آج تاریخ دیکھ رہی ہے کہ غزہ کس طرح بے یار و مددگار ہے۔ ایسی بربریت، ایسی درندگی پر اسلامی ملکوں سمیت دنیا بھر کی بے حسی اور خاموشی شاید ہی پہلے کبھی کسی نے دیکھی ہوگی۔ اسرائیل اور اس کے بمبار طیاروں نے فلسطین اور خاص کر غزہ کے آسمان میں ایسے گرج رہے ہیں جیسے ان کے سروں پر آسمان نہ ہو۔ اسرائیلی ٹینک غزہ کی سر زمین کو ایسے روند رہے ہیں جیسے یہ ٹینک نہ ہوں بلکہ ٹریکٹر ہوں جو زر خیز کھیتوں میں بیج بورہے ہوں۔ اسرائیلی ٹینک سرزمین فلسطین پر ایسے ہی بمباری کر رہے ہیں جیسے بیج بونے سے پہلے حل چلایا جاتا ہے۔ بڑوں سمیت معصوم بچوں کو اس طرح ہلاک کیا جا رہا ہے جیسے کھیتوں میں کیڑوں کو مارنے کے لئے ادویات کا استعمال کیا جاتا ہے۔ طاقت کا یہ وحشیانہ مظاہرہ کرکے اسرائیل دنیا پر اپنی فوجی برتری، طاقت اور ہیبت کی دھاک بٹھانے کی کوشش کر رہا ہے ، اور اگر واقعی اس کی یہی کوشش ہے تو اس کی یہ سعی بے معنی اور بے وقعت ہی ہوگی۔
اسرائیل کی درندگی و سفاکی اور خون آشامی کا یہ لامتناعی سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ دنیا بھر کے ستر سے زائد ممالک میں بلا تفریق مذہب احتجاج ہو رہا ہے لیکن ہٹ دھرم اسرائیل نے غزہ پر آتش و آہن کی برسات کو بلا توقف جاری رکھا ہوا ہے۔ تاحال ایک ہزار بیچارے فلسطینی شہید اور ہزاروں کی تعداد میں زخمی ہسپتالوںمیں پڑے ہیں۔ صہیونی درندہ صفت افواج کی جانب سے ڈنکے کی چوٹ پر مسلمانوں کا قتلِ عام کیا جا رہا ہے جو اس بات کا پتہ دیتا ہے کہ موجودہ نام نہاد مہذب دنیا میں انسانیت دم توڑ چکی ہے اور بین الاقوامی نظام انصاف میں مسلمانوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ دنیا بھر کے عام مسلمان غزہ کے بھائیوں کے لئے کیا کر سکتے ہیں۔ پُر امن احتجاج کے علاوہ ہمیں اسرائیلی و امریکی مصنوعات کا بائیکاٹ کرکے اسلامی اخوّت کا کچھ نہ کچھ حق تو ضرور ادا کرنا چاہیئے۔
اسرائیل نے اقوامِ متحدہ کی جنگ بندی کی اپیل کو بھی مسترد کر دیا ہے۔ غزہ کی صورتحال پر حال ہی میں سلامتی کونسل کا ایک قرار داد کے مسودے پر بند کمرے میں اجلاس ہوا۔ اس میں سلامتی کونسل نے غزہ میں ہلاکتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد پر شدید خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیل فوری طور پر حملے روک دے۔ اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے مطابق ایسے ارکان جو مستقل اس کے منشور کی خلاف ورزی کر رہے ہیں انہیں اقوام متحدہ سے خارج کر دیا جائے تاکہ یہ ظلم اور بربریت کا سیلاب روکا جا سکے۔ اور اسرائیل تو ایسا ملک ہے جو چھیاسٹھ سالوں سے مسلسل اس کی کھلم کھلا خلاف ورزیاں کرتا چلا آرہا ہے اس کے خلاف تاحال کوئی کاروائی نہیں ہوئی۔ اسرائیل نے حسبِ عادت مسلمہ اصولوں کو پامال کرتے بین الاقوامی قوانین اور تمام اخلاقی اقدار کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے غزہ پر درندگی اور وحشت کی انتہا کر رکھی ہے۔ اس کی حالیہ کاروائیوں کے دوران ہزاروں فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ اسرائیل کا ایک بڑا جرم یہ بھی ہے کہ وہ ممنوعہ اسلحے کا بے دریغ استعمال کر رہا ہے۔بین الاقوامی قوانین کے مطابق کوئی بھی ملک جوہری اور فاسفورس بم استعمال نہیں کر سکتا مگر اس جنگ کے دوران صہیونیوں نے ایسا بارود استعمال کیا کہ بچے موم کی طرح پگھل گئے۔ جس کے شواہد ڈاکٹروں کی رپورٹس ہیںجو سوشل میڈیا پر وقتاً فوقتاً دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اسرائیل اپنی بالا دستی منوانے کے لئے اس قدر سفاک بن گیا ہے جس کی وجہ سے اس کے پڑوسی ممالک میں سے کسی کے ساتھ بھی خوشگوار تعلقات نہیں ہیں۔ اسے اسی وجہ سے عالمی تنہائی کا سامنا ہے۔ اسرائیل کی فطرت اس بچھو جیسی ہے جو دوست دشمن کی پروا کیئے بغیر ہر وقت ڈنک مارتا رہتا ہے۔
Gaza Attack
قطری وزارتِ خارجہ نے بھی غزہ کی پٹی پر اسرائیل کی اندھا دھند بمباریوں کی ایک بار پھر سخت ترین مذمت کی ہے۔ اب اسرائیل کی جانب سے یہ بمباریاں اسپتالوں، اسکولوں، امدادی ایجنسیوں کے مراکز ، پُر امن انسانوں کے گھروں اور پناہ لینے والوں پر بھی ہونے لگی ہیں۔ قطر کا ایک بیان یہ بھی ہے کہ وہ اپنا عرب و اسلامی رول ادا کرتا رہے گا اور غزہ کے فلسطینی بھائیوں کی ہر ممکن مدد کرتا رہے گا جنہیں نسل کشی اور بھیانک ہولوکاسٹ کا سامنا ہے۔ اس جنگ کے جرائم سابقہ سار ے جرائم سے آگے بڑھ گئے ہیں۔ یہاں تک کہ عبرانی ملک کے بعض قریبی دوستوں نے بھی اب اس سے اپنی اخلاقی و سیاسی سرپرستی واپس لے لینے کا اعلان کیا ہے۔ اب دیکھیں کہ بات کہاں پر جاکر رُکتی ہے۔آپ جانتے ہیں کہ اقوام متحدہ کے قانون کے مطابق اسرائیل مزید بستیاں تعمیر نہیں کر سکتا۔ متعدد بار تعمیر روکنے کا حکم بھی دیا جا چکا ہے لیکن یہ ایک ناقابلِ تردید تاریخی حقیقت ہے کہ یہودیوں نے فلسطین کے علاقوں پر غیر قانونی طور پر قبضہ کر رکھا ہے۔ یہودی قیادت کو شروع میں ایسا کرنے سے روکنے کی کوئی عملی کوشش نہیں کی گئی جس کی وجہ سے اسرائیل کے حوصلے بلند ہوتے چلے گئے اور وہ فلسطین کے مزید علاقوں پر قابض ہوتا گیا۔ آج صورتحال یہ ہے کہ اسرائیل فلسطین کے ایک بڑے علاقے پر قابض ہو چکا ہے اور اس کی ناجائز توسیع کا سلسلہ بھی تیزرفتاری سے جاری ہے۔ قیامِ امن کے بین الاقوامی منصوبے کے تحت اسرائیل نے یہودی بستیوں پر کام روکنے کا پکا وعدہ کیا تھا۔ مشرقی یروشلم، مغربی کنارہ، غزہ، گولان کی پہاڑیاں یہ سب مقبوضہ علاقہ جات ہیں اور اسرائیل کا حصہ نہیں ۔ انٹر نیٹ پر سوشل سائٹ کے ذریعہ فلسطینی مظلومین کی جو دل دہلا دینے والی تصویریں نظروں سے گزر رہی ہیں انہیں دیکھ کر ظالم اسرائیلیوں کی خلاف اپنے آپ نفرت قائم ہو رہی ہے۔ یہ بات تو صاف ہے کہ اس طرح کی جتنی ایجنسیاں ہیں وہ سب مسلم مخالف ہیں لیکن سب سے زیادہ حیرت اس بات سے ہو رہی ہے کہ عرب ممالک ایک مجرمانہ خاموشی اختیار کیئے ہوئے ہیں۔
یقین نہیں آتا کہ یہ وہی عرب ہیں جو اپنی عزت و ناموس کی خاطر چالیس چالیس برسوں تک جنگیں لڑا کرتے تھے، جن کی بہادری کی داستانیں آج بھی تاریخ میںموجود ہیں مگر آج ان کی غیرتِ حِس کو ذرا بھی جنبش نہیں ہو رہی ہے۔ کاش کہ یہ ممالک اس چیز کو سمجھتے اور اپنی مجرمانہ خاموشی کو توڑ کرغزہ کے مسلمانوں کے لئے متحد ہوتے اور سر زمین فلسطین کو آزاد کرانے میں ان کی مدد کرتے۔
آج غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ دنیا دیکھ رہی ہے مگر آواز کوئی نہیں اٹھا رہا ہے۔ معصوم بچوںکے لاشے غزہ کے چاروں طرف بکھرے پڑے ہیں۔ کسی کاسر نہیں تو کسی کا دھڑ نہیں ، کسی کی ٹانگیں غائب۔ مائوں کی آنکھیں پتھر کی ہو گئی ہیں۔ باپ ان لاشوں سے لپٹ لپٹ کر رو رہے ہیں۔ یہ غزہ میں کیا ہو رہا ہے۔ یہ قیامت کون ڈھا رہا ہے۔ ان معصوم اور نہتے لوگوںکا دشمن کون ہے۔ کیا اسرائیل ان لوگوںکا دشمن ہے یا پھر وہ عرب ممالک جو بڑے سکون سے یہ سب کچھ ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ یا پھر مسلم قوت کہ جن کے لب سِلے ہوئے ہیں، سوشل میڈیا بھی اس تباہی کی تصویر کشی کر رہا ہے۔
سب لوگ دعا کر رہے ہیںکہ ہم لوگ دعائوں کے علاوہ کچھ کر بھی تو نہیں سکتے۔ ہم تو بس اتنا کر سکتے ہیں کہ اسرائیل فلسطینی عوام کی ناکہ بندی فوری ختم کرے، سارے عرب و اسلامی دنیا کا موقف بھی یہی ہونا چاہیئے، مگر افسوس کہ بہت سے عرب بھی اس پر خاموش ہیں اور مصر جیسے تو اسرائیل کی تائید اور اسلام پسند حماس کی مخالفت کر رہے ہیں۔ بعض خلیجی ملکوں کا یہ موقف بڑا ہی شرمناک ہے۔ وقتِ مقررہ پر ان کی باز پُرس ضرور ہوگی۔ اپیل یہ ہے کہ عالمی برادری فوری طور پر اسرائیل کی اس خون خرابہ کو روکنے میں اپنا کردار ادا کریں تاکہ مظلوم فلسطینیوں کی داد رسی ہو سکے۔