غزہ (اصل میڈیا ڈیسک) 248 ہلاکتیں جن میں 66 بچے بھی شامل تھے۔ حماس اور اسرائیل کی حالیہ جنگ میں ہلاکتوں کی اتنی زیادہ تعداد ایک سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔ اس علاقے کی آبادی صدمے میں ہے۔
غزہ شہر کی مرکزی سڑک جہاں کبھی اپارٹمنٹس، رہائشی مکانات اور دکانیں تھیں وہاں آج ملبے کے ڈھیر کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ کنکریٹ، سریے، لکڑی کے تختے، پھٹے ہوئے کپڑے اور کتابوں کے بکھرے ہوئے اوراق، غزہ سٹی کے قلب میں کبھی انسان آباد تھے، اس کا خاموش ثبوت بربادی کی یہ علامات دے رہی ہیں۔
عادل الکولک ایک سوگوار خیمے میں بیٹھا ہے۔ بالکل اُس جگہ پر جہاں کبھی وہ گھر آباد تھا جس میں اس کے خانوادے کا ایک بڑا حصہ رہتا تھا۔ اسرائیلی حملے میں اس کے خاندان کے 21 افراد ہلاک ہوگئے۔
عادل الکولک ملبے کی طرف نظریں جمائے ہوئے کہتا ہے، ”میں اپنے احساسات کو الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔ میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ یہ ہوا کیا۔ میں اب بھی صدمے میں ہوں۔ چند لمحوں کے اندر پورا گھر تباہ ہوا گیا۔ عمارت منہدم ہوگئی اور سب کچھ ملبے تلے دب گیا۔‘‘
عادل کے کانوں میں اب بھی اپنے رشتے داروں کی چیخ و پکار سنائی دے رہی ہے۔ جن میں بچے بھی شامل ہیں۔ کنکریٹ کے ملبے تلے دبے چھوٹے چھوٹے بچوں کی مدد کی پکار کی صدائیں اس کا پیچھا نہیں چھوڑتیں۔ ”چھ ماہ کے بچے نے کیا کیا تھا، کیا اُس نے اسرائیل پر راکٹ برسائے تھے؟‘‘ عادل کا سوال۔
الوحدہ اسٹریٹ پر ایک اور کئی منزلہ عمارت، جس میں کسی خاندان آباد تھے، اُس رات ایک فضائی حملے میں مکمل طور پر تباہ ہوئی۔ یہاں رہنے والا نوجوان انس اپنی منگیتر شمع ابو العوف کو کھو چُکا ہے۔ وہ بتاتا ہے، ”اُس دن ہم نے کئی مرتبہ فون پر بات کی تھی، شام میں بھی ایک بار ہماری بات ہورہی تھی کہ اچانک بہت شدید شور سنائی دیا اور لائن منقطع ہو گئی۔ میں نے اُسے پیغام بھیجا جو اُسے نہ مل سکا۔‘‘
یہ تو فوری طور پر واضح ہو گیا تھا کہ الوحدہ اسٹریٹ کے متعدد مکانات تباہ ہو گئے تھے۔ امدادی کارکنوں نے ملبے تلے زندہ انسانوں کی تلاش کا کام دس گھنٹے جاری رکھا۔ آخر کار انس کو پتا چلا کہ اُس کی منگیتر اب زندہ نہیں بلکہ اُس کی لاش اُسے فرانزک میڈیسن سے ملی۔ انس کہتا ہے، ”اُس کے چہرے پر ایک مسکراہٹ تھی اور میرے دل پر جیسے کوئی چھری گہری سے گہری ضرب لگائے جا رہی ہے، لیکن اب وہ ایک بہت بہتر جگہ میں ہے۔‘‘
انس کی منگیتر شمع کے متعدد اہل خانہ افراد کی موت ہو چُکی ہے۔ ان میں اُس کے والد ایمن ابو العوف بھی شامل ہیں جو غزہ سٹی کے شفا ہسپتال کے ڈاکٹر تھے اور اس ہسپتال کے کووڈ انیس ٹاسک فورس کے ذمہ دار بھی تھے۔ ان کے ایک رفیق ڈاکٹر خدورا کا کہنا ہے کہ اب بھی ہر کوئی ڈاکٹر ایمن ابو العوف کی موت کے صدمے میں ہے۔
گیارہ روزہ جنگ کے دوران بڑی تعداد میں شہریوں کی ہلاکت نے بہت سے سوالات پیدا کر دیے ہیں۔ جبکہ حماس کی طرف اسرائیلی شہروں پر چار ہزار سے زیادہ راکٹ فائر کیے گئے۔ جس کے نتیجے میں ایک اسرائیلی فوجی اور ایک بچے سمیت 12 افراد ہلاک ہوئے۔ غزہ میں کچھ خاندان اپنے پیاروں کی اموات کا سوگ منا رہے ہیں جبکہ دیگر افراد گزشتہ ہفتوں میں جن تجربات سے انہیں گزرنا پڑا اُس کی اذیتوں اور ذہنی الجھنوں کے ازالے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس وقت غزہ کے علاقے میں ہر طرف اسرائیلی فضائی حملے اور گولہ باری کی گرج لوگوں کی گفتگو کا مرکزی موضوع ہے۔ غزہ پٹی کے زیادہ تر رہائشیوں کا یہ ماننا ہے کہ گزشتہ چند روز ان کے لیے 2014 ء کی طریل جنگ سے بھی زیادہ دشوار تھے۔
ماہرین نفسیات کا کہنا ہے فلسطینی باشندوں کے اذہان پر بہت منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ غزہ پٹی کی طرف آنے والے تمام مال بردار نقل و حمل کے ذرائع کو اپنے کنٹرول میں اس لیے رکھتا ہے کہ وہ اس علاقے میں ایسے مواد کو آنے سے روک سکے جو سرنگوں اور دیگر فوجی انفرا اسٹرکچر کی تعمیر میں استعمال ہو سکے۔ 2014 ء کی جنگ کے بعد غزہ کے علاقے کی تعمیر نو کے لیے ایک خاص طریقہ کار تشکیل دیا گیا جس کے تحت اس نظام میں حماس کی شمولیت کے کوئی امکانات نہیں بچے۔ یعنی اس عمل میں حماس کے ساتھ کوئی براہ راست رابطہ ملحوظ نہیں رکھا گیا۔ یاد رہے کہ حماس کو زیادہ تر مغربی ممالک نے ‘دہشت گرد تنظیم‘ قرار دے رکھا ہے۔
غزہ میں سرگرم ‘ ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ تنظیم کے نائب معاون کار ڈاکٹر محمد ابو مغیزیب کا کہنا ہے کہ غزہ پٹی کی تعمیر نو ‘ بہت بڑے پیمانے‘ پر کرنا ہو گی۔ وہاں صحت کا نظام پوری طرح سے ختم ہو چکا ہے تاہم انہوں نے ایک اور اہم نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ”اگلے چند سالوں کے دوران جنگ سے متاثرہ دو ملین انسانوں کو گوناگوں نفسیاتی مسائل کا سامنا ہوگا۔‘‘ ڈاکٹر محمد ابو مغیزیب کے بقول،”بمباری اتنی شدید تھی کہ یہ گیارہ دن، گیارہ سال کی طرح محسوس ہوئے۔‘‘