پاکستان کا قیام ایک زندہ معجزہ ہے جبکہ اس کے دفاع اور استحکام کیلئے بھی ماضی میں کئی معجزے ہوتے رہے ہیں اورا ن شا ء اللہ آئندہ بھی ہوں گے۔افغانستان میں پاکستان کے ہاتھوں روس کی رسوائی اور پسپائی بھی معجزہ تھی ۔اپنے دور کی دوسری سپرپاور روس کو پاکستان نے افغانستان میں نہ صرف محدو دبلکہ یوٹرن پرمجبور کردیا تھااوراس کہانی کے خاموش ہیروکانام جنرل اخترعبدالرحمن خان شہید ہے ۔ قدرت نے قیام پاکستان کا اہم ترین کام قائداعظم سے لیا تھا جبکہ افغانستان اورپاکستان کی بقاء کیلئے قدرت نے جنرل اخترعبدالرحمن خان کاانتخاب کیا ۔ شیردبے پائوں خاموشی سے اپنے شکار کے پاس پہنچتا اوراچانک اس پرجھپٹتاہے اوراگرشکاربھاگ نکلے توتعاقب کرکے اسے دبوچ کرمارگراتا ہے۔جولوگ میدان جنگ میں خاموشی سے اپنا کرداراداکرتے ہیں ان کی شجاعت کے واقعات تاریخ کاجلی عنوان بن جاتے ہیں ۔جوخاموشی سے اپناکام انجام دیتے ہیں ،تاریخ میں اس شخصیت کی گرانقدر خدمات کا شانداراندازمیںتذکرہ کرنامورخ پرقرض اور اس کافرض ہوتاہے۔ کامیاب افرادڈینگیں نہیں مارتے کیونکہ ان کاکام بولتا ہے،جنرل اخترعبدالرحمن خان کا شجاعت سے شہادت تک سفرہماری تاریخ کاایک روشن باب ہے،وہ جام شہادت نوش کرکے بہشت میں چلے گئے مگر اہل قلم آج بھی ان کی کامیابی کے واقعات کو سپردقرطاس کررہے ہیں ۔آپ نے کئی بار ایسادیکھاہوگا کہ ٹیم کسی بھی کھلاڑی کی بہترین کارکردگی کے بل پر کامیاب ہومگرٹرافی ہربارکپتان وصول کرتا ہے۔اس طرح روس کی افغانستان سے پسپائی اوردنیا میں رسوائی کیلئے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل اخترعبدالرحمن خان نے کلیدی کرداراداکیا مگرٹرافی اسلام کی آڑمیں سیاسی انتقام کابازارگرم کرنیوالے فوجی ڈکٹیٹر نے اپنے ہاتھوں میں تھام لی تھی ۔ جنرل اخترعبدالرحمن خان حکومت اورشہرت سے بہت دورتھے۔ان کافوکس پڑوسی ملک افغانستان کے اندر میدان جنگ پرتھا،انہوں نے خاموشی مگرگرمجوشی سے جنگ کی بازی پلٹ دی اور اس خاموش مجاہد کی شجاعت کی شہادت تاریخ نے دی ہے۔ جنرل اخترعبدالرحمن خان کی شجاعت اورشہادت پرمتعدد کتابیں لکھی گئی ہیں اورلکھی جاتی رہیں گی۔
آج تک کسی کوکامیابی پلیٹ میں رکھ کرنہیں ملی ،ہمارے ہاں جو شخصیات زیادہ کامران ہیں انہیں دوسروں سے زیادہ امتحان دینا پڑے ۔زندگی میں ایک بار”میدان” سب کوملتا ہے مگر ہرکوئی” مردمیدان” نہیں ہوتا اور کامیابی وسرفرازی ہرکسی کونصیب نہیں ہوتی ۔ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کوایٹمی طاقت بنانے کاکام محسن پاکستان اورمحبوب پاکستان ڈاکٹرعبدالقدیرخان سے لیا جبکہ قدرت نے قادیانیوں کودائرہ اسلام سے خارج کرنے کیلئے ذوالفقارعلی بھٹو شہیدکاانتخاب کیا ۔ڈاکٹرعبدالقدیرخان کاکام ذوالفقارعلی بھٹوجبکہ ذوالفقارعلی بھٹو کاکام ڈاکٹرعبدالقدیرخان نہیں کرسکتے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل اخترعبدالرحمن خان کوبھی میدان دیا اورانہوں نے مردمیدان کی حیثیت سے تاریخ رقم کرتے ہوئے افغانستان کوروس کیلئے قبرستان بنادیااورآج افغانستان بدنیت وبدقسمت امریکہ اوراس کے اتحادیوں کیلئے قبرستان بناہوا ہے۔امریکہ دنیا میں کسی کادوست نہیں،اس کے اتحادی درحقیقت محض ”سہولت کار” ہیں ۔پاکستان کی داخلی خودمختاری کاراستہ خودداری سے ہوکرجاتا ہے۔موضوع کی طرف واپس آتے ہیں، جنرل اخترعبدالرحمن خان کاتعلق بھارتی پنجاب میں مقیم پٹھان خاندان سے تھا ۔ان کے آبائواجدادسلطان محمودغزنوی کی فوج کے ساتھ ہندوستان آئے اورجنگ میںتاریخی کامیابی کے بعداپنے سلطان کے فرمان کی تعمیل کرتے ہوئے ہندوستان کے مختلف شہروں میں آبادہوگئے۔ڈاکٹر عبدالرحمن خان کے ہونہار صاحبزادے اخترعبدالرحمن خان نے آسودگی،آسانی اورنعمتوں کی فراوانی والے ماحول میں پرورش پائی ۔ اخترعبدالرحمن خان چار برس کی عمر میں یتیم ہوگئے۔ اختر عبدالرحمن کی تعلیم وتربیت کے دوران ان کی شفیق ومہربان والدہ ہاجرہ خاتون نے ا نہیں باپ کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔ 1945ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے اکنامکس نمایاں نمبرزکے ساتھ پاس کرنے کے بعد اخترعبدالرحمن خان اپنے آبائی شہرمیں اپنی والدہ کے پاس چلے گئے۔ 1946ء میں وہ پروفیشنل زندگی کاآغازکرتے ہوئے بحیثیت ڈی ایس پی لاہور چلے آئے ۔ تاہم اپنی ہمشیرہ کے اصرار پر اخترعبدالرحمن خان نے ڈی ایس پی کامنصب چھوڑدیااور اپنے روشن مستقبل کیلئے فوج کاانتخاب کیا ۔ 1947ء میں نوجوان اخترعبدالرحمن خان سیکنڈلیفٹیننٹ کے طور پر مشرقی پنجاب میں تھے۔قیام پاکستان کے وقت پرعزم اورپرجوش لیفٹیننٹ اخترعبدالرحمن خان نے ہندوستان سے پاکستان کی طرف ہجرت کرنیوالے مسلمان خاندانوں کے متعددقافلوں کوبحفاظت مادروطن کی حدودمیں پہنچایا،اس دوران جنونی ہندوئوں اورسکھوں کے جتھوں سے کئی بار نوجوان لیفٹیننٹ اخترعبدالرحمن خان کاآمناسامنابھی ہوتارہا جس میں بیسیوں بلوائی ان کے ہاتھوں جہنم واصل ہوئے۔ جنرل اخترعبدالرحمن خان ایک پروفیشنل فوجی اورقابل رشک جنرل تھے ۔جنرل ایوب خان کی طرح جنرل اخترعبدالرحمن خان کی شخصیت بھی سحرانگیز تھی اور ملنے والے ان سے مرعوب ہوجاتے تھے ۔
1985 ء سے 1988ء تک ڈی جی آئی ایس آئی جنرل اختر عبدالرحمن خان نے نہ صرف اس دور کی سپرپاور روس کاراستہ روکا بلکہ اس کاشیرازہ بھی بکھیردیا۔پاکستان اورافغانستان کے لوگ جہاں ڈی جی آئی ایس آئی جنرل اختر عبدالرحمن خان کی فہم وفراست اورشجاعت پررشک کرتے تھے وہاں ان کاوجود ملک دشمن قوتوں کی آنکھوں میں چبھنے بھی لگا تھا۔روس تو ڈی جی آئی ایس آئی جنرل اختر عبدالرحمن خان کادشمن تھا ہی امریکہ کے حکام بھی ان سے خوفزدہ تھے۔ اس کاسبب یہ تھا کہ دوراندیش اورمعاملہ فہم ڈی جی آئی ایس آئی جنرل اختر عبدالرحمن خان افغانستان میں پاکستان کی فوجی کامیابیوں کاضیاع نہیں بلکہ اس کے ثمرات چاہتے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ اب جبکہ روس افغانستان سے راہ فراراختیارکررہا ہے توافغانستان میں ایک خودمختار حکومت کا قیام اورسیاسی استحکام بھی ناگزیر ہے ورنہ اندرونی بدنظمی اوربدانتظامی کے نتیجہ میں افغانستان دوبارہ کسی مہم جوئی سمیت بیرونی مداخلت کا نشانہ بن سکتا ہے۔ تاریخ نے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل اختر عبدالرحمن کے تحفظات اورخدشات پرمہرتصدق ثبت کردی ،روس کے نکل جانے کے بعدافغانستان میں مضبوط حکومت قائم نہ ہونے کے سبب وہاں ایسے حالات پیدا ہو گئے کہ آج افغانستان میں امریکہ اوراس کی اتحادی افواج موجود ہیں اور ہماری ریاست کو افغان سرحد پر بھارت کے ساتھ ایل اوسی سے بھی کئی گنا زیاد ہ چیلنجز کاسامنا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان کی داخلی صورتحال اور پاکستان کی مشکلات کے تناظر میں17 اگست 1988 ء کے سانحہ کے پس پردہ سازش کو سمجھنا اور بھی ضروری ہے ۔اس وقت جو عالمی سازش کار پاکستان کی فوجی قیادت کیخلاف گھات لگائے بیٹھے تھے ،ان کا نشانہ صرف ڈکٹیٹر ضیاالحق نہیں بلکہ ڈی جی آئی ایس آئی جنرل اختر عبدالرحمن خان بھی تھے ،کیونکہ اس خاموش مگرپرجوش مجاہدکے ہوتے ہوئے یہ مذموم منصوبہ کامیاب نہیں ہو سکتاتھا۔ درحقیقت جنرل اختر عبدالرحمن خان روس کیخلاف پاکستان کی جنگی حکمت عملی کے ماسٹرمائنڈ یعنی مرکزی معمار تھے ، انہوں نے روس کو افغانستان میں ناکام ونامراد اوروہاں سے نکلنے پر مجبور کرنے کامنصوبہ تیار کیاتھا۔ اس وقت دنیا کی مقتدرقوتوں میں سے کوئی یہ حقیقت تسلیم کرنے کیلئے تیار نہ تھا کہ روس کو افغانستان میں شکست بھی ہو سکتی ہے ۔گرم پانیوں تک رسائی کیلئے روس کوبدترین رسوائی اورشرمناک پسپائی کاسامنا کرنا پڑاتھا۔اگرروس کی تاریخی شکست کے اسباب ومحرکات کوسمجھنا ہے توجنرل اختر عبدالرحمن خان کی شخصیت کامطالعہ کرنا ہوگا۔جنرل اختر عبدالرحمن خان کی کامیابی وکامرانی کاکریڈٹ ان کے جذبہ ایمانی کوجاتا ہے۔
جنرل اختر عبدالرحمن خان کا ایقان کامل تھا کہ روس کیخلاف جنگ میں صرف ابتدائی دور میں عارضی طورپردشواری ہوگی مگر جس وقت مہم جو افغان اپنے دشمن کیخلاف متحداورمیدان جنگ میںمستعد جبکہ گرم پانی تک رسائی کیلئے آنیوالے روس کی افواج پر گوریلے اندازمیں حملے شروع ہو گئے تو امریکہ سمیت یورپ بھی روس کیخلاف پاکستان اور افغانستان کے مزاحمتی گروپس کی مدد کئے بغیر نہیں رہے گا ۔جولوگ غیوراورنڈر افغانوں کے قبائلی نظام بارے معلومات رکھتے ہیں انہیں علم ہے آسمان سے ستارے زمین پراتارے جاسکتے ہیں مگر افغان متحارب قبائل کو کسی ایک پلیٹ فارم پر یکجا نہیں کیا جاسکتا مگرصدآفرین زیرک اورنیک نیت جنرل اختر عبدالرحمن خان نے قلیل مدت میں منتشر اورمتحارب افغانوں کوآپس میںجوڑدیااوریہ اتحاد ایک سیلاب کی مانند روس کواپنے ساتھ بہا لے گیا۔ افغان مزاحمتی گروپس کے مثالی اتحاد اور ان کے درمیان فوجی امداد کی شفاف تقسیم نے روس کیخلاف جنگ میں مزید شدت اورحدت پیدا کر دی تھی۔روس کو شکست فاش کے بعد افغانستان سے جانا پڑا مگراس نے اپنے دشمن کوفراموش نہیں کیا تھا۔17اگست 1988ء کوایک سانحہ میں جنرل اخترعبدالرحمن خان سمیت متعدد فوجی حکام شہید ہوگئے اوریہ سانحہ آج بھی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔جنرل اخترعبدالرحمن خان کی شہادت قابل رشک ہے۔جنرل اخترعبدالرحمن خان کے چارصاحبزادے اکبر اختر خان ،ہمایوںاخترخان ،ہارون اخترخان اور غازی اخترخان اپنے شہید والدکے نقش قدم پرچلتے ہوئے اپنے اپنے اندازسے ملک وقوم کی خدمت کررہے ہیں۔ ہمایوں اخترخان بڑے فخر سے اپنے والدجنرل اخترعبدالرحمن شہید کی یادیں تازہ کرتے اورمادروطن کی حفاظت کیلئے ان کامشن جاری رکھنے کاعزم دہراتے ہیں۔باپ کی شہادت کے بعد ان کے احترام کوبرقرارجبکہ نام اور کام کو زندہ رکھنا بلکہ مزیدروشن کرنافرمانبرداربیٹوں پرقرض اوران کافرض ہوتا ہے ،اس سلسلہ میں ہمایوں اخترخان بھرپوراندازسے فرزند ہونے حق اداکررہے ہیں ۔ہمایوں اخترخان کی گہری دلچسپی کے نتیجہ میں جنرل اخترعبدالرحمن شہید فائونڈیشن ایک موثرادارے کی حیثیت سے نادارومفلس اورمستحق شہریوں کی بحالی اورخوشحالی کیلئے سرگرم ہے ۔ ہمایوں اخترخان اورہارون اخترخان نے کاروبار کے ساتھ ساتھ میدان سیاست کا رخ کیا۔دونوں بھائی1993ء میں لاہور کینٹ سے قومی اورصوبائی اسمبلی کے ارکان منتخب ہوئے،دونوں بھائیوں نے وفاقی سطح پرمختلف مگراہم عہدوں پرکام اوراپنے اپنے منصب سے انصاف کیا ۔ہمایوں اخترخان وفاقی وزیرتجارت بھی رہے ،ان دنوں وہ پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم سے قومی سیاست میں سرگرم ہیں۔ ہمایوں اخترخان کے طرز سیاست سے کچھ لوگ اختلاف بھی کر تے ہیں مگران کی پاکستانیت، اہلیت اورقابلیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔