تحریر : سجاد علی شاکر لاہور’ اسلام آباد’ کراچی’ پشاور اور کوئٹہ سرگودھا ‘ فیصل آباد سمیت ملک بھر کے متعدد شہروں میں پٹرول کی قلت شدت اختیار کر گئی ہے۔ پٹرول ڈیلرز کے مطابق مارکیٹنگ کمپنیوں کی جانب سے پٹرول کی سپلائی نہ کرنے سے قلت پیدا ہوئی ہے۔ عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں 6 سال کی کم ترین سطح45 ڈالر فی بیرل پر ا?گئی ہے۔ اس تناسب سے پاکستان میں بھی قیمتیں کم ہونی چاہئیں تھیں لیکن ہمارے ہاں قیمتوں کے تسلسل سے کم ہونے کے خطرے کے پیش نظر پٹرول منگوایا ہی نہیں جا رہا جسکے باعث ملک بھر کے شہری خوار ہو رہے ہیںجبکہ انتظامیہ خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔ راولپنڈی میں 70 فیصد پٹرول پمپ بند ہیں۔ دیگر شہروں میں بلیک میں مہنگے داموں پٹرول فروخت کیاجا رہا ہے۔لاہور میں 130 روپے فی لٹر پٹرول فروخت کیا جا رہا ہے۔ اکثر پٹرول پمپوں میں لڑائی جھگڑے دیکھنے میں ا? رہے ہیں۔ عموماً دیکھنے میں یہ ا?تا ہے کہ جیسے ہی پٹرول مہنگا ہو تو پٹرول پمپ مالکان فوراً مہنگا کر دیتے ہیں لیکن اگر سستا ہو تو ترسیل ہی بند کر دی جاتی ہے۔
حکومت نے پٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس بھی زیادہ کر دیا ہے۔ اس وقت ایک لٹر پر 23 روپے ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے جبکہ تیل کمپنیاں اور ڈیلرز کا منافع ساڑھے پانچ روپے ہے لیکن آئل کمپنیوں نے منافع میں اضافے کیلئے پٹرول کی سپلائی بند کی ہے۔ بقول پی ایس او حکام کے مارکیٹنگ کمپنیوں نے سپلائی بند کر دی ہے اگر مارکیٹنگ کمپنیوں نے سپلائی بند کر دی ہے تو اسکی سزا 18 کروڑ عوام کو نہ دی جائے بلکہ مارکیٹنگ کمپنیوں کے ساتھ بیٹھ کر معاملات طے کئے جائیں اور پٹرول کی سپلائی بحال کی جائے۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے اگر اس بحران کا فی الفور نوٹس نہ لیا تو ا?نیوالے دنوں میں یہ بحران شدت اختیار کر جائیگا اور بجلی گیس کی عدم دستیابی کی طرح پٹرول کے نہ ملنے پر بھی شہری چوکوں اور چوراہوں پر حکومت کے مخالف کھڑے ہونگے۔ پہلے سے ہی بحرانوں میں گھری حکومت کو اس کا نوٹس لیکر شہریوں کی مشکلات کا ازالہ کرنا چاہئیے۔پریشان حال شہری پٹرول کے حصول میں در بدر ہوگئے پٹرول کی قلت شہریوں کے لئے سردرد بن گئی راولپنڈی اور اسلام آباد میں گزشتہ دو روز سے پٹرول غائب ہے لاہور میں بیشتر پٹرول پمپس پر فروخت بند پاکستانی عوام پٹرول کے حصول کے لئے دھکے کھا رہی ہے پٹرول پمپس پر لمبی قطاریں روز کا معمول بن گئی ہیں۔
دفاتر اور کام کاج پر جانے والے شہریوں نے پٹرول کی قلت پر حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا مگر حکومت ٹس سے مس نہ ہوئی اور نہ ہی وزارت خزانہ،اور وزارت پٹرولیم نے اپنی کارکردگی کا کوئی مظاہرہ کیا۔پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی قلت اس صورتحال سے اندازہ ہوتا ہے کہ گیس کے بحرانوں کے بعد اب پاکستانی عوام کو ایک نئے مسئلے کا سامنا کرناپڑے گا کیونکہ پی ایس او کا سر کلر ڈیٹ دو سوارب روپے سے تجاوز کر گیا ہے رقم نہ ہونے کے باعث پی ایس او نے جنوری میں تیل کی خریداری کے تمام ٹینڈر منسوخ کر دیے ہیں نجی کمپنیوں کو پی ایس او کی جانب سے سپلائی رکنے کے بعد پنجاب کے مختلف علاقوں میں پٹرول کی قلت میں اضافہ ہو گیا ہے بروقت ڈیلیوری نہ ہونے سے پٹرول کا بحران مزید شدت اختیار کر جا ئے گا ادھر پٹرولیم ڈیلرز نے پٹرولیم مصنوعات کی قلت کا ذمہ دار پٹرولیم سپلائیرز کو قراردیدیا مگر اس میں پاکستانی عوام کا کیا قصور اس کو کس چیز کی سزا مل رہی ہے دنیا کے کئی ممالک کی طرح پاکستان میں بھی کمزور مالیاتی اداروںاور بے جا حکومتی اخراجات اور کرپشن کی وجہ سے غربت اور مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہوا ہے ان حالات میں عوام کے لیے دو وقت کی روٹی کا حصول بھی دن بدن دشوار ہو تا چلا جا رہا ہے۔
Inflation
بڑھتی ہوئی مہنگائی اور غربت شاید پاکستان کی تقدیر کا حصہ کیوں بنتی جارہی ہے عالمی منڈی میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی مگر پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی قلت ناگزیر ہوچکی ہے پٹرولیم مصنوعات کی مسلسل تیسر ے ر وز بھی کمی لاہور سمیت گردونواح میں پٹرولیم مصنوعات کی قلت بدستور برقرار دوسو اسی پٹرول پمپس میں سے سترفیصد سٹیشن بند ہیں۔جو پٹرول پمپ کھلے ہیں ، وہاں صارفین کی لمبی قطاریں لگی ہیں ، تیل کی درآمد میں کمی سے ملک میں مسئلہ سنگین ہوتا جا رہا ہے پاکستان سٹیٹ آئل کا مالی بحران شدت اختیار کرگیا وزارت خزانہ، وزارت پٹرولیم نے اپنی کارکردگی کا کوئی مظاہرہ نہیں کیاایسا لگا رہا ہے کہ حکومت ملک کے موجودہ حالات سے واقف ہی نہیںیاحکومت کو عوام کے مسائل سے دلچسپی ہی نہیں ہے اور نہ ہی ایوانوں میں اس بات کی ضرورت محسوس کی جاری ہے ملک میں اقتصادی پالیسیاں ملک کے طاقتور طبقے کو ہی فائدہ پہنچاتی ہیں اور اس کے اثرات براہ راست غریب عوام پرپڑھتے ہے حکومت اداروں کو منظم کرنے میں ناکام ہوتی نظرآرہی ہے۔
ملکی اثاثوں کی کمی کی وجہ سے ملک میں پٹرول کی قلت ہے جس کے منفی اثرات کی وجہ سے ترقیاتی منصوبے تکمیل تک پہنچ ہی نہیں پائے حکومت کی جانب سے چلائے جانے والے اداروں کوغیر ملکی سرمایہ دار وں کو بیچا جا رہا ہے،مارکیٹ میں پٹرول کی مصنوئی قلت پیدا کر کے اشیائ کو مہنگا کر دیا جاتا ہے۔اجارہ داری کے منصوبوں کے تحط کمیشن لے کر ڈیل کی جاتی ہے اور آخر میں تمام بوجھ صارف کو ہی اٹھانا پڑتا ہے یہی وجہ مہنگائی اور غربت میں مزید اضافہ کا باعث بنتا ہے کمزور مالیاتی اداروں،غیر ملکی قرضوں اور بڑھتے ہوئے حکومتی اخراجات نے معیشت کو اس حد تک نقصا ن پہنچایا ہے کہ ملک میں زرمبادلہ خطرناک حد تک کم ہوگئے ہیںاسی بات کا ایک ثبو ت پاکستان سٹیٹ آئل کا مالی بحران ہے پاکستان سٹیٹ آئل کا مالی بحران شدت اختیار کر گیا پی ایس زیر گردش قرضوں کا حجم 187ارب روپے تک پہنچ گیا ہے جس میں ستاسی ارب حبکو’ 41 ارب واپڈا ، تیتیس ارب کیپکو، 4 ارب ترتالیس کروڑکے ای ایس سی تین رب چولیس کروڑ روپے پی آئی اے، این ایل سی پر اڑتیس کروڑ روپے ، ریلوے پر ایک ارب پر واجب الادا ہیں۔ پی ایس او نے مختلف آئل ریفائنریز کے 1کھرب 99 ارب 25کروڑ روپے ادا کرنے ہیں۔ پی ایس او کو بروقت 50 ارب روپے فراہم نہ کئے گئے تو ملکی ضروریات کیلئے پٹرولیم منصوعات اور فرنس آئل درآمد نہیں کیا جاسکے گا۔ وزارت خزانہ، وزارت پٹرولیم اور وزارت پانی و بجلی سے پی ایس او کے واجبات کی مد میں فوری طور پر پچاس ارب روپے کی ادائیگی کو یقینی بنانے کی ہدایت کی گئی لیکن ادائیگی نہ ہوئی پی ایس او نے پاور سیکٹر کو ایندھن کی سپلائی میں تیس فیصد کمی کر دی وزارت پٹرولیم اور وزارت داخلہ کی جانب سے تاحال کوئی بھی اقدام نہیں کیا گیا ہے۔اگر بحران پر قابو نا پایا نہ گیا تو آئندہ ہفتے میں پنجاب کی عوام کو مزید مشکلات کا سامنا ہو گاتیل پیدا کرنے والے ممالک نے تیل کی پیداوار اتنی بڑھا دی ہے کہ عالمی منڈی کے لئے اسے کھپاناممکن نہیں رہا او راس طرح تیل کی مصنوعات کی قیمتیں کم ہوگئی ہیں کیونکہ مارکیٹ میں جس چیز کی رسد زیادہ ہو جائے اس کی قیمت ازخود کم ہو جایا کرتی ہے مگر پاکستان میںاس صورتحال کا ایک دلچسپ پہلو یہ کہ جہاں تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک تیل کی پیداوار میں کمی نہیں کررہی و ہاں ہمارے ملک میں پٹرولیم مصنوعات کی قلت ہوتی جار ہی ہے حریف ممالک کو نقصان پہنچانے کی خسارہ حکمت عملی ! حکومت کی غیر موثر پالیسیاں ، پاکستان کا عام آدمی ریلیف سے محروم ہوتا جارہا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت کو ایسے اقدامات کرنے چاہیے جس سے ملک میں جاری پیٹرول کے بحران پر قابو پایا جا سکے اور جس طرح دنیا کے تمام ممالک کی عوام تیل کی قیمیوں میں کمی سے فائدہ اٹھا رہی ہے اس طرح پاکستان کی عوام کو بھی ریلیف مل سکے نہ کہ قمتیں کم ہونے سے پیٹرول نایاب ہو جائے۔) پٹرول پمپ مالکان نے شہریوں کو پٹرول کی فروخت بند کر دی۔
پٹرول نہ ملنے سے شہری ذلیل و خوار ہونے لگے۔ حکومت نوٹس لے، مطالبہ شہر کے قریب واقع نجی پٹرول پمپ مالکان نے دو روز سے شہریوں کو پٹرول کی فروخت بندکررکھی ہے جس کی وجہ سے رکشہ ، موٹر سائیکل مالکان اور کاروں والے گاڑیوں کو دھکے لگاتے نظر آئے بیشتر مقامات پر جذبہ ایثار کے تحت موٹر سائیکل سوار ایک دوسرے کی مدد کرتے بھی نظر آئے جو اپنی موٹر سائیکلوں سے بوتلوں اور شاپروں کے ذریعے پٹرول نکال کردوسرے موٹر سائیکلوں کی ٹینکیوں میں منتقل کرتے رہے۔پٹرول نہ ملنے کی وجہ سے طالبعلموں کی بڑی تعداد کو سکولوں کالجوں سے غیر حاضر ہونے کے علاوہ رستوں میں پٹرول ختم ہونے پر دشواری کا سامنا ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ جب سے پٹرول کی قیمتیں عالمی منڈی میں آنے والے کمی کے بعد نیچے آئی ہیں۔پٹرول پمپ مالکان نے من مانیاں شروع کر رکھی ہیں جو سستا خریدا ہوا پٹرول مہنگے داموں فروخت کرنے کیلئے فروخت بند کر کے ذیلی ایجنسیوں کے مالکان کو فروخت کردیتے ہیں۔ شہریوں نے الزام لگایا کہ مختلف مقامات پر قائم غیر قانونی ایجنسیوں پر پٹرول کی فروخت جاری ہے جہاں90 سے100 روپے تک میں پٹرول فروخت کیا جارہا ہے۔شہریوں نے وزیر اعظم پاکستان محمد نواز شریف سے صورتحال کا فوری اور سخت نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔اور عوام کے مسائل ازالہ کیا جائے۔
Sajjad Ali Shakir
تحریر : سجاد علی شاکر sajjadalishakir@gmail.com 03226390480