تحریر : جاوید ملک بنی گالہ تجاوزات کے حوالے سے از خود نوٹس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس سپریم کورٹ ثاقب نثار جہاں قانون سے نابلد تجزیہ نگاروں سے نالاں دکھائی دیے اور یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ اختلافی نوٹ پوری دنیا میں آتے ہیں مگر ایسا شور شرابہ کہیں اور دکھائی نہیں دیتا وہیں انہوں نے دو بہت اہم باتیں ارشاد فرمائیں ایک تو سیاسی راہنمائوں اور عام لوگوں میں فرق واضح کیا عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا آپ سمیت سیاسی راہنمائوں کو لوگ سنتے ہیں ان کی بات سمجھتے ہیں۔ راہنمائوں کا ایک جملہ بہتری بھی لاسکتا ہے اور خرابی کا موجب بھی بن سکتا ہے۔ دوسرا اداروں کی مظبوطی پر زور دیتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ دنیا میں وہیں قومیں ترقی کرتی ہیں جن کے ادارے مضبوط ہوتے ہیں ملک کی بہتری کا نعرہ لگانے والوں کو اداروں کی مضبوطی کیلئے ان کے ساتھ کھڑا ہونا پڑے گا۔
سوال یہ ہے کہ جس ملک کے ادارے درست سمت میں کام کررہے ہو وہاں بنی گالہ جیسے چھوٹے سے علاقے کی تجاوزات کیخلاف ملک کی دوسری بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ عمران خان کو عدالت عظمی سے استدعا کیوں کرنی پڑے اور ایک معاملہ جسے سی ڈی اے کا کوئی معمولی افسر بہ خوبی حل کرسکتا ہے اس کیلئے اعلی عدلیہ کو از خود نوٹس لے کر فل بینچ کیوں بٹھانا پڑے ۔؟
قانون کی پیجیدگیوں سے نا آشنا لوگ پانامہ کیس میں کسی کی نا اہلیت کا نہیں نظام کی درستگی کا خواب دیکھ رہے تھے اور موضوع بحث یہ تھا کہ نیب ، ایف آئی اے ،ایف بی آر ، سٹیٹ بنک سمیت تمام متعلقہ ادارون کیخلاف ایک سخت فیصلہ آئے اور ان اداروں کی درستگی کیلئے ٹھوس تجاویز بھی دی جائیں ۔ نظام کو بااثر طبقات نے ذاتی مفادات کیلئے ایسی بھول بھلیوں میں الجھا دیا ہے کہ اب دوا کی نہیں ایک مکمل سرجری کی ضرورت ہے اور اس سرجری کو عوامی زبان میں بے رحمانہ احتساب کہا جاتا ہے ۔
بدقسمتی یہ ہے کہ اس ملک میں عدالتی فیصلوں کو موم کی ناک بنا کر ادارے ان کی آڑ میں بھی اپنا الو سیدھا کرتے ہیں اور نزلہ گر تا ہے تو ایک بار پھر پہلے ہی مسائل کے بوجھ تلے دوہرے بلکہ تہرے ہوجانے والے عام لوگوں پر ۔
بنی گالہ کی تجاوازات تو اپنی جگہ لیکن وفاقی دار الحکومت میں کئی ہائوسنگ پروجیکٹ بشمول گلشن کشمیر جی پندرہ نے اپنے بنیادی لے آؤٹ پلین کا ہی حلیہ بگاڑ دیا ہے قبرستان ،پارک حتی کہ مساجد تک سے کمرشل پلاٹ نکال لیے گئے ہیں ۔ اگر آپ سوئی گیس کے دفتر چلے جائیں تو آپ کو درجنوں سائل عرصہ دراز سے خوار ہوتے دکھائی دیں گے جن کے گیس میڑ کی تنصیب میں واحد رکاوٹ یہ بدلے ہوئے لے آؤٹ ہیں وہ سوسائٹی دفاتر سے سوئی گیس اور سوئی گیس دفتر سے سی ڈی اے دھکے کھاتے پھررہے ہیں مگر نتیجہ صرف خواری ہے ۔ لے آؤٹ پلین کس نے بدلا ۔کب بدلا اس سے کس نے مالی فوائد بٹورے ۔سی ڈی اے افسران کو اس وقت کون سی لسی پلا کر سلادیا گیا تھا ۔کوئی نہیں پوچھے گا کبھی ،نہیں پوچھے گا مضمرات بھگتے گا بے چارہ عام آدمی کہ یہ ہی رائج قانون ہے۔
غوری ٹائون کے سات فیز بن گئے پورا ایک شہر آباد ہوا اور اس آبادی میں لگ بھگ آٹھ دس سال تو لگے ہونگے ادارے سوئے رہے یا سلادیے گئے جب سارے مگر مچھ حصہ بقدر جثہ لے کر اڑن چھو ہوگئے تواب سی ڈی اے نے اسے غیر قانونی سوسائٹی قرار دیا ہے اب وہاں بجلی کے میٹر لگیں گے نہ گیس کے کنکشن گویا سب کی بد اعمالیوں کی سزا بھگتے گا وہ عام آدمی جس نے پائی پائی جوڑ کر اپنے سر کی چھت کا کوئی سبب نکالا تھا۔
قانون دو ہوتے تو پھر بھی شاید نظام چلتا رہتا لیکن یہاں تو کئی قانون ہیں با اثر کے پائوں کو چاٹتا ہوا قانون ، دولت مند کیلئے سہولتیں پیدا کرتا ہوا قانون ،سفارشی کیلئے راستے ہموار کرتا ہوا قانون اور غریب پر اپنا پوراقہر ڈھاتا ہوا قانون …نواز شریف نااہل ہو یا وزارت عظمی کی کرسی سے چمٹے رہیں ، انتخابات کا انعقاد قبل از وقت ہو یا مڈٹرم کا دائو چل جائے آمدہ انتخابات میں حالیہ حکمران جماعت دوبارہ میلہ لوٹ لے یا باری معاہدہ پیپلز پارٹی کو اقتدار میں لے آئے …خفیہ ہاتھ کوئی چوں چوں کا مربہ ترتیب دینے میں کامیاب ہوجائے یا عمران خان کا سونامی چھاجائے …دووقت کی روٹی کو ترستے عام آدمی کو اس کھیل سے کیا لینا دینا ہے ؟بات پھر وہی کے اداروں کی مضبوطی اور نیک نیتی ہی عام آدمی کی زندگی میں سکون کی دو گھڑیاں لا سکتی ہے لیکن ان گلے سڑے ،بدبودار،بساندزدہ اداروں کی درستگی کے عمل کا حرف آغاز کہیں دکھائی نہیں دیتا ۔کوئی زیرو پوائنٹ ابھی تک تجویز نہیں ہوا۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ خرابی میں تو اضافہ ہورہا ہے بہتری کا دور دور تک کوئی اتہ پتہ نہیں۔نظام نعروں ،دعوئوں یا خالی خولی فیصلوں سے تو نہیں بدلتے ۔یہاں تجاوزات آپریشن میں بھی صرف کھوکھے ہی گرتے ہیں ٹھیلے والوں کی ہی شامت آتی ہے …ہیجان بڑھ رہا ہے ،مایوسی بڑھ رہی ہے اگر اب بھی سدھار کی کوشش نہ کی گئی ،سیاسی راہنما اپنی ذمہ داری کو نہ سمجھ پائے ۔اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپنا راگ کا رویہ ترک نہ ہوا تو ہم تیز رفتاری کے ساتھ جس تباہی کی طرف بڑھ رہے ہیں اس کے نتائج کا سوچ کر بھی میرے تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔