غزہ: اسرائیلی بمبار ی سے جاں بحق فلسطینیوں کی تعداد 687 ہو گئی

Gaza

Gaza

غزہ (جیوڈیسک) غزہ پر اسرائیلی جارحیت کا سلسلہ جاری ہے اور اب تک جاں بحق فلسطینیوں کی تعداد 687 ہوگئی۔ دوسری جانب جوابی کارروائیوں میں 32 اسرائیلی فوجی بھی مارے جاچکے ہیں۔ اسرائیل نے غزہ میں انسانی حقوق کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دی ہیں۔ اسرائیل کی سفاکانہ کارروائیوں سے معصوم بچے، نہتے لوگ ، اسپتال ، مساجد اور پناہ گزین کیمپ کوئی جگہ بھی محفوظ نہیں رہی۔ گنجان آباد علاقے زیتون کی ایک مسجد پر حملے کے نتیجے میں دو فلسطینی جاں بحق ہوئے اور تیس سے زائد زخمی ہوئے۔

غزہ کے علاقے خان یونس میں ایک کار پر فضائی حملے کے نتیجے میں دو فلسطینی شہید ہوئے جبکہ بیت لاحیا میں ایک اور کارروائی کے دوران مزید تین فلسطینی شہید ہوئے۔ مشرقی غزہ میں واقع وفا اسپتال کو اسرائیلی وارننگ کے بعد خالی کرالیا گیا ہے۔ اسرائیل کا الزام تھا کہ اسپتال کو حماس پناہ گاہ کے طور پر استعمال کررہی ہے۔ 8 جولائی سے جاری اسرائیلی جارحیت، جیٹ طیاروں کی بمباری اور زمینی کارروائیوں کے نتیجے میں ایک لاکھ سے زائد لوگ در بدر ہو کر پناہ گزین کیمپوں میں قیام پر مجبور ہیں۔ فلسطینی سرکاری حکام کے مطابق اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں 475 مکانات مکمل طور پر تباہ ہوچکے ہیں جبکہ 2600 سے زائد مکانات کو جزوی نقصان پہنچا ہے۔

اس کے علاوہ 46 اسکولوں، 56 مساجد اور سات اسپتالوں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ کی سرحد پر ڈرون طیاروں کا استعمال بھی کیا جارہا ہے۔ حماس کی جانب سے جوابی کارروائی میں اب تک 35 اسرائیلی مارے جاچکے ہیں جن میں تین اسرائیلی شہری بھی شامل ہیں۔ اسرائیلی شہر یروشلم میں اسرائیلی فوجیوں کے لیے دیوار گریہ پر ہزاروں اسرائیلیوں نے دعا کی۔ ادھر فرانس کے دارالحکومت پیرس میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف ہزاروں افراد نے مظاہرہ کیا، مظاہرین نے پلے کارڈز بھی اٹھا رکھے تھے جن پر اسرائیل کے خلاف نعرے درج تھے اور فلسطین پر جارحیت روکنے کا مطالبہ کررہے تھے۔

سفارتی کوششیں ناکام ہوتی دکھائی دیتی ہیںکیونکہ حما س نے غزہ کا محاصرہ ختم کئےبغیر جنگ بندی سے انکار کر دیا ہےتاہم کہا ہے کہ بات چیت مثبت سمت میں آگے بڑھ رہی ہے۔ادھراسرائیل کے لیے امریکا اور یورپ سمیت کئی ملکوں میں فلائٹ آپریشن دوسرے دن بھی بند ہیں۔ جینوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے ہنگامی اجلاس میں اسرائیلی مظالم کے خلاف مذمتی قراداد منظور کر لی گئی جس کے بعد کونسل کی جانب سے اسرائیل پر جنگی جرائم کا مرتکب ہونے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کی تحقیقات کا حکم دیا گیا ہے۔ تحقیقاتی ٹیم مارچ تک اپنی رپورٹ مرتب کر کے کونسل کو دے گی۔ انسانی حقوق کونسل کے 47 ممالک میں سے 29 نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا جبکہ امریکا نے اسکی مخالفت کی۔ امریکی سفیر کیتھ ہارپر نے قرارداد کو غیر متوازن قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس میں حماس کا ذکر نہیں ہے۔

برطانیہ، جاپان، فرانس اور جرمنی سمیت 17 ممالک نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ حماس کے رہنما خالد مشعال نے کہا ہے کہ پوری دنیا ہم سے فائر بندی کرنے کے بعد مذاکرات کی بات کرتی ہے مگر ہم اسے مسترد کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر اسرائیل غزہ کا محاصرہ ختم کردے تو حماس انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کے لیے تیار ہے۔ خالد مشعال نے اسرائیل کے لیے بین الاقوامی پروازوں پر پابندی کو حماس کی بڑی کامیابی قرار دیا۔ منگل کو تل ابیب کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کے قریب حماس کے راکٹ حملے کے بعد ترکی، امریکا، برطانیہ،یورپ ،کینیڈا، آسٹریلیا سمیت دنیا کی اہم فضائی کمپنیوں نے اسرائیل کے لیے اپنا فلائٹ آپریشن تا حال بند کر رکھا ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی شہریوں کی حفاظت کو مد نظر رکھتے ہوئے پروازیں روکی گئی ہیں۔ حماس کے پاس ایسے راکٹ موجود ہیں جو Ben Gurionہوائی اڈے تک پہنچ رکھتے ہیں۔ ترجمان محکمہ خارجہ ماریہ ہارف کا کہنا تھا کہ امریکی فیڈرل ایویشن اتھارٹی کی جانب سے پابندی کے باوجود وزیر خارجہ جان کیری اسرائیل پہنچے ہیں اور وہ مطمئن ہیں۔جان کیری نے غزہ میں جنگ بندی کے لیے رملہ میں فلسطینی صدر محمود عباس سے ملاقات کی۔ اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ جنگ بندی کے لیے کچھ پیشرفت ہوئی ہے۔

اس کےبعد جان کیری تل ابیب میں اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو سے ملے تاہم 2 گھنٹے طویل اس ملاقات کے بعد امریکی وزیر خارجہ کی جانب سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا اور وہ قاہرہ کے لیے روانہ ہوگئے اورنیتن یا ہو اپنی سیکیورٹی کابینہ کی میٹنگ کے لیے چل دئیے۔ اس سے قبل جان کیری نے یروشلم میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون سے بھی ملاقات کی جہاں انکا کہنا تھا کہ فائر بندی کے لیے ابھی مزید اقدامات باقی ہیں اور ہم مل کر اس کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔ بان کی مون نے اسرائیلی جارحیت روکنے میں ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے عالمی برداری کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا اور کہا کہ فلسطین کے مسائل کا حل ضروری ہے۔

دوسری جانب ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے فلسطینیوں پر زور دیا ہے کہ وہ اسرائیلی مظالم کے خلاف ڈٹے رہیں اور مسلح کوشیں جاری رکھتے ہوئے اس کا دائرہ مغربی کنارے تک بڑھائیں۔ اسرائیلی وحشیانہ حکومت سے نمٹنے کا یہی ایک طریقہ ہے۔ ترک وزیر اعظم طیب اردوان نے امریکی ٹی وی کو انٹریو میں کہا ہے کہ اسرائیل ایک دہشت گرد ریاست ہے جو دہشت گردی کی نئی لہر کو ہوا دے رہا ہے۔ طیب اردوان نے ترکی اور قطر پر حماس کی امداد کے الزام کو مسترد کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ترکی نے صرف انسانی بنیادوں پر غزہ کے معصوم لوگوں کی مدد کی ہے۔