گیس کے اضافی بلوں کا کیا بنے گا؟

Gas Bills

Gas Bills

تحریر: شہزاد حسین بھٹی

چند دن قبل گوجر خان میں میرے سُسرال میں گیس کا بل بائیس ہزار روپے برائے ماہ جنوری موصول ہوا۔دو افراد پر مشتمل گھرانے میں جہاں چار پانچ سو روپے گیس کا بل آتا تھاوہاں اچانک ایک بیوہ کو ہزاروں روپے کا بل موصول ہونا یقینا کسی بم کے گرنے سے کم نہیں تھا۔معاملہ مجھ تک پہنچا تو میں نے پرائم منسٹر پورٹل پربل کی کاپیاں لگا کر شکایت 18 فروری کو درج کروائی جو ایم ڈی سوئی نادرن گیس پائپ لائن کو مارک ہوئی۔27فروری کو پورٹل پر شکایت یہ لکھ کر ختم کر دی گئی کہ “ریلف نہیں دیا جا سکتا”۔ مزید تفصیلات میں لکھا گیا ہے کہ ہم میڑ کی واضح تصویر آپ کو بھجوا رہے ہیں اسکے مطابق ہم نے میڑ ریڈنگ کو چیک کیا ہے اس کے مطابق گیس استعمال کی گئی ہے۔

دوسری مثال اسلام آباد میں میرے ہمسائے کی ہے۔اُن کے گھر میں پانچ افراد رہتے ہیں جو گھر میں کم ہی پکاتے ہیں اور باہر سے کھانا زیادہ منگواتے ہیں۔ ان کا پہلا میڑ خراب تھا۔ میری شکایت پر وہ میڑ تبدیل کیا گیا۔ اور انہیں پہلا بل 9700 روپے بھیجا گیا جو انہوں نے بادل نخواستہ جمع کروا دیا۔ اس ماہ جو ماہ جنوری کا بل موصول ہوا وہ 25 ہزار سے زائد کا بھیج دیا گیا۔ اس صدمے سے اس گھرانے کے سربراہ بیمار ہو کر ہسپتال جا پہنچا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسا یک دم کیا ہو گیا کہ چند سو روپے والا بل ہزاوں روپے میں منتقل ہو گیا۔ کیا گیس صارفین نے گھروں میں تنور یا گیس استعمال کے لیے فیکٹریاں لگا لی ہیں کہ یکا یک ہزاروں کے بل بھیج دیئے گئے۔ اسی طرح کی کئی مثالیں موجود ہیں کئی صارف ان اضافی بلوں کی وجہ سے خودکشیاں تک کرچکے ہیں۔پرائم منسٹر پورٹل پر شکایات کے باوجود کمپلین کوئی بھی بہانہ بنا کر کلوز کر دی جاتی ہے اور یوں اس شکایت کا درج کرانا یا نہ کرانا ایک ہی زمرے میں آتا ہے۔

اطلاعات ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان کی ہدایت پر وفاقی حکومت نے گیس کے بلوں میں اضافے کی تحقیقات کے لئے چار رکنی تحقیقاتی کمیٹی قائم کر دی ہے جو اس امر کا جائزہ لے گی کہ گیس کے بلوں میں اچانک اتنا زیادہ اضافہ کیوں ہوا۔ اس کی وجوہات کیا تھیں اور سد باب کیا ہو سکتا ہے۔ یہ ہدایت ان شکایات کی بناء پر کی گئی جو راولپنڈی اور اسلام آباد کے مکینوں کی طرف سے کی گئی تھیں۔ صارفین کو یکایک سابقہ سال کی نسبت اس بار دسمبر کے بل چار پانچ گنا زیادہ آ گئے جس کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ دسمبر 2017ء میں جس صارف کا بل پانچ ہزار روپے تھا، اس کا اس مرتبہ 26 ہزار روپے تک آیا، شکایت یہ کی گئی کہ گھریلو صارفین کو تجارتی نرخوں کے مطابق بل بھیج دیئے گئے ہیں۔وزیر اعظم کانوٹس لینا بجا ہے اور یہ ہدایت بھی کہ وجہ معلوم کر کے صارفین کی شکایت ختم کی جائے، تاہم اندیشہ یہ ہے کہ یہ ممکن نہیں ہوگا کہ محکمے کے مطابق یہ بل صارفین کی طرف سے استعمال شدہ گیس اور نرخوں کے مطابق ہیںیا گیس زیادہ استعمال کی گئی۔ وزیر صاحب نے تو یہ کہہ دیا تھا کہ گیزر بھی تعیش ہے ،لوگوں کو چولہوں پر پانی گرم کرنا چاہئے۔ یہ ایک غیر منطقی استدلال ہے۔ دوسری طرف صارفین کی شکایت میں بھی اصل حقیقت کا ذکر نہیں کیا گیا۔ صرف اضافی بل کی بات کی گئی ہے، حالانکہ یہ بل نئے نرخوں کے مطابق بھیجے گئے ہیں، اگر سوئی گیس کے بل پر ہی غور کیا جائے تو اب گھریلو صارفین کے لئے بھی پانچ مراحل کے نرخ ہیں۔ پہلے دو والے تو قابل برداشت ہیں کہ ان میں اضافہ تھوڑا ہے۔

اس کی مثال یوں ہے کہ دسمبر 2017ء میں دو ہزار روپے ماہانہ بل کی جگہ اس بار دسمبر 2018ء کا بل قریباً دوہزار سات سو روپے آیا، جبکہ اس سے اگلی اور اس سے بھی اگلی سلیبوں کے حوالے سے یہ نرخ اچانک کئی گنا بڑھ جاتے ہیں اور گیس پہلے دو مراحل والے سے زیادہ استعمال ہو تو بل بھی غیر متوازن طور پر بڑھتا ہے۔ یوں اصل مسئلہ گیس کی قیمتوں اور ان کے تعین کا ہے، یہی ماہرانہ کاریگری ہے، جسے درست کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ گیس کے نرخ تو چار سو فیصد سے زیادہ بڑھائے گئے ہیں۔ سوال یہی ہے کہ کیا کمیٹی کے پاس یہ اختیار ہوگا کہ وہ قیمتوں کے تعین کے حوالے سے بھی تحقیق کر کے رائے دے اور اس کے مطابق نرخوں پر دوبارہ نظر ثانی کی جائے۔ دوسری صورت میں یہ مشق بھی لا حاصل ہو گی کہ جو قیمتیں مندرج ہیں، بل ان کے مطابق ہوں گے۔

اس طرح ایک شنید یہ بھی ہے کہ گھریلو صارفین کو بل کمرشل ریٹ لگا کر بھجوائے گئے ہیں۔ اس شکایت کی بھی تحقیقات ہونی چاہیے ۔ رہی بات اضافی بلوں کی تو محکمہ سوئی گیس یہ سہولت تو فراہم کر رہا ہے کہ بل کو اقساط میں جمع کروا دیا جائے لیکن یہ تحقیق نہیں کرتا کہ بل اضافی کیوں بھجوائے جا رہے ہیں۔وزیر اعظم پاکستان ان اضافی بلوں کا ریلیف متاثرہ صارفین کو کیسے دیں گے۔ عوام تنگ ہیں مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے ایسے میں چھبیس ہزار کا بل کوئی ذی شعور کیسے ادا کرے گا۔ حکومت کو یہ معاملہ ترجیعی بنیادوں پر دیکھنے کی ضرورت ہے نہ کہ بل جمع نہ کرا سکنے والے صارفین کے میڑ کاٹ دے۔حکومت کو بجلی کے بلوں کی شکایات کی طرح گیس کے اضافی بلوں کے بحران کو بھی سدباب کرنا ہو گا۔ عوام چیخ رہے ہیں لیکن کوئی شنوائی نہیں ہے۔ اعلیٰ عدلیہ کو بھی اس معاملے پر سوموٹو ایکشن لینے کی اپیل ہے۔

Shahzad Hussain Bhatti

Shahzad Hussain Bhatti

تحریر: شہزاد حسین بھٹی