حکومت کی جانب سے پیش کرد ہ قومی بجٹ برائے 2014-15 کو حکومت کی جانب سے عوامی بجٹ قرار دیئے جانے کے باجود اپوزیشن اور عوامی حلقے اس بجٹ پر تحفظات کے باعث سراپا احتجاج ہیں اور ابھی ان کے احتجاج کی شدت میں کوئی کمی نہیں آئی ہے کہ ملک کو معاشی ترقی دینے کی دعویدار عوامی حکومت کی جانب سے منی بجٹ آنے شروع ہو گئے ہیں۔
وفاقی وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی نے یکم جولائی سے گیس کے نرخ بڑھانے کا عندیہ دے دیا ہے اور بقول ان کے اوگرا اس سلسلے میں اپنی سفارشات مرتب کررہی ہے جونہی وزارت کو یہ سفارشات موصول ہوں گی نوٹیفکیشن جاری کر دیا جائے گا۔
انہوں نے قوم کو یہ روایتی تسلی دینا بھی ضروری جاناکہ اس اضافے سے گھریلو صارفین متاثر نہیں ہوں گے جبکہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بجٹ کا اعلان ہوتے ہی ہر سطح پر یہ خدشہ اور یقین ظاہر کیا گیا تھا کہ میزانیہ منظور ہو گیا تو یہ منجمد نہیں ہو گا۔
بلکہ روایت کے مطابق بعد میں بھی منی بجٹ آتے رہیں گے اور یہ خدشہ شاہد خاقان عباسی کی جانب سے گیس کے نرخوں میں اضافے کی مجبوری کی نوید سے حقیقت کا روپ دھار چکا ہے۔
Budget
عوامی بجٹ کے دعویدار وفاقی حکومت کی جانب سے گیس کی قیمتوں میں اضافے کے ذریعے پہلا منی بجٹ عوام پر مسلط کیا جا رہا ہے۔
وزیر موصوف کے دعوے کے مطابق اول تو یہ ممکن نہیں کہ گیس کے نرخوں میں اضافے سے گھریلو صارفین کو مستثنیٰ قرار دیا جائے اور اگر ایسا ہوا تو بھی تجارتی اور صنعتی پیمانے پر جو نرخ بڑھیں گے وہ ہر قسم کی اشیا ءکی قیمتوں پر یقیناً اثر انداز ہوں گے اور اس کا بوجھ بہرحال عوام ہی کو منتقل ہونا ہے۔
یوں بھی جب بجٹ میں سبسڈی کے لئے رقم مختص کرتے وقت اسے کم کر دیا گیا تھا تو یہ یقینی امر تھا کہ ہر وہ ضرورت متاثر ہو گی کہ جو سبسڈی کی حامل ہے چنانچہ گیس کے علاوہ بجلی اور پانی وغیرہ کے نرخوں میں بھی اضافہ ہونا لازم ہے اور یہ محض تسلی ہے کہ عام آدمی متاثر نہیں ہو گا۔
ابھی تو یہ طے نہیں ہو پا رہا کہ وزارت خزانہ نے پانچ صنعتوں پر گیس سرچارج عائد کیا تھا وہ تجویز واپس لی گئی ہے کہ نہیں جبکہ اس تجویز کے آتے ہی سیمنٹ کی بوری کے نرخ بڑھ گئے تھے۔
اب بجلی کی بھی باری آنے والی ہے۔حکومت معاشی ترقی اور عوامی بہبود کی دعویدار ہے تو اسے حکومتی اخراجات کم اور سادگی اپناکر اپنے ان دعووں کو ثبوت دینا ہو گا۔
Democracy
جبکہ بجٹ 2014-15 ءکے بعد اب گیس نرخوں میں اضافے کے ذریعے منی بجٹ کا آعاز ان دعووں کی تردید ہے جس سے حکومتی ساکھ متاثر ہونے اور حکومت پر کمزور ہوتے ہوئے عوامی اعتماد کو مزید ٹھیس پہنچنے کا خدشہ و خطرہ مزید واضح ہو رہا ہے ! اسلئے جمہوریت کے دعویدار عوامی حکمرانوں کواپنی ساکھ اور حکومت دونوں کو بچانے کیلئے کم از کم منی بجٹ کی رسم کا خاتمہ تو کرنا ہی ہو گا۔