تحریر : عماد ظفر نواز شریف چور ہے اور تم اس کے ساتھ ملے ہوئے ہو.کتنے پیسوں کے عوض اس کے حق میں قصیدے لکھتے ہو اور بولتے ہو یا کیا مراعات اب تک حاصل کی ہیں. یہ طعنے اکثر تحریک انصاف کے دوست احباب اور مارشل لا کی آمد کے منتظر سینئر دانشور اور صحافییوں سے قریب روزانہ کی بنیادوں پر ملتے ہیں اور میں مسکرا کر چپ ہو جاتا ہوں. کچھ دوستوں کا کہنا ہے کہ شاید میرے جیسے لکھاری زہنی غلام ہوتے ہیں جو اسٹیٹس کو سے نجات حاصل کرنا ہی نہیں چاہتے. کل بھی ایک ایسا ہی واقعہ ہوا جب میرے مرحوم والد صاحب کے کولیگ صحافی نے میسج کیا اور مجھے لفافہ سے لیکر غلامی اور اس تجزیہ نگاری اور صحافتی پیشے سے مخلص نہ ہونے اور نواز شریف کا قصیدہ خواں ہونے کے طعنے دیئے. مجھے ان صاحب کا بے حد احترام ہے کہ وہ میرے والد صاحب کے کولیگ بھی رہے پیں اور ایک انگریزی روزنامے میں کچھ ماہ خود مجھے ان کے ساتھ کام کرنے کا شرف حاصل ہے۔
خیر ان کی تنقید یا ڈانٹ ڈپٹ یقینا ان کے خالص پن اور کھرا ہونے کی دلیل ہے. کل ان سے باتوں باتوں میں ایک خیال ذہن میں ابھرا کہ ہم اپنے اپنے حصے کے سیاسی سچ کو ثابت کرنے کیلئے نہ صرف ایک دوسرے پر تنقید کر کے وقت کا ضیاع کرتے ہیں بلکہ اس گلے سڑے اور کھوکھلے نظام کو مزید توانا بنانے میں اپنا اپنا حصہ بھی ڈالتے ہیں. سیاسی تجزیہ نگاری کی جہاں تک بات ہے تو آپ کو اس میں طاقت کی بساط پر اچھی چالیں چلنے والے کو اس کا کریڈٹ دینا پڑتا پے یا متوقع چالوں کی وضاحت اور آنے والے منظر نامے کی تصویر کشی اندازوں اور ذرائع کی بنا پر کرنی پڑتی ہے. ان اچھی سیاسی چالوں کے چلنے اور اپنے سیاسی کارڈ ٹھیک سے استعمال کرنے والوں کا زکر کرنا قصیدہ گوئی کیسے ہے فہم سے باہر ہے؟۔
نواز شریف ہو یا بھٹو یا عمران خان اگر آپ میں سے کوئی بھی یہ سمجھتا ہے کہ یہ لوگ آپ کی خدمت کرنے سیاست میں آتے ہیں تو پھر ہمیں یہ تسلیم کرنے میں قطعا کوئی قباحت نہیں ہونی چاھیے کہ ہم لوگ مزاجا غلامی کو پسند کرتے ہیں. یہ نظام صرف اور صرف اشرٍافیہ کے گرد گھومتا ہے اور انہی کے مفادات کی حفاظت کرتا ہے سیاسی اشرافیہ ہو یا دفاعی اشرافیہ یا پھر کارپوریٹ کمپنیوں سے لیکر انسانی حقوق کی نام نہاد تنظیمیں یا ٹی وی چینلوں پر بیٹھے نوٹنکی اینکرز سب اس نظام سے مستفید ہوتے ہیں اور صرف اپنے اپنے پسندیدہ چہروِں کو وزارت عظمی یا بطور قومی لیڈر دیکھنا چاہتے ہیں. لیکن کیا آپ دل پر ہاتھ رکھ کر ایمانداری سے بتا سکتے ہیں کہ کیا نواز شریف عمران خان یا آصف زرداری سے ذہین اور قابل لوگ ہمارے ارد گرد موجود نہیں۔
Study
کیا یہ حقیقت نہیں لیڈر شپ کیلیے ایک غریب کا پڑھا لکھا بچہ صرف اور صرف میرے اور آپ کے اشرافیہ کو پسند کرنے اور بت پرستی کی عادت کی وجہ سے اس میدان میں آنے کا سوچ بھی نہیں سکتا. کیا ایک ایک لمحے کو اپنے اپنے حصے کی آساشات اسی نظام سے حاصل کرتے ہوئے کبھی آپ نے سوچا ہے کہ جو لوگ اس نظام سے مستفید ہوتے ہوں چاہے کسی بھی صورت میں وہ بھلا کیونکر یہ نظام تبدیل کرنا چائیں گے.آپ کے اور میرے بچے ایک اچھی زندگی گزار رہے ہیں اچھی تعلیم حاصل کر رہے ہیں اس لیئے ہم بطور فیشن یا اپنی اپنی انا کی تسکین کیلئے تو نظام کی تبدیلی کے نعرے اور دعوے کر سکتے ہیں لیکن عملا کبھی بھی اس نظام کو تبدیل نہیں کرنا چائیں گے. تاریخ کا سبق بھی یہی ہے کہ تبدیلی نظام سے بغاوت کرنے والے افراد لاتے ہیں نا کہ اس سے مستفید ہونے والے افراد. اور بغاوت کا لفظ لکھنے یا بولنے کی حد تک تو بہت رومانوی محسوس ہوتا ہے لیکن اس کی قیمت ہوتی ہے .اپنی زندگی کی آساشات کو تیاگ کر نظام کے خلاف اٹھنا پڑتا ہے۔
اپنے بچوں کا مستقبل داو پر لگانا پڑتا ہے.اور ہم جیسے سہل پسند جو مکالموں ٹاک شوز اور مباحث یا تحریروں میں اپنی اپنی دانشوریاں بگھارتے ہیں کبھی بھی نظام تبدیل نہیں کر سکتے.کیوں کہ ہم سب تو زندگی کی ضروریات اور خواہشات پوری کرنے میں مگن ہیں اس لیئے توقع کرتے ہیں کہ کوئی دوسرا قربانی دے کر محنت کر کے یہ نظام تبدیل کر دے گا اور یوں گھر بیٹھے انقلاب لانے کا خواب پورا ہو جائے گا. ہم اس پاکستان سے تعلق رکھتے ہیں جو اشرافیہ اور مڈل کلاس پر مبنی ہے اور جہاں دھکے سے ہی سہی زندگی چلتی رہتی ہے لیکن ایک پاکستان اور بھی ہے جو قریب ہماری کل آبادی کا ساٹھ سے ستر فیصد بنتا ہے اور جہاں زندگی نام کی کوئی چیز سوائے سانس لینے کے موجود نہیں یہ ستر فیصد آبادی اس نظام میں کوئی حصہ نہیں رکھتی اور نا ہی یہ نظام اسے کوئی حصہ دیتا ہےہمارے جیسے لوگ بھی اس ستر فیصد آبادی کا تزکرہ کر کے چند سیمینارز ٹاک شوز میں بول کر یا کالم لکھ کر سمجھتے ہیں کہ ہمارا کام پورا ہو گیا۔
آخر کو ہم سب کی اپنی اپنی زندگی ہے اور آج کی مادیت پسند سوچ کے مطابق پہلے اپنی زندگی اس کے بعد کوئی اوراگر یہ سب پہلے اپنی زندگی سنوارنے کا کلیہ جو ہم خود تو خوشی خوشی اپنے اوپر نافذ کرتے ہیں یہی کلیہ نواز شریف عمران خان یا آصف زرداری استعمال کریں تو پھر اس پر شور و غل کیسا؟ مریم نواز سیاست میں آئیں یا بلاول ان کے موروثی سیاستدان ہونے پر کاہے کی دہائیاں کہ خود اپنے اپنے بھائیوں اولادوں اور عزیز و اقارب کو کیا ہم خود اپنی اپنی استعدداد کے مطابق اپنے اپنے پیشوں میں بھرتی نہیں کرواتےاخلاقیات کا رونا اور اپنے اپنے حصے کا سچ اس مجموعی آبادی کے مسائل ہی نگاہوں سے اوجھل کر دیتا ہے جو زندگی کی بنیادی ضرورتوں کیلئے بھی ترستے رہتے ہیں. نہ تو یہ نظام کل ایک عام آدمی کو کچھ دے پایا اور نہ ہی آج دے سکتا ہے یم سب جانتے ہیں لیکن اپنی چھوٹی چھوٹی آسائشات کو چھوڑ کر اس کے خلاف اٹھ کھڑا ہونے کو تیار نہیں البتہ اپنے اپنے سیاسی ناخداوں سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ اپنی آسائشات کو قربان کر دیں۔
Social Media
ٹی وی ٹاک شوز یا سوشل میڈیا پر ٹالسٹائی برٹرینڈ رسل وغیرہ کے اقوال شئیر کرنا یا ایک قوم بننے کا پر فریب نعرہ اپنی جگہ مگر ٹالسٹائی یا برٹرینڈ رسل کے اقوال نہ تو کسی بھوکے کا پیٹ بھرتے ہیں اور نہ کسی غریب کے بچے کو روزگار دیتے ہیں اسی طرح ہم ایک قوم ہیں جیسے نعرے جنوبی پنجاب ،بلوچستان یا تھر کے لوگوں کو ایک مذاق سے کم نہیں محسوس ہوتے. قوم بننے کیلئے اوپر سے نہیں نیچے سے احساس اور عمل کی ضرورت ہوتی ہے. یہ بہت آسان کام ہے کہ ملک کی ہر ناکامی کا ذمہ دارسیاسی قیادت کو قرار دے کر اپنی اپنی زندگی میں مزے سے جیا جائے. دفاعی ایسٹیبلیشمنٹ کی کرپشن اور جرائم پر خاموشی اختیار کر کے محض سیاستدانوں کے پیچھے اس لیئے ہاتھ دوڑ کر پیچھے پڑا جائے کہ وہ گالیاں دینے کیلئے آسان ترین حریف ہیں اور انہیں برا بھلا کہنے سے کوئی مسنگ پرسن کی فہرست میں بھی نہیں آتا. کرپشن نواز شریف نے اس نظام میں پیدا نہیں کی بلکہ اس نظام نے نواز شریف، عمران خان اور آصف زرداری جیسے لوگوں و پیدا کیا ہے انہیں پنپنے کا موقع دیا ہے۔
بلکہ ہم سب نے مل کر اپنے اپنے مفاد کیلئے اس ملک میں ایسے نظام کو فروغ دینے میں کلیدی کردار ادا کیا کہ جس میں آقا اور محکوم کا رشتہ برقرار رہے. جیئے بھٹو نواز شریف زندہ باد یا عمران خان زندہ باد کیا یہ نعرے غلامی کی نشانی نہیں. کیا بنی گالہ رائے ونڈ اور نوڈیرو میں رہنے والے ـتمام افراد سٹیٹس کو کے علمبردار نہیں تو پھر صرف نواز شریف مجرم کیوں؟ ہمارا مسئلہ دراصل یہ ہے کہ ہم میں سے وہ لوگ جو اپنے آپ کو دانشور کہلاتے ہیں اپنے اپنے گھروں میں بیٹھ کر اپنے ملک کا موازنہ امریکہ یا یورپی ممالک سے تو کرتے ہیں لیکن اپنی غلامی کی نفسیات کو ترک کرنے پر ہرگز نہیں راضی ہوتے۔
Politics
ایسی نفسیات جو اپنے اپنے خود تراشیدہ بتوں کی پوجا کرنے کے نت نئے بہانے اور دلائل دے کر ان کی پوجا کروائے ہی جاتی ہے. کیا سیاستدان اور کیا جرنیل سب اس نظام میں سے اپنا اپنا حصہ بٹورتے ہیں اور ہم لوگ اپنی اپنی بساط کے مطابق. .ٹھیک جیسے کچرے کے ڈھیر میں سے کتے اپنی اپنی طاقت کے بل پر ہڈیاں اٹھا کر لے جاتے ہیں ویسے ہی یہ نظام بھی کچرے کے ڈھیر کی مانند ہے جہاں سب اپنے اپنے زور پر اپنی اپنی ہڈی لے جاتے ہیں اب اگر کچرے کے ڈھیر کو نظام مان کر ہی جینا ہے تو پھر اپنے حصے میں چھوٹی ہڈی آنے پر یا کسی کے حصے میں بڑی ہڈی آنے یا اس کے بڑی ہڈی لے جانے پر شکایت کیسی؟ یا تو کچرے کے ڈھیر کو آگ لگانے کی ہمت پیدا کیجئے تا کہ صفائی ہو سکے وگرنہ چپ چاپ اسی طرح اپنے اپنے حصے کی ہڈیاں چباتے رہیئے۔