صد سالہ اجتماع کی سج دھج

JUI

JUI

تحریر : عبدالغنی شہزاد
بالآخر جے یو آئی کے ورکرز نے بھر پور محنت اور ریاضت سے صد سالہ عالمی اجتماع کی تیاریاں مکمل کرہی لیں. 7.8.9 اپریل کو پشاور میں ہونے والاعالمی اجتماع جے یوآئی کی سوسال عمر پوری ہونے کے سلسلے میں منعقد کیا جا رہا ہے. ایک سال سے تیاری جاری رہی اب پورے ملک سے قافلوں کی روانگی کا آغاز ہوچکا ہے اس وقت ملک بھر میں ہر طرف صد سالہ عالمی اجتماع ہی کی سج دھج اور چرچا ہے . جمعیت کی میزبانی ان کے اسٹیج پر مسلم دنیا کی بڑی پرکشش شخصیات جلوہ افروز ہوں گی، ان میں امام کعبہ شیخ عبدالرحمن السدیس، جمعیت علماء ہند کے سربراہ مولانا ارشد مدنی سمیت پاکستان کے جید علماء کرام سمیت قومی سیاستدان شامل ہیں.

صد سالہ دور میں جمعیت نے اپنے اغراض ومقاصد اور منشور کے تحت کیا نمایاں کامیابیاں حاصل کیں؟ اور کن کھٹن مراحل سے گزر پرامن سیاسی جدوجہد کے ذریعےکیا کارہائے نمایاں سرانجام دیں ؟ ملک کی اسلامی تشخص اور بقاء کیلئے کیا کچھ کیا ہے ؟ اسلامی نظام کے نفاذ کیلئے کیا خدمات سرانجام دی ہیں ؟ دنیا کو امن اور دہشت گردی کے حوالے سے کیا پیغام دیاہے؟ قرارداد کے ذریعےبین القوامی سطح پر اسلام کے خلاف منفی پروپیگنڈوں کا کس انداز میں جواب دیا جائیگا؟ ان تمام سوالوں کا جواب اس اجتماع میں مل سکتا ہے. ویسے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ جمعیت علماء اسلام ایک عظیم الشان تاریخ کی حامل نظریاتی جماعت ہے اگرتاریخ پر سرسری نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ یہ 7، 8، 9 ربیع الاول 1339ھ مطابق 19، 20، 21 اکتوبر 1920 کی بات ہے۔ جب جمعیت علماء ہند کا دوسرا اجلاس ہونے جا رہا تھا۔ جو اپنے مقاصد کے لحاظ سے نہایت اہم اجلاس تھا۔ ابھی حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ 12 مارچ 1920 مالٹا سے رہا ہو کر آئے تھے۔ ضعیف العمری تھی۔ زندگی کے آخری ایام تھے۔۔ امراض مختلفہ میں مبتلا تھے۔۔ لیکن آپ کا قلبی مذاق ہی سیاست تھا۔۔ حیات مقدسہ کا بلکل آخری دور تھا۔ آپ نے اس پیرانہ سالی میں جمعیت علماء ہند کے دوسری اجلاس کی صدارت قبول کی۔۔ یہ جمعیت علماء کے لیے تاریخی امتیاز تھا۔ کہ شیخ الہند جیسی عبقری شخصیت نے اجلاس کی صدارت کی اور خطبہ صدارت پیش کیا۔۔ شیخ الہند مولانا محمود الحسن رحمہ اللہ تعالی علیہ در حقیقت پورے ہندوستان کے شیخ الہند تھے۔ آپ نے ہی ایک طالبعلم کی حیثیت سے دارلعلوم دیوبند کی بنیاد رکھی اور آپ ہی نے جمعیت علماء کے اجلاس کی صدارت فرما کر گو جمعیت علماء کی بنیاد رکھی۔۔ اس لیے دیوبند اور جمعیت علماء کو الگ نہیں کیا جا سکتا۔

حضرت شیخ الہند نے اپنے تاریخی خطبہ صدارت میں علماء ملت کو جن نظریات کی ہدایت فرمائی ان میں سے ایک نظریہ پیش خدمت ہے
” اگر موجودہ زمانہ میں توپ، بندوق، ہوئی جہاز کا استعمال مدافعت کے لیے جائز ہو سکتا ہے ( باوجو یکہ قرون اولی میں یہ چیزیں نہ تھیں) تو مظاہروں اور قومی اتحادوں اور متفقہ مطالبوں کے جواز میں تامل نہ ہو گا۔کیونکہ موجودہ زمانہ میں ایسے لوگوں کے لیے جن کے ہاتھ میں توپ، بندوق، ہوئی جہاز نہیں یہی ہتھیار ہیں۔” (خطبہ صدارت صفحہ 16 مطبوعہ قاسمی دیوبند اس سے بھی پہلے کی تاریخ کی کڑیوں کو اگر دیکھا جائے تو یہ بھی معلوم ہوگا کہ 1757ء میں سراج الدولہ شہیدؒ کے معرکہ سے شروع ہو کر 1943ء میں پیرجوگوٹھ سندھ کے عظیم دینی، روحانی اور جہادی مرکز پر برٹش فضائیہ کی بمباری تک پہنچی اور اس دوران برصغیر کے بیسیوں مقامات پر مجاہدین آزادی نے جہاد آزادی کا پرچم سربلند رکھا اور ایثار و قربانی کی ایک عظیم تاریخ رقم کی۔

1757ء میں بنگال کے نواب سراج الدولہ شہید اور 1943ء میں سندھ کے پیر آف پگارا پیر سید صبغۃ اللہ شہید کی پھانسی کے درمیانی عرصہ میں جہاں ٹیپو سلطانؒ، شہدائے بالا کوٹ، حاجی شریعت اللہؒ، حاجی صاحب آف ترنگ زئیؒ، فقیر ایپیؒ، سردار احمد خان کھرلؒ، حافظ ضامن شہیدؒ اور دیگر مجاہدینِ آزادی کی ایک طویل فہرست ہے جن کی خدمات اور قربانیاں تاریخ کے روشن ابواب کی طرح ہمیشہ جگمگاتے رہیں گے، وہاں تحریک پاکستان میں مسلم لیگ کے اکابر زعماء کی جدوجہد کے ساتھ جمعیۃ علماء اسلام کے قائدین کی سعی و محنت بھی تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔ تحریک پاکستان کی حمایت کرنے والے سرکردہ علماء کرام نے 1945ء میں ’’جمعیۃ علماء اسلام‘‘ کے نام سے اپنی صف بندی کر کے مسلم لیگ کے شانہ بشانہ تحریک پاکستان میں سرگرم کردار ادا کیا۔ جبکہ قیام پاکستان کے عمل میں ہجرت کرنے والے ان ہزاروں خاندانوں کی قربانیاں بھی ناقابل فراموش ہیں جو ذبح ہوتے اور لٹتے پٹتے قافلوں کی صورت میں پاکستان پہنچے۔

اللہ رب العزت نے 1947ء میں ہمیں آزادی کی نعمت سے ہمکنار کرتے ہوئے پاکستان کے نام سے ایک الگ خودمختار ریاست عطا فرمائی، یہ آزادی بھی ان کے اکابر کی مرہون منت ہے . نیز جمعیت کی تاریخ پر سب سے زیادہ مناسب تبصرہ کیا ان کے مطابق جمعیت علمائے ہند کا قیام 1919ء میں شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی کےتلامذہ اور معاونین کے ذریعے فکرِ امدادی، فکرِ قاسمی اور فکرِ رشیدی کی بنیادوں پر عمل میں آیا۔ ان اکابر میں مولاناسید حسین احمد مدنی، مولانااحمد سعید دہلوی، مفتی کفایت اللہ دہلوی، مولانامحمد نعیم لدھیانوی، مولاناحفظ الرحمن سیوہاروی ، مولانا محمد میاں اور مولاناعبدالباری فرنگی محلی کے نام شامل ہیں۔

‎جمعیت علمائے اسلام پاکستان مذ کورہ بالا جمعیت وشخصیات کی فکر ونظر کی حامل ایک مذہبی سیاسی جماعت ہے۔ اس جماعت کا قیام 1945ء میں اس وقت عمل میں آیا جب جمعیت علمائے ہند نے تقسیم ہند کے حوالے سے انڈین نیشنل کانگریس کے موقف کی حمایت کی، یوں اس موقف سے اختلاف پر علامہ شبیر احمد عثمانی کی زیر قیادت جمعیت علمائے اسلام وجود میں آئی۔ ‎جمعیت علمائے اسلام ہمارے یہاں مذہبی اور جمہوری طبقےکی ایک نمائندہ تنظیم ہے ، جو پاکستان میں ایوب خان کے دور تک مذہبی جماعت کی حیثیت ہی سے نمایاں رہی ، لیکن ایوبی عہد میں جدیدیت اور لادینیت کی مخالفت میں یہ جماعت مولانا مفتی محمود کی زیر قیادت سیاسی سرگرمیوں میں کود پڑی۔ 1960ء کی دہائی کے اواخر میں ایوب خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد اور 1970ء کے عام انتخابات میں جمعیت علمائے اسلام نے انتخابات میں حصہ لیا۔ 1972ء سے 1973ء تک مفتی محمود سرحد کے وزیر اعلیٰ بھی رہے۔

‎نظریاتی طور پر جمعیت علمائے اسلام روایتی اسلامی قوانین کی حامی ہے، اسی لیے یہ جماعت افغانستان میں طالبان کی اسلامی حکومت کی زبردست حمایت کرتی رہی ہے۔ مملکت سعودی عرب میں حرمین شریفین اور حدود الله کے نفاذ کی وجہ سے یہ پوری جماعت سعودی حکومت کی حمایت کرتی ہے، جمعیت علمائے اسلام اور اس کے حامیوں نے پاکستان اور دنیا کے کونے کونے میں ہزاروں مدارس قائم کیے، جو کسی بھی دوسری مذہبی تنظیم سے زیادہ تعداد میں ہیں۔

‎مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل میں بھی یہ جماعت بہت فعّال اور نمایاں طور پرشامل رہی ہے، جس نے 2002ء کے عام انتخابات میں 73 نشستیں اور 11.21 فیصد ووٹ حاصل کیے تھے۔ جمعیت علمائے اسلام پاکستان مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں ملک کی اہم ترین سیاسی جماعتوں میں سے ایک ہے،مفتی محمود مرحوم کی قد آورشخصیت کے بعد عام لوگ یہ سمجھتےتھے کہ جمعیت نام کی جماعت اَب برائے نام ہی رہیگی،پر مولانا فضل الرحمن کی بصیرت افروز اور ولولہ انگیز امارت نے اس جماعت کو صفِ اول کی پارٹیوں میں لا کھڑا کیا ہے۔

جمعیت نے آج سے پندرہ بیس برس قبل پشاور کے مضافات میں تأسیسِ دارالعلوم دیوبند کے عنوان سے ایک بہت بڑا اجتماع منعقد کیا تھا ، راقم اس میں شریک ہوا تھا ، اُتنا بڑا اجتماع اس سے پہلے کبھی دیکھنے کو نہیں ملا تھا، ملک بھر اور دیگر اسلامی ممالک سے اس میں عوام وخواص کی شرکت تھی، تبلیغی اجتماعات کی طرح تمام تر انتظامات تھے، بیانات اور دروس کا ایک حسین مرقع تھا۔

اس وقت سات سے نو اپریل تک یہ سہ روزہ اجتماع بھی ایک منفرد سیاسی ومذہبی قوت کا مظاہرہ ہوگا، اس میں عالمِ اسلام کی ہر دلعزیز شخصیت ، امام کعبہ شیخ عبد الرحمن السدیس بھاری بھرکم وفد کے ساتھ جلوہ افروز ہوں گے،ہندوستان، ساؤتھ افریقہ،امریکہ ، کناڈا،برطانیہ اور تمام عرب ممالک سے دینی زعماء بھی تشریف لائیں گے، یوں اس اجتماع سےاپنی نوعیت کی ایک عالمی کانفرنس کا تأثر بھی لیا جائے گا، جمعیت علمائے اسلام چونکہ ملک کی سب سے بڑی مذہبی پارٹی ہے، اس لئےبجا طور پر ان کی یہ کاوش سب مذہبی جماعتوں اور تنظیموں کے حق میں جائی گی۔

جمعیت علمائے اسلام نے مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں ہمیشہ اعتدال اور جمہوریت کی سیاست کی ہے، دلیل ومنطق اُ ن کی پہچان بن گئی ہے، ملک اور اداروں کو بچانے کی کاوشیں کی ہیں، ڈنڈا برداری اور جلاؤ گھیراؤ کی سیاست اُن کے یہاں شجرۂ ممنوعہ ہے، کسی کی مخالفت کی ہے، تو ڈنکے کی چوٹ پر، کسی کی تائید کی ہے،تو وہ بھی ببانگِ دُھل۔مولانا دب کر اور مرعوب ہوکر سیاست کے قائل نہیں ہیں، اُ ن کے حق میں اور مخالفت میں بہت کچھ لکھا اور کہاگیا ، مگر جمعیت کاز کی سیاست کرتی ہے، اُن کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں، ذاتی پسند ناپسند کا معاملہ نہیں ہوتا، یہ لوگ مخالفت میں لڑائی یا نامناسب اندازِ بیان پر نہیں آتےاور حمایت میں کسی کے لئے بھنگڑے نہیں ڈالتے، وقار اور متانت اِن کا وہ شیوہ ہے جو انہیں ورثے میں اپنے بزرگوں سے ملا ہے۔
یہ لوگ کوئی فرشتے بھی نہیں ، ان سے بھی غلطیاں ہوتی ہیں، مگر بحیثیتِ مجموعی یہ ابتک دنیا بھر کے مذہبی اکابر کے معتمد ہیں اور اسی اعتماد کو وہ اپنا مینڈیٹ خیال کرتے ہیں۔کیونکہ جمعیت صرف ایک سیاسی جماعت نہیں بلکہ یہ اپنے آپ میں ایک سکول آف تھاٹ بھی ہے۔مسلکی اور فرقہ وارانہ چھاپ اس جماعت پر آج تک نہیں لگی،أخلاقیات، تحمل، برداشت اور رواداری اِن کے ادنی سے ادنی کارکن کے ماتھے کا جھومر ہے۔

بلا ترددیہ بات کہی جا سکتی ہے، کہ جمعیت علمائے اسلام نےاپنے قیام کے اھداف ومقاصد میں بڑی حد تک کامیابی حاصل کی ہے.جمعیت کی لگ بهگ صد سالہ عمر میں بہت سارے نشیب و فرازبھی آئے،اس طویل عرصہ میں ہوسکتا ہے کہ اس سے منسلک بعض افراد کے کسی عمل سے کچھ لوگوں کو شکایت ہو،مگر ہم سمجھتے ہیں کہ تنظیمات وتحریکات اور سیاسی جماعتوں کی زندگی میں یہ اچھنبے کی بات نہیں ہے.برادران وطن کے ساتھ مل بیٹهکر بین المذاهب والمسالک خیر سگالی،یکجہتی اور اتحاد کے لئے جمعیت کی جرأت مندانہ مساعی پوری قوم کی طرف سے بے حد قابل ستائش ہے. عام مسلمانوں اور پاکستانیوں کے لئےنیز دینی مدارس کی سالمیت کے لئے جو کامیاب کوششیں جمعیت علمائے اسلام پاکستان کر رہی ہے، اسے نہ آج نظر انداز کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی مستقبل کا انصاف پسند مؤرخ کبھی فراموش کرسکے گا۔

Abdul Ghani Shahzad

Abdul Ghani Shahzad

تحریر : عبدالغنی شہزاد