادریں، نٹ بولٹ اور دیگر بھاری بھرکم اشیا اڑ اڑ کر مزدورں پر گرتی گئیں جبکہ اسی دوران آگ نے بھی انہیں چاروں طرف سے گھیر لیا۔
متاثرہ جہاز یارڈ کے پلاٹ نمبر 56 پر کھڑا تھا جو دراصل ایک آئل ٹینکر تھا جس کا وزن 22ہزار ٹن تھا۔ اسے مسمار کرنے کے لئے گڈانی لایا گیا تھا۔ عموماً جہاز کو توڑنے سے پہلے اس کا فیول ٹینک خالی کیا جاتا ہے لیکن ایک مزدور کے بقول ٹھیکیدار کو کام مکمل کرنے کی بہت جلدی تھی اور شاید اسی جلدی میں کام خراب ہوگیا۔