تحریر : محمد ارشد قریشی ایک اچھی انسانی صحت کیلئے کھلی اور صاف ہوا میں سانس لینا ضروری ہے، مگر اس دور جدید میں صاف ہوا میسر نہیں، اِس کی وجہ ماحولیاتی آلودگی ہے۔آجکل کے دورِ جدید میں انسان آلودہ ماحول میں زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ یہ آلودگی انسان کوبیمار کردیتی ہے اور انسان ایک فعال زندگی گزارنے سے محروم رہ جاتا ہے، پاکستان کے ہر شہری علاقے میں بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی کی سب سے بڑی اور اہم وجہ فضائی آلودگی ہے، جو ایک صحت مندانہ معاشرے کیلئے بہت بڑی رکاوٹ تصور کی جاتی ہے۔ گھریلو استعمال کی اشیاسے نکلنے والا کچرہ جس میں استعمال شدہ پلاسٹک کی پولیتھین بیگز، کاغذ، گتہ، پلاسٹک کی اشیاِجو کیمیکل سے بنی ہوتی ہیں اور مختلف بچا ہوا باسی کھانا، پھلوں اور سبزیوں کے چھلکے وغیرہ شامل ہوتے ہیں جب کچرے کا ڈھیر بڑھنے لگتا ہے، تو یہ کچرہ جلادیا جاتا ہے۔
اس کچرے سے نکلنے والا دھواں ماحولیاتی آلودگی کو مزید بڑھا کر فضائی آلودگی کا باعث بنتا ہے رہائشی علاقوں میں جلایا جانے والا یہ کچرہ انسانی صحت کے لئے مضر ہے۔گھروں کے باہر جلتے ہوئے کچرے سے نکلنے والا دھواں بظاہر تو بہت کم معلوم ہوتا ہے، مگر یہی دھواں انسانی جان کیلئے زہرکے برابر ہے۔کچرہ جلانے کیبعد اُس کی آگ گھنٹوں تک جلتی رہتی ہے اِس کا دھواں کئی کئی گھنٹوں تک اٹھتا رہتا ہے اور اس کی زہرلی گیسیں اور ذرات ہوا کا حصہ بنتے رہتے ہیں۔ کچرے کے ذرات دھواں بن کر سانس کے ذریعے انسانی جسم کا حصہ بن جاتے ہیں جس سے فضائی آلودگی میں اضافہ ہوتا ہے اور صحت پر اپنے منفی اثرات ڈالتا ہے۔
جلتی ہوئی پلاسٹک کی تھیلیاں اور جلتا ہوا ربڑڈائیوکسین اور ٹوکسین اور بیماری پیدا کرنے والے جراثیم ہوا، پانی اور مٹی میں معلق ہوجاتے ہیں جو بچوں اور بڑوں کی صحت کے لئے خطرناک عناصر سے بھرپور ہوتے ہیں۔ اِس طرح کے زہریلے ذرات سے کینسر، دمہ، سانس کی بیماریاں، پھیپھڑوں کی خرابی کینسر جیسے موذی مرض پیدا ہوتے ہیں، جسم میں مدافعتی نظام متاثر ہوجاتا ہے اورگلے اور کھانسی کی بیماریوں کا باعث بنتا ہے۔ اس کے ذرات آسانی سے کنووں اور زیر زمین پانی میں پہنچ جاتے ہیں، جِس سے پینے کا پانی حفظان صحت کیلئے صحیح نہیں ہوتا۔
Burn Trash
ڈائیکسین اور زہریلے ذرات نظر نہیں آتے اور ان سے فوری طور پر نقصان دیکھنے میں نہیں آتا، بلکہ یہ ذرات انسانی جسم میں شامل ہوکر آہستہ آہستہ اپنا کام دکھاتے ہیں اور انسانی صحت کو متاثر کرتے رہتے ہیں، اگر اس سے پھیلنے والی بیماریوں پر قابو پانے کیلئے گھریلو کچرے کو جلایا نہ جائے بلکہ بروقت صحیح جگہ پر ٹھکانے لگادیا جائے اور اس کے بارے میں آگاہی کے پروگرام مرتب کئے جائیں۔کچرے کو جلانے کی بجائے زیر زمین دبادیاجائے اور اس کے جلانے پر مکمل پابندی عائد کی جائے اور جس جگہ کچرہ جلایا گیا ہو وہاں کے رہائشیوں کے خلاف کاروائی کی جانی چاہئیے۔
ایک اندازے کے مطابق، پاکستان کا 70 فیصد کوڑا کرکٹ،گاربیج شہری آبادی سے نکلتا ہے۔ صرف کراچی شہر میں روزانہ کی بنیادپر10 ہزار ٹن سے زیادہ کچرہ پیدا ہوتا ہے، جس میں سے8 ہزار ٹن کچرہ گھریلو استعمال کی اشیااور کھانے پینے کا بچا کچا سامان ہوتا ہے اور 2 ہزارٹن صنعتی فضلہ ہوتا ہے۔ اِس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ملک کے ہر شہر میں اِس قسم کی آلودگی کی کیا پیمائش ہوگی۔
افسوس تو اس بات کا ہے کہ کچرا جلانے میں صرف شہری ہی ملوث نہیں بلکہ حکومتی ذمہ دار بھی شامل ہیں اگر کراچی شہر کی بلند عمارتوں سے شہر پر نظر ڈالی جائے تو صبح و شام سینکڑوں جگہ سے دھواں اٹھتا نظر آتا ہے لوگو ں میں شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ کچرے کو آگ لگا کر کچرے کو ختم نہیں کررہے بلکہ اس کو مزید خطرناک شکل میں تبدیل کرکے خود اپنے لیئے خطرہ بنارہے ہیں، کچرا جلانے کے خلاف حکومتی سطح پر بھی فی الفور قانون سازی کی ضرورت ہے تاکہ ماحول کو مزید آلودہ ہونے سے بچایا جاسکے۔