غزہ (اصل میڈیا ڈیسک) نیوز ایجنسی ایسو سی ایٹیڈ پریس کی ایک اعلیٰ مدیر نے غزہ کی ایک رہائشی عمارت پر اسرائیلی حملے اور اس کے نتیجے میں عمارت کی مکمل تباہی کی غیر جانبدار ذرائع سے تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
غزہ سٹی میں جاری جنگ کے بارے میں بیرون ملک پہنچنے والی اطلاعات پر الجزیرہ اور دیگر میڈیا چینلز یا نشریاتی اداروں کی طرف سے عدم اطمینان کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ ان میڈیا اداروں کا کہنا ہے کہ ‘عالمی برادری حقائق جاننے کی مستحق ہے۔‘
اُدھر میڈیا واچ ڈاگ رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز نے علیحدہ سے بین الاقوامی فوجداری عدالت سے اسرائیل کی طرف سے غزہ سٹی کی رہائشی عمارت پر بمباری کے واقعے کے ممکنہ جنگی جرائم کے طور پر آزاد تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کی ایگزیکٹیو ایڈیٹیر سیلی بزبی نے اتوار کو ایک بیان میں کہا کہ اسرائیل کو اپنے حملے کا جواز پیش کرنے کے لیے واضح ثبوت فراہم کرنا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ غزہ سٹی میں ‘ الجلال ٹاورز‘ پراسرائیلی حملے میں پوری عمارت مکمل طور پر زمین بوس ہو گئی ہے۔
اسرائیلی فوج، جس نے ایسوسی ایٹڈ پریس کی صحافی اور دیگر کرائے داروں کو اس عمارت پر حملے سے پہلے ایک گھنٹے کی مہلت دی تھی کہ وہ وہاں سے نکل جائیں، نے دعویٰ کیا ہے کہ اس عمارت کو حماس فوجی انٹیلیجنس آفس اور ہتھیار سازی کے لیے استعمال کر رہا تھا۔ اسرائیلی فوج کے ترجمان کرنل جوناتھن کونریکس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ تل ابیب حکومت امریکا کو پیش کرنے کے لیے اپنے مذکورہ دعووں کے حوالے سے ثبوت اکٹھے کر رہی ہے تاہم انہوں نے آئندہ دو روز کے اندر ثبوت فراہم کرنے کے عزم سے انکار کر دیا۔ اسرائیلی کرنل جوناتھن کونریکس نے اتوار کو ایک بیان میں کہا تھا،” ہم لڑائی کے عین درمیان میں ہیں۔‘‘ غزہ کی رہائشی عمارت پر حملہ کر کے اُسے تباہ کر دینے کے اسباب سے متعلق ثبوت کے بارے میں انہوں نے مزید کہا،” یہ عمل جاری ہے اور مجھے یقین ہے کہ ہم مقررہ وقت پر معلومات منظر عام پر لے آئیں گے۔‘‘
اُدھر اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے کہا کہ اسرائیلی حملے کا ہدف بننے والی عمارت میں حماس کی موجودگی کا ثبوت تل ابیب حکومت انٹیلیجنس ایجنسیوں کے ذریعے شیئر کرے گی تاہم نہ تو وائٹ ہاؤس اور نہ ہی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ اس بارے میں کچھ کہے گا کہ کسی امریکی اہلکار نے یہ ثبوت دیکھے ہیں یا نہیں۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کی سینیئر مدیر سیلی بزبی کا کہنا ہے کہ غزہ سٹی میں ‘ الجلال ٹاورز‘ میں گزشتہ 15 برسوں سے ان کے دفاتر موجود تھے اور انہیں کبھی کوئی ایسا اشارہ نہیں ملا کہ اس عمارت میں حماس کا کوئی وجود موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ حقائق کو بیان کرنا ہوگا۔ بزبی کے بقول،”ہم تنازعے کی صورتحال سے دو چار ہیں۔ ہم کسی بھی تنازعے میں فریق نہیں بنتے کسی ایک کا ساتھ نہیں دیتے۔ ہم نے اسرائیلیوں کو یہ کہتے سنا ہے ہے کہ ان کے پاس ثبوت موجود ہے۔ مجھے نہیں پتا کہ وہ ثبوت کیا ہیں۔‘‘ خبر رساں ایجنسی اے پی کی صحافی نے مزید کہا،”میرے خیال سے اس مقام پر یہ امر ضروری ہو گیا ہے کہ کل وہاں جو کچھ ہوا اُس کی آزاد تحقیقات کرائی جائیں۔‘‘
اتوار کو اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے اپنے ریمارکس میں اپنے اس دعوے کو دھرایا کہ حملے میں تباہ ہونے والی عمارت میں حماس کا انٹیلیجنس دفتر موجود تھا۔ اس سوال کے جواب میں کہ کیا امریکی صدر جو بائیڈن کے ساتھ ہفتے کے روز ٹیلی فون پر ہونے والی بات چیت میں انہوں نے معاون ثبوت کا حوالہ دیا تھا؟ نیتن یاہو نے کہا،” ہم اپنے انٹیلیجنس اہلکاروں کے ذریعے ان شواہد کو آگے پھیلائیں گے۔‘‘
پیرس میں قائم تنظیم رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز جس کا مخفف فرانسیسی زبان میں RSF ہے، اس نے عدالت کے چیف پراسیکیوٹر کے نام ایک خط میں تحریر کیا ہے کہ گزشتہ چھ روز کے دوران غزہ میں 23 بین الاقوامی اور مقامی میڈیا آرگنائزیشنز اور صحافی ہدف بنائے جا چکے ہیں۔ RSF نے کہا کہ اُس کے پاس ٹھوس وجوہات موجود ہیں اس بات کا یقین کرنے کے لیے کہ،” اسرائیلی فوج اور انٹیلیجنس نے میڈیا تنظیموں کو دانستہ نشانہ بنایا اور ان کے آلات اور سامان کو تباہ کر دیا۔ یہ عمل عدالتی آئین کی کسی نا کسی شق کی خلاف ورزی ضرور ہے۔‘‘ اس بیان میں مزید کہا گیا کہ ان حملوں کا مقصد میڈیا کی عوام تک اطلاعات کی رسائی کی صلاحیتوں کو اگر مکمل طور پر ختم نہیں تو کم از کم ممکنہ حد تک کم کرنا ضرور ہے۔
RSF نے ولندیزی شہردی ہیگ میں قائم فوجداری عدالت سے کہا ہے کہ مارچ میں اسرائیل کی طرف سے فلسطینی علاقوں میں کی جانے والی کارروائیوں کی جنگی جرائم کی تحقیقات میں حالیہ حملوں کو بھی شامل کرے۔ دریں اثناء ایسوسی ایٹڈ پریس کی سینیئر مدیر سیلی بزبی نے کہا کہ اسرائیلی فضائی حملے نے اے پی کے صحافیوں کو دھلا کر رکھ دیا تاہم انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا ہے۔
اُدھر اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے مطابق امریکی وزیر خارجہ اینٹوٹی بلنکن نے گزشتہ ہفتے کے روز خبر رساں ایجنسی اے پی کے صدر اور سی ای او سے فون پر بات چیت کی اور انہوں نے صحافیوں کو اپنی مکمل حمایت کا یقین دلایا اور آزاد صحافیوں کو پیغام دیا کہ تنازعات کے شکار علاقوں میں دنیا بھر کی میڈیا تنظیمیں ان کی رپورٹننگ کو ناگزیر سمجھتے ہوئے ان کے ساتھ اپنی مکمل حمایت کا اظہار کرتے ہیں۔
ایسوسی ایٹیڈ پریس کی سینیئر مدیر سیلی بزبی نے تمام بیانات سی این این کے ‘معتبر ذرائع‘ کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے دیے جبکہ نیتن یاہو نے نشریاتی ادارے سی بی ایس کے پروگرام ‘فیس دا نیشن‘ میں گفتگو کی۔