شرفاء خاک مزے کرتے ہیں نباہوں کے بغیر کام چلتا نہیں ان کا مری آنہوں کے بغیر کون ہے دہر میں جس نے یہ کیا ہو دعویٰ زندگی کس نے گزاری ہے گناہوں کے بغیر ایک پہلو سے بجا ہے یہ نظام ظلمت ہم بھی رہتے کہاں اوقات میں شاہوں کے بغیر ہائے مجبوری ء منصف کہ سمجھتا سب ہے جرم کر جرم نہ کہ پائے گواہوں کے بغیر ایسے احسان سے بہتر تھا کہ مر ہی جاتا کاش لیتا نہ سہارا تری چاہوں کے بغیر دشت وحشت کو نکلتی ہیں کچی سڑکیں کون جائے گا وہاں وصل کی راہوں کے بغیر بے خودی کے لئے ہے شرط نظر میں رہناجمال کچھ مزا مئے میں نہیں تری نگاہوں کے بغیر