گیلپ پاکستان کی طرف سے جاری کی جانے والی سالانہ پبلک پلس رپورٹ 2014ء میں وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف کی کارکردگی کو 21فیصد عوام نے بہت بہترین جبکہ 28 فیصد عوام نے بہترین قرار دیا۔ مجموعی طور پر شہبازشریف کی کارکردگی کو 49 فیصد عوام نے بہترین قرار دیا۔ گیلپ سرو ے کے مطابق پاکستان بھر میں 26 فیصد جبکہ صوبہ پنجاب میں 45 فیصد اضافہ ہوا ہے۔جبکہ قومی لیڈروں میں نواز شریف عوامی مقبولیت کے لحاظ سے سرفہرست ہیں’ عمران خان’ زرداری’ الطاف حسین اور اسفند یار کی مقبو لیت میں کمی واقع ہوئی ہے۔
سروے میں بتایا گیا کہ وزیراعلیٰ سندھ کی کارکردگی میں منفی رجحان دیکھنے میں آیا ہے جس میں منفی کارکردگی کے اعشاریئے29 فیصد میں مزید منفی9 فیصد کا اضافہ ہو گیا ہے۔ اسی طرح خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ کی کارکردگی کا رجحان بھی مقررہ شرح سے منفی 11 فیصد زائد رہا ہے۔ جبکہ وزیراعلیٰ بلوچستان کی کارکردگی کا گراف منفی 14 فیصد بڑھا ہے۔ گیلپ رپورٹ کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہبازشریف کی کارکردگی دیگر تمام صوبوں میں مثبت شرح کے مطابق انتہائی نمایاں رہی ہے جو کہ 21 فیصد ہے جبکہ دیگر صوبوں کی کارکردگی کا گراف مثبت کارکردگی کے حوالے سے صوبہ پنجاب سے انتہائی کم ہے۔ رپورٹ کے مطابق صوبہ سندھ کے وزیراعلیٰ کی کارکردگی محض 6فیصد جبکہ خیبرپخونخوا اور وزیراعلیٰ بلوچستان کی کارکردگی صرف 4 فیصد رہی ہے۔گیلپ پاکستان سالانہ پبلک پلس رپورٹ 2014ء میں وزیراعظم نوازشریف کے بارے میں عوامی رائے کے مثبت پہلو سامنے آئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق نوازحکومت کی کارکردگی زرداری حکومت کی گزشتہ سال کی کارکردگی سے نمایاں طور پر بہتر رہی اور موجودہ حکومت کی مجموعی کارکردگی میں 59فیصد اضافہ ہوا۔
مہنگائی پر قابو پانے کے حوالے سے نوازحکومت کی کارکردگی میں اس سال 20 فیصد اضافہ ہوا جبکہ دہشت گردی پر قابو پانے کے حوالے سے 31 فیصد اور کرپشن پر قابو پانے کے حوالے سے کارکردگی میں 30 فیصد اضافہ ہوا۔ تاہم رپورٹ کے مطابق ابھی اس کارکردگی میں بہتری کی مزید گنجائش موجودہے۔ رپورٹ کے مطابق ملک میں معاشی فلاح و بہبود اور امن و امان قائم کرنے کے حوالے سے حکومت کی کارکردگی کے بارے میں ماضی کی حکومتوں کے برعکس پائی جانے والی مایوسی میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ یعنی موجودہ حکومت مہنگائی’ کرپشن اور دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے گزشتہ حکومت کی نسبت بہتر کارکردگی دکھا رہی ہے جس سے اس کے مثبت پہلو میں 15 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ گیلپ سروے میں چاروں صوبوں سے عوام کی رائے لی گئی اور مسلم لیگ (ن) کی کارکردگی کو زرداری حکومت سے بہتر قرار دیا گیا۔پاکستان پیپلزپارٹی نے نواز شریف حکومت سے متعلق کرا ئے گئے گیلپ سروے رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے اسے عوام کے ساتھ بھونڈا مذاق قرار دیا ہے۔وقار مہدی نے کہا کہ 2013 میں کرایا گیا سروے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے متر ادف ہے، مسلم لیگ (ن) نے اپنی انتخابی مہم جس میں ملک سے لوڈ شیڈنگ 6 ماہ میں ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن آج 11ما ہ گزرنے کے باوجود پورا ملک لوڈ شیڈنگ کے بدترین عذاب سے گزر رہا ہے، بے روزگار ی انتہا کو پہنچ گئی ہے، ملک کی کل آبادی کے 52% سے زیادہ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں ، مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے ،مذاکرات کے باوجود دہشت گردی عروج پر ہے اورگیلپ سروے میں (ن) لیگ کی حکومت 59% بہتر بتایاجا رہا ہے جو کہ سفید جھوٹ اور لطیفے سے زیادہ کچھ نہیں ہوسکتا ہے ،ڈالر کی قیمت کم ہونے کے باوجود عوام کی قوت خرید مزید کم ہوگئی، غریب طبقہ مہنگائی کی چکی میں پس رہا ہے۔
Asif Ali Zardari
پیپلزپارٹی کی سابقہ حکومت نے سابق صدر آصف علی زرداری کی قیادت میں اپنی 05 سالہ حکومت میں عوام کی محدود وسائل کے باوجود بہتر سے بہتر خدمت کی لاکھوں نوجوانوں کو میرٹ پر ملازمتیں ، کنٹریکٹ ملازمتوں کی مستقلی ، مزدوروں کی12% شیئر کی فراہمی ، بجلی کی کمی کو دور کرنے کے لیے تھر کول اور دیگر منصوبوں کا آغاز ، دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے موثر حکمت عملی ، سوات کے علاقے کو دہشت گردوں سے وگزار کراکے وہاں پاکستانی پرچم کو سربلند کرنا اور امریکہ، انڈیا ، افغانستان کے ساتھ اصولوں پر مزاکرات اور تعلقات ، مسلئہ کشمیر کو اجاگر کرنا ، ایران پاکستان گیس پائپ لائن کا آغاز ، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے زریعے 70 لاکھ خاندانوں کو 1000 روپے ماہانہ کی فراہمی، غریب ہاری خواتین کو 25 ایکڑ زمین کی مفت فراہمی، بے نظیر شہید یوتھ ڈیولپمنٹ پروگرام کے ذریعے نوجوانوں کی فنی تربیت کا آغاز ، اٹھارویں اور انسیوویں ترمیم کی منظوری،صدارتی اختیارات کی پارلمینٹ کو منقتلی سمیت بے شمار عوام دوست اقدامات سے تاریخ بھری پڑی ہے لیکن گیلپ سروے کا ادارہ ان اقدامات کو بیان کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں ، انھوں نے کہا کہ کس کی کارکردگی بہتر تھی یا بہتر ہے عوام 2018 کے الیکشن میں فیصلہ کردیں گے ، گیلپ سروے والے اپنے ٹھنڈے کمروں سے باہر نکلیں اور غریبوں کی بستیوں اور گائوں اور گوٹھوں کا دورہ کر کے عوام کی رائے لیں تو اصل حقیقت سامنے آجائے گی اور انہیں اپنے اس سروے پر خود شرمندگی ہوگی۔پاکستان پیپلزپارٹی کی رہنما پلوشہ شاہ کاکہناتھاکہ گیلپ کو ایک مستند ترین سروے نہیں مانا جا سکتا کیونکہ دنیا بھر میں یہ کیاجاتا ہے کہ تمام تر سروے رپورٹس میں یہ کیا جاتا ہے کہ رائے دہندگان سے ان کی سیاسی وابستگی کے بارے میں بھی معلوم کیا جاتا ہے کہ انکی کس جماعت سے وابستگی ہے اور اس قسم کے بیشمار پولز ماضی میں بھی کئے جاتے رہے ہیں کہ اس بار ہونیوالے انتخابات میں یہ جماعتیں یا انکے حمایت یافتہ امیدوار الیکشن ہار جائیں گے لیکن نتائج اس کے بالکل برعکس نکلے تو اس قسم کے سروے کو اتنا زیادہ مستند نہیں مانا جا سکتا ہے۔
پھر ہم نے یہ بھی دیکھا کہ گیلپ پاکستان کے چیئرمین اعجاز شفیع گیلانی ماضی میں وزیراعظم نواز شریف کے مشیر بھی رہے ہیں تو انکی اپنی سیاسی وابستگی بھی بہت سے سوالات کو جنم دیتی ہے۔ گیلپ کی جانب سے کیاجانیوالا یہ سروے بیشمار سوالات کو جنم دے دہا ہے جس میں سروے میں شریک افراد کس طبقہ فکر سے وابستہ تھے انکاتعلق کہاں سے تھاوغیرہ۔ اس کے علاوہ اس سروے میں تمام قومی قیادت کی ریٹنگ گرتی ہوئی دکھائی ہے جبکہ شہبازشریف اور میاں صاحب کی ریٹنگ تمام سیاستدانوں بشمول عمران خان ،آصف علی زرداری،الطاف حسین سب سے زیادہ پاپولر دکھائی گئی ہے۔
گیلپ پاکستان کے چیئرمین اعجاز شفیع گیلانی کاکہناتھاکہ پیپلز پارٹی کی جانب سے اٹھائے جانے والے اعتراضات بالکل بے بنیاد ہیں میری کسی سیاسی جماعت سے کبھی وابستگی نہیں رہی ہے۔ اس بار آنے والے سروے میں عوام کی ایک کثیر تعداد نے مہنگائی پر حکومتی پالیسی کو ناقص قراردیاہے لیکن انہوں نے گزشتہ حکومت کی نسبت موجودہ حکومت کی کارکردگی کو بہت زیادہ سراہا ہے کیونکہ گزشتہ حکومت نے اپنے پانچ سالہ دور میں جو کارکردگی دکھائی وہ انتہائی ناقص تھی لیکن عوام نے موجودہ حکومت کی کارکردگی کو کافی حد تک سراہا ہے۔ گیلپ سروے کے نمائندے گراؤنڈ میں موجودہ ہوتے ہیں جو مختلف طبقہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد سے انکی رائے لیکر یہ سروے مرتب کرتے ہیں۔ آئی آر آئی دراصل سروے کرنے والا کوئی ادارہ نہیں ہے بلکہ وہ امریکہ کی ریپبلکن پارٹی سے منسلک ایک تھنک ٹینک نہیں ہے جو امریکہ کی پالیسی بنانے میں بھی کافی معاونت فراہم کرتاہے۔ گیلپ ایک خالصتاً ریسرچ کا ادارہ ہے لیکن اس کے باوجود بھی اگر یہ لوگ تیار ہیں تو ہم سیاسی جماعتوں کے کے ساتھ بیٹھ کر اسے شیئر کرنے کے لئے تیار ہیں۔پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شوکت یوسفزئی کاکہناتھاکہ اس قسم کے سروے سے عوام کو بے وقوف نہیں بنایاجاسکتاہے کیونکہ عوام آج یہ پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ انہیں یہ بتایاجائے کہ کیا عوام کی زندگیوں میں انقلاب ا گیا ہے۔
ملک سے دہشتگردی کا خاتمہ ہوگیا ہے کیا اس ملک سے بیروزگاری،کرپشن سمیت دیگر جرائم اور مسائل ختم ہوگئے ہیں تو اس صورتحال میں اس قسم کے سروے دیکھ کر عام آدمی ہنس رہا ہے کہ اس صورتحال میں کس طرح سے اس قسم کی رائے دی جا سکتی ہے۔
اگر سروے میں خیبر پختونخوا کے لوگوں نے صوبائی حکومت پر اعتماد کا اظہار کیاہے تو اس میں کافی وجوہات ہیں کیونکہ کے پی کے میں ہم لوگوں نے کافی چیزوں میں درستگی کی ہے جن میں صوبے میں پولیس کے محکمے سے کرپشن کا خاتمہ کرکے اسے فعال بنانا، فوری اور سستا انصاف کی فراہمی سمیت دیگر اہم معاملات بھی شامل ہیں۔ اس سروے میں ایک طرف یہ کہا گیا ہے کہ خیبرپختونخوا میں حکومت کی کارکردگی کافی بہتر ہے لیکن دوسری جانب وزرائے اعلی میں شہباز شریف کو بہتر قراردیاجارہاہے تو اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر لوگ صوبے کی کارکردگی سے مطمئن ہیں تو پھر کن بنیادوں پر وزرائے اعلی کی کارکردگی کو جانچا گیا ہے کیونکہ صوبے کا چیف ایگزیکٹیو وزیر اعلی ہی ہوتا ہے اب اگر صوبے کی کارکردگی اچھی ہے تو پھر دوسرے صوبے کا وزیراعلی کس طرح اس سے بہتر ہو سکتا ہے۔