تحریر : مقصود انجم کمبوہ برسوں کی بات ہے کہ فرینکفرٹ کے سول انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ نے “انرجی بیورو “قائم کیا تھا جس کا مقصد یہ تھا کہ بلدیاتی اداروں میں ایندھن اور بجلی کے استعمال میں زیادہ سے زیادہ ممکنہ حد تک کفائیت شعاری سے کام لیا جائے شہر کے انرجی ڈیپارٹمنٹ کے سابق سر براہ ہورسٹ کا کہنا ہے کہ اس قسم کے ادارے کے قیام پر رقم تو خرچ ہوتی ہے مگر یہ ایک مفید سرمایہ کاری ہے ان کا کہنا ہے کہ بیورو اپنے مقصد میں بہت کامیاب رہا ہے اور اس کی وجہ سے یقینا اس کی لاگت سے زیادہ رقم کی بچت ہوئی ہے بیورو کے عملے کی ذمہ داری ہے کہ وہ بلدیاتی دفاتر کی عمارتوں میں ایندھن اور بجلی کے نظام کی دیکھ بھال کرے مثلاً عمارتوں میں کمروں کو گرم رکھنے کے نظام کو بالکل درست حالت میں رکھے اسی طرح وہ بجلی کی لائنوں کی وقتاً فوقتاً جانچ پڑتال کرتے رہیں اور اس با ت کا خاص خیال رکھیں کہ بجلی ضائع نہ ہو ایک اہم پہلو جسے توانا ئی بچانے کے پُر جوش حامی عموماً نظر انداز کر دیتے ہیں وہ یہ ہے کہ توانائی کی بچت کا مقصد پوری طرح اسی وقت حاصل ہو سکتا ہے۔
جب یہ کام تربیت یافتہ افراد کے سپرد کیا جائے کیونکہ عام معلومات رکھنے والے لوگ صرف روائتی طریقے استعمال کر سکتے ہیں جن سے بچت میں قابل ذکر مدد نہیں مل سکتی توانائی کی بچت کی راہ میں حائل ایک اور اہم رکاوٹ ٹیکنالوجی ، فنی معلومات اور اس بات سے عدم واقفیت ہوتی ہے کہ اداروں اور چھوٹی بڑی فرموں اور گھروں میں گیس بجلی کی بچت کے لئے کونسا سازو سامان اور آلات دستیاب ہیں یہ عدم واقفیت کسی خاص طبقے یا گروپ تک محدود نہیں ہے بلکہ منصوبہ بندی کے ماہرین ، ماہرین تعمیر ڈیلرز اور تاجر غرض کے بیشتر لوگ اس عدم واقفیت کا شکار ہیں یہ الفاظ کسی ایک شخص کے نہیں ہیں بلکہ یہ الفاظ بنڈسٹاگ کمیشن کی فائنل رپورٹ کے ایک باب میںدرج ہیں یہ کمیشن زمین کی فضاء اور ماحول کو آلودگی سے محفوظ رکھنے کے سلسے میں احتیاتی اقدامات تجویز کر نے کے لئے قائم کیا گیا ہے کمیشن نے اس بارے میں اپنی رپورٹ مرتب کر نے میں تین سال لگائے مذکورہ باب میں اس بات پر بحث کی گئی ہے کہ توانائی کی بچت کے طریقوں پر اتنی کم توجہ کیوں دی گئی حتیٰ کہ اقتصادی لحاظ سے قابل عمل ایک اور پہلو یہ ہے کہ توانائی کے ضیاع کو کس طرح روکا جا سکتا ہے۔
Energy
توانائی کے امور کے ماہروںشٹٹگارٹ کے یوخم نٹش اور اولڈ برگ کے یوخم لوتھر کا کہنا ہے کہ یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ توانائی کی بچت کا عمل توانائی کا اہم ترین نہ سہی مگر ایک اہم ذریعہ ضرور ہے نٹش اور لوتھر کی متفقہ رائے ہے کہ جرمنی بجلی کی گھر یلو کھپت میں آٹھ فیصد تک کی کمی صرف ایک احتیاتی تدبیر پر عمل کر کے کی جاسکتی ہے گھریلو استعمال کا بجلی کا سامان اور آلات مثلاًایسی ریفر یجٹر، واشنگ مشین اور ڈرائر وغیرہ استعمال کئے جائیں جو معیار کے مطابق بنائے گئے ہوں ضرورت اس بات کی ہے کہ اس احتیاطی تدبیر پر گھر سے موٹر کار تک ہر جگہ عمل کیا جائے صنعتیں زیادہ با کفائیت مصنوعات اور ان کی تیاری کے لئے بہتر ٹیکنیک اپنا کر پہلے ہی توانائی کی کافی بچت کے طریقے اختیار کر چکی ہیں اور اگر احتیاطی تدابیر پر طویل مدت تک عمل کیا جائے تو جرمنی میں یورانیئم ، کوئلے ، تیل ، گیس جیسے توانائی کے بنیادی ذرائع کے فی کس استعمال میں با آسانی 50فیصد تک کمی ہو سکتی ہے لیکن اس کے لئے طویل المعیار منصوبہ بندی کی ضرورت ہو گی توانائی کی بچت کے سلسلے میں ایک اور اہم بات یہ ہے کہ توانائی کے قابل تجدید ذرائع کے استعمال کئے جائیں اور مقامی طور پر اس پر زیادہ سے زیادہ توجہ دینی چاہئے۔
اس سلسلے میں یہ بات بہت اہمیت کی حامل ہے کہ توانائی کی بچت اور قابل تجدید توانائی کے استعمال کے بارے میں فیصلے کرنے اور دیگر اختیارات بلدیات یا مقامی حکام کے پاس ہوں حقیقت یہ ہے کہ اگر اس ضمن میں اختیارات بلدیاتی اداروں یا مقامی حکام کے پاس نہ ہوں تو بچت کا تصور ہی بے معنی ہے اور اس نظرئیے کی بنیاد اس حقیقت پر قائم ہے کہ توجہ کا اصل مرکز خود توانائی کو نہیں بلکہ عمارتوں کو گرم رکھنے کے نظام ، ٹرانسپورٹ اور بجلی کی فراہمی کے طریقوں اور ذریعوں کو ہونا چاہئیے کیونکہ بچت کی فراہمی کے طریقوں اور ذریعوں کو مئوثر بنا کر ہی کی جاسکتی ہے ہماری حکومت کو بھی چاہئیے کہ بجلی اور گیس کی ممکنہ بچت کے لئے جرمنی کے مندرجہ بالا اصولوں اور منصوبہ بندی کے ذریعے فوائد حاصل کئے جائیں ہمارے ہاں بجلی اور گیس کے ضیاع کی شرح بہت زیادہ ہے اسکی اصل وجہ ڈسٹری بیوشن نظام بوسیدہ ہے اور اداروں کے ملازمین اور افسران کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے واپڈا کی تاریں گلیوں اور بازاروں میں مکڑی کے جالے کی طرح بچھی ہوئی ہیں اس سے نہ صرف ضیاع بلکہ انسانی جانوں کو بھی ہر وقت خطرہ رہتا ہے۔
مشاہدے میں آیا ہے کہ واپڈا کے حکام ایسی صورتحال سے نپٹنے کے لئے کسی نوع کی منصوبہ بندی کر نے سے قاصر نظر آتے ہیں حالانکہ تھوڑی سی محنت اور توجہ سے بہت کچھ ہو سکتا ہے میری نظر میں اصل وجہ کرپٹ نظام ہو نے کے باعث ایک دوسرے کے منہ تکتے نظر آتے ہیں کا م کوئی نہیں کر نا چاہتا ہم جان بوجھ کر تاریکیوں کے بندھن میں بندھے چلے آرہے ہیں میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ ملازمین کی ملی بھگت سے بجلی اور گیس چوری کا سلسلہ دراز ہو رہا ہے میٹر کلرک سے لیکر ایس ڈی او تک سب کو معلوم ہے کہ ان کے علاقوں میں کو ن کون بجلی چوری میں ملوث ہے چوہدری ہو یا نواب یا تاجر سب کے سب بجلی چوری کر کے ملک و قوم کو نقصان پہنچانے میں مصروف ہیں حکومت کو چاہئیے کہ وہ بجلی و گیس چوری کے خاتمہ کے لئے ایک محکمہ کا قیام عمل لائے اور چوروں سے محکموں کو نجات دلائے ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ بعض دیانتدار ان چوروں کو پکڑنے سے کتراتے ہیں کہ وہ بڑے با اثر ہیں ان کے پیچھے کسی نہ کسی سیاسی شخصیت کا ہاتھ ہے یہ سچی حقیقت ہے کہ ہر علاقہ میں ایسی شخصیت موجود ہے جو چوروں کو تحفظ فراہم کرتی ہے یہ شخص خود بھی اور اپنے چمچوں چانٹوں کوبھی چوری کر نے میں ملوث ہیں حکمرانوں کو چاہئیے انٹیلی جینس ایجنسیوں کے ذریعے اس سیاسی اور انتظامی شخصیات کا پتہ لگائیں اور انکو لگام ڈالیں ہمارے ہاں جمہوریت نہیں بلکہ ڈنڈا ہی ایسے چوروں سے نجات دلا سکتا ہے۔