غزہ خونم خون

Gaza Israeli Attacks

Gaza Israeli Attacks

تحریر : پروفیسر مظہر

صیہونی فوج کے وحشی درندوں کی سفاکی کی بدترین نظیریں جابجا۔ بچے محفوظ نہ خواتین ، ایمبولینسز نہ ہسپتال۔ اُجڑی بستیاں، جوئے خوں بہاتی گلیاں، دشت ودمن لہو لہو، صحنِ چمن لہو لہو، اُجڑتی مانگیں، ٹوٹتی چوڑیاں، نوحے دَر دَر ماتم گھر گھر، معصوم بارود کی زَد پر، مظلوم ستمگروں کے نشانے پر۔یہ ہے ارضِ فلسطین، یہ ہے غزہ جہاں دَورِحاضر کا ہلاکو نیتن یاہو سکوتِ بغداد کی تاریخ دہرانے کے دَرپے۔ قصور اِن مظلوموں کا فقط اتنا کہ آزادی سے جینے کا حق مانگیں۔ ظلم وستم اور قہروجبر کی اَنمٹ داستانوں کے بیچ عالمی دہشت گرد کا سرپرست امریکی صدر جوبائیڈن یہ کہتا ہوا کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ اُس نے اسرائیل کی فلسطین میں بربریت کی مذمت کی بجائے اُس کی کھُل کر حمایت کرتے ہوئے حماس کی جانب سے اس پر راکٹ حملوں کی مذمت کی اور نیتن یاہو کو اپنی بھرپور حمایت کا یقین دلایا۔ سوال مگر یہ کہ کیا فلسطین کے مجبورومقہور اسرائیل پر حملہ آور ہونے کی سکت رکھتے ہیں؟۔ ہمیں اِس امریکی حمایت پر ہرگز حیرت نہیں ہوئی کہ یہ تو چودہ صدیاں پہلے ہی طے کردیا گیا ”ہم اِس طرح ظالموں کو ایک دوسرے کا ساتھی بنائیں گے، اِس کمائی کی وجہ سے جو وہ کرتے تھے” (الانعام 129 )”۔ فرقانِ حمید کا واضح فیصلہ کہ ”ہم ایک ظالم کو دوسرے ظالم کا دوست بنا دیتے ہیں”۔ اب ظاہر ہے کہ ایک ظالم دوسرے ظالم کی ہی مدد کرے گا، مظلوم کی نہیں۔

قصور مگر اہلِ ستم کا بھی نہیں کہ ”ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگَ مفاجات”۔ جب قومِ مسلم خودی، خودداری اور لذتِ نمو کھو چکی تو پھر ذلتوں کا شکار ہونا تو طے تھا۔رَبِ لم یزل کا قطعی فیصلہ ”بیشک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلے” (الرعد 11)۔ ہماری حالت یہ کہ ہمارا رَب سے تعلق بگڑے بچے کا سا اور ضعفِ ایمانی اپنی انتہاؤں کو چھوتا ہوا۔ قومِ مسلم کے جوہرِ خفتہ کو بیدار اور بَرسرِ پیکار کرنے والے لَد چکے، باقی ہے تو محض خوف کے گھور اندھیروں سے جنم لینے والے وہ لوگ جو بظاہر مسلم مگر اعمال وافعال میں دین کی ہلکی سی رمق تک بھی مفقود۔ اگر اِنہیں رَبِ علیم وخبیر پر یقین ہوتا تو جانتے کہ اللہ سے بڑھ کر کوئی زبردست نہیں۔ سورة الانفال میں درج ”اور وہ موقع یاد کرو جب تم اپنے رَب سے فریاد کر رہے تھے جواب میں اُس نے فرمایا کہ میں تمہاری مدد کے لیے پے در پے ایک ہزار فرشتے بھیج رہا ہوں۔ یہ بات اللہ نے تمہیں صرف اِس لیے بتا دی کہ تمہیں خوشخبری ہو اور تمہارے دل اِس سے مطمٔن ہو جائیں ورنہ مدد تو جب بھی ہوتی ہے اللہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے، یقیناََ اللہ زبردست اور دانا ہے” (آیات 9,10)۔ مسلم اُمّہ کے پاس سب کچھ ہے، اگر کچھ نہیں تو فقط ایمان کی طاقت نہیں۔ اِسی لیے ہر لمحے خوف کی پرچھایاں دامن گیر رہتی ہیں۔ اگر ایمان کی مضبوطی کے ساتھ صرف سورة انفال ہی کا مطالعہ کر لیں تو پھر

کیوں ہراساں ہے صہیلِ فرسِ اعدا سے

نورِ حق بُجھ نہ سکے گا نفسِ اعدا سے

لیکن یہاں تو قومِ مسلم باہم جوتم پیزار اور ایک دوسرے کا گلا کاٹنے کو تیار، یہ سب غیرمسلم قوتوں کی سازشوں کا شاخسانہ ہے مگر بدقسمتی سے سربراہانِ اُمتِ مسلمہ اِس سے بے خبر۔ جب یہ حالت ہو توپھر نصرتِ ربی کیسے آ سکتی ہے۔

سوال یہ کہ کہاں ہے شجاعت ہ سخاوت ، غیرت وحمیت، جودوسخا اور صبر ورضا جو قومِ مسلم کی پہچان ہوا کرتی تھی؟۔ عزت وناموس کی بازیابی کی تگ ودَو تو رکھیں ایک طرف، یہاں تو ضمیر ہے نہ نورِ حق کا اعلان کرتی زبان۔ علم بالقلم ہے نہ عمل بالجہدکہ اپنی یہ میراث ہم غیروں کے سپرد کر چکے۔ اب اگر ہے تو صرف ذات کے گنبد میں گُم اُمتِ مسلمہ کے بزعمِ خویش رَہنماء جنہیں آقا ۖ کا یہ فرمان بھی یاد نہیں”جہاں برائی دیکھو، اُسے ہاتھ سے روکو۔ اگر ہاتھ سے روکنے کی سکت نہ ہو تو زبان سے بُرا کہو اور اگر زبان سے بُرا کہنے کی ہمت نہ ہو تو دِل میں برا کہہ دو اور یہ تمہارے کمزورترین ایمان کی نشانی ہے” (مفہوم)۔ اِس حدیثِ قُدسی میں بلاامتیازِ مذہب وملت برائی کو روکنے کی تلقین کی گئی ہے۔طاغوتی طاقتیں جو کچھ ارضِ فلسطین میں کر رہی ہیں کیا وہ برائی نہیں؟۔ اگر ہے تو پھر کیا اُسے ہاتھ سے روکنے یعنی جہاد کا حکم نہیں؟۔ جب یہ بات کی جاتی ہے تو طنز کے تیر برساتے ہوئے کہا جاتا ہے کیا ہم اُمتِ مسلمہ کے ٹھیکیدار ہیں اور کیا ”سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے؟”۔ جی ہاں! یہ درد ہمارے جگر ہی میں ہے اور ہر مسلمان کے جگر میں ہونا چاہیے کیونکہ یہ ربِ علیم وخبیر کا حکم ہے۔ فرمانِ رَبی ہے ”تم میں سے کچھ لوگ ایسے ضرور ہونے چاہییں جو نیکی کی طرف بلائیں، بھلائی کا حکم دیں اور برائیوں سے روکتے رہیں۔ جو لوگ یہ کام کریں گے، وہی فلاح پائیں گے (سورة العمران 104)”۔

کیا مسلم اُمّہ کو فرقانِ حمید کا یہ حکم بھول گیا کہ جبر واستبداد اور ظلم واستحصال کے خلاف جہاد کے لیے نکلو سورة النساء 71میں حکم ہوا ”اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، مقابلے کے لیے ہر وقت تیار رہو، پھر جیسا موقع ہو، الگ الگ دستوں کی شکل میں نکلو یا اکٹھے ہو کر”۔ اِسی سورة مبارکہ میں یہی حکم یو ںصادر ہوا ”پس اے نبی! تم اللہ کی راہ میں لڑو، تم اپنی ذات کے سوا کسی اور کے ذمہ دار نہیں البتہ اہلِ ایمان کو لڑنے کے لیے اُکساؤ۔ بعید نہیں کہ اللہ کافروں کا زور توڑ دے، اللہ کا زور سب سے زیادہ زبردست اور اُس کی سزا سب سے سخت ہے”( النساء 84)۔ یہاں رَبِ کریم نے کمال مہربانی فرماتے ہوئے یہ نوید بھی سنا دی کہ اگر مسلمان اللہ کے حکم کے مطابق نکلیں تو اُس زبردست کی نصرت ساتھ ہوگی اور غیرمسلموں کا زور ٹوٹ جائے گا۔ قرآنِ مجید کی سورة التحریم آیت 9، التوبہ آیت 29، سورة الحج آیات 39, 40، سورة البقرہ آیات 190,193، سورة انفال آیت 25 کے علاوہ بھی جگہ جگہ ظلم وجبر اور برائی کے خلاف نکلنے کی تلقین کی گئی ہے لیکن ایک ارب ستر کروڑ سے زائد مسلم اُمّہ زمینی خداؤں کے حضور سجدہ ریز۔

عالمِ اسلام کے سربراہان کو شاید ادراک ہی نہیں کہ جیسے اکھنڈ بھارت کا خواب دیکھنے والا نریندر مودی کشمیر پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑ رہا ہے اُسی طرح صیہونی نیتن یاہو گریٹر اسرائیل کے خواب سجائے بیٹھا ہے اور اُس کا ٹارگٹ مشرقِ وسطیٰ کے اسلامی ممالک۔ لیکن مسلم اُمّہ اُس سلامتی کونسل سے آس لگائے بیٹھی ہے جس کے چار اجلاس بے نتیجہ ختم ہو چکے۔ سلامتی کونسل کی آئندہ بھی کسی نتیجے تک پہنچنے کی توقع عبث کہ سلامتی کونسل تو امریکہ کے دَر کی باندی، گھر کی لونڈی ہے اور امریکہ اسرائیل کی پُشت پر۔ فلسطین کا مسلہ جنیوا میں حل ہوگا نہ یورپ وامریکہ میں کہ یہی تو عالمِ اسلام کے خلاف سازشوں کے گڑھ ہیں جبکہ سربراہانِ اہلِ اسلام کا یہ عالم کہ

میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اُسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں

اگر پوری اُمتِ مسلمہ ڈَٹ کر کھڑی ہو جاتی اور اُس میں جذبۂ شوقِ شہادت موجزن ہوتا تو اب تک نہ صرف مسجدِ اقصیٰ بازیاب ہو چکی ہوتی بلکہ کشمیر کی بیٹی کے سر سے ردا چھیننے والے بھی نشانِ عبرت بن چکے ہوتے۔

Prof Mazhar

Prof Mazhar

تحریر : پروفیسر مظہر