تحریر: محمد صدیق پرہار وزیراعظم نوازشریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب، مختلف فورمز پر گفتگواوراہم شخصیات سے ملاقاتوںمیں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار، مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل پرزوراوربھارت کی ناپسندیدہ کی کارروائیوں بارے جس جرات کے ساتھ اپنامقدمہ پیش کیا ہے۔ اس سے پاکستانی قوم سے فخرسے بلندہوگئے ہیں۔ امریکہ روانگی سے قبل لندن میںمیڈیاسے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کشمیر سمیت ہر معاملے پر مذاکرات کرے۔ جتنی جلدمسئلہ حل ہوگا دونوںملکوں کے لیے اتناہی اچھا ہے ہمسائے تبدیل نہیں کیے جاسکتے۔ بھارت کواچھے پڑوسیوں کی طرح رہناچاہیے۔
امن کے لیے افغانستان سے مل کرکوشش کریں گے۔پاکستان ایک ذمہ دارملک ہے اورخطے میں اپناکرداراداکررہاہے خارجہ پالیسی میں متعدد تبدیلیاں کی ہیں جس کے مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ٧٠ویں اجلاس میں شرکت کے لیے جاتے ہوئے لندن میں قیام کے دوران برطانوی وزیراعظم سے ملاقات میں وزیراعظم نوازشریف نے برطانوی وزیراعظم کولائن آف کنٹرول پر بھارتی جارحیت کے حوالے سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان تمام ممالک کے ساتھ معمول کے خوشگوارتعلقات کی بحالی چاہتا ہے۔
ان کاکہناتھا کہ ہم امن کے لیے اٹھنے والے ہرمثبت اقدام کی حمایت کرتے ہیں۔ برطانوی وزیراعظم نے پاک فضائیہ کے بیس پرحملہ پر افسوس کا اظہاراورپرامن ہمسائیگی کے لیے پاکستان کی پالیسیوں کا خیرمقدم کرتے ہوئے شدت پسندی اوردہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردارکی تعریف کی۔خبررساں ایجنسی این این آئی کے مطابق نوازشریف نے بھارتی خفیہ ایجنسی راکی جانب سے پاکستان میں انتشار پھیلانے کے لیے کی جانے والی فنڈنگ کے معاملات کو بھی اٹھایا۔امریکہ میں وزیراعظم نے اپنے سویڈش ہم منصب کودہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی کامیابیوںکے بارے میںبتایا۔
General Ban Ki-moon
وزیراعظم نوازشریف نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون پر زور دیا کہ وہ مسئلہ کشمیرحل کرانے میں کرداراداکریں۔اس مقصد کے لیے کشمیر میں رائے شماری کرائی جائے اوراس سلسلے میں سلامتی کونسل کی قراردادوں پرعملدرآمدکرایاجائے۔بان کی مون سے ملاقات میں وزیراعظم نے پاکستان اوربھارت کے درمیان کشیدگی کامعاملہ بھی اٹھایااورانہیں کنٹرول لائن اورورکنگ بائونڈری پربھارت کی طرف سے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیوں سے بھی آگاہ کیا۔انہوں نے سیکرٹری جنرل پرزوردیا کہ وہ خلاف ورزیاں بندکرانے میں اپنا کرداراداکریں۔نوازشریف نے واضح کیا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ پاکستان کی پہلی ترجیح ہے اوروہ افغانستان کے ساتھ نئے تعلقات استوارکرناچاہتا ہے۔
افغان حکومت کہے توپاکستان افغانستان میں امن کے عمل میںمددکرنے کوتیارہے۔بان کی مون نے پاکستان اوربھارت کے درمیان کشیدگی پرتشویش کااظہارکرتے ہوئے کہا کہ وہ دونوںملکوں کے درمیان مذاکرات کرانے کے لیے تیارہیں۔انہوںنے عالمی امن میں کرداراداکرنے پرپاکستان کے امن مشنزکوخراج تحسین پیش کیا۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف کاکہناتھا کہ چارنکاتی فارمولے کے تحت لائن آف کنٹرول پر مکمل فائربندی کی جائے،طاقت کے استعمال کی دھمکیاںنہ دی جائیں، کشمیر سے فوجوںکانکالاجائے،سیاچن کوخالی کیاجائے۔وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان میں تخریب کاری کے پیچھے بھارتی خفیہ ادارے ہیں۔ہم پرامن ہمسائیگی کی پالیسی پرعمل پیراہیں۔
بھارت کے ساتھ تعلقات کے لیے متعددبارکوششیں کیں۔بھارت سے جامع مذاکرات کشمیراورقیام امن کے لیے شروع ہوئے تھے۔ہمارااولین ہمسایہ خطے اورپاکستان میںامن نہیں چاہتا۔لائن آف کنٹرول پربھارتی کشیدگی جارحیت بڑھارہی ہے۔سرحدی کشیدگی روکنے کے لیے اقوام متحدہ کے مبصرین کومزیدمضبوط بناناچاہیے۔کچھ ممالک نے عوام کے حق خودارادیت کوکچل رکھا ہے۔کشمیربنیادی مسئلہ ہے جس کو حل ہوناچاہیے۔یہ مسئلہ ١٩٤٧ء سے حل طلب ہے۔مسئلہ کشمیرپراقوام متحدہ کی قراردادیں عملدرآمدکی منتظر ہیں۔
Kashmir Issues
قراردادوں پر عملدرآمد اور مسئلہ کشمیر حل نہ ہونااقوام متحدہ کی ناکامی ہے۔ کشمیریوں کی تین نسلوں کو شکستہ وعدوں اورجابرانہ اقدامات کے سواکچھ نہیں ملا۔اس مسئلہ کے حل کے لیے کشمیریوں کا شامل ہونا ناگزیر ہے۔ کشمیری عوام کے حق خودارادیت کی حمایت کرتے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا دہشت گردی پھیل رہی ہے ۔دہشت گردی کامفہوم سمجھنے کی ضرورت ہے۔ بڑی طاقتوں کے سرمیان تنازعات سے دہشت گردی بڑھ رہی ہے۔ پاکستان دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثرہ ملک ہے۔ہم نے دہشت گردی کے خلاف سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں۔ہم دنیاسے دہشت گردی کوختم کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔دہشت گردی کی ہرقسم کوجڑسے اکھاڑ پھینکناچاہتے ہیں۔
آپریشن ضرب عضب میں دہشت گردوں کے خلاف صف آراء ہیں۔آپریشن ضرب عضب دہشت گردی کے خلاف سب سے بڑاآپریشن ہے۔دنیابھرمیں دہشت گردی کے بیانیہ کامقابلہ کرناچاہیے۔پاکستان ایک ذمہ دارایٹمی ملک ہے۔ہم ہتھیاروںکی دوڑمیں شامل ہیں اورنہ ہوناچاہتے ہیں۔تاہم اپنے اطراف تبدیل ہوتی سیکیورٹی صورت حال سے بے خبرنہیں رہ سکتے۔خطے میں ہتھیاروںمیں اضافے سے بھی لاعلم نہیں رہ سکتے۔ پاک افغان تعلقات کاذکرکرتے ہوئے انہوںنے کہا ہماری حکومت کی پالیسی ہمسایوں کے ساتھ پرامن تعلقات قائم کرناہے۔افغانستان میںقیام امن کے لیے پاکستان اپنا کردار ادا کررہا ہے۔ہم افغانستان میں استحکام چاہتے ہیں۔ پاک افغان تنائودونوں میں سے کسی کے مفادمیں نہیں۔
Taliban
افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات تعطل کا شکار ہو گئے پاکستان معطل شدہ مذاکرات کو بحال کرنے کی کوشش کرے گا۔نوازشریف نے کہا پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے سے خطے کوبھی فائدہ ہوگا۔ہم سیکیورٹی کونسل میں اصلاحات اوراسے زیادہ جمہوری بنانے کے حامی ہیں۔ سلامتی کونسل کے مستقل ارکان کی تعدادبڑھانے کاکوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ سلامتی کونسل طاقتور ملکوں کا توسیعی کلب نہیں بنایا جاناچاہیے ۔لندن میں وطن واپسی پرمیڈیاسے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم نوازشریف نے کہاکہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطے میں قیام امن کے لیے ہماری طرف سے دی گئی تجاویز کو سراہا گیاہے۔ ہم نے تجاویزپورے خلوص کے ساتھ پیش کی ہیں۔پاکستان اوربھارت کومتوازن سوچ اختیارکرنی ہوگی۔الزام تراشیوں سے قیام امن ممکن نہیں ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان میںبھارتی خفیہ ایجنسی رامداخلت کررہی ہے جس کے ثبوت ہمارے پاس موجودہیںاورانہیں اقوام متحدہ کے سامنے رکھاگیا ہے۔ مسئلہ کشمیرکے حل تک خطے میں امن ممکن نہیں۔ کشمیریوں پرکئی دہائیوں سے ظلم ہورہا ہے۔ مسائل کاحل ہماری تجاویز میں ہے۔بھارت مذاکرات کی میزپرآج آئے یاکل راستہ یہی اختیار کرنا ہوگا ۔بین الاقوامی سطح پربھی ہماری بات سنی جارہی ہے۔نیویارک میں اقوام متحدہ کے ٧٠ویں اجلاس کے دوران ایٹمی ہتھیاروں کے خاتمے کے حوالے سے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سیکرٹری خارجہ اعزازاحمد چوہدری نے کہا کہ پاکستان کوذاتی تحفظ اوراپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے مجبوری کے تحت نیوکلیئر ہتھیاربنانے پڑے۔
پاکستان جنوبی ایشیاء کے استحکام کے لیے خطے کے مرکزی مسائل بشمول کشمیرکے حل کے لیے اپنی پرخلوص کوششیں جاری رکھے گا۔پاکستان کی ایٹمی پالیسی تحمل اورذمہ داری کے اصولوں کے تحت جاری رہے گی۔جنوبی ایشیاء میں سٹرٹیجک استحکام کومحفوظ بناناپاکستان کی بقاء کے لیے ضروری تھا۔نیویارک میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مشیرخارجہ سرتاج عزیز نے کہا پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے پیچھے بھارت کاہاتھ ہے۔ورکنگ بائونڈری اورکنٹرول لائن پرسیزفائرکی مسلسل خلاف ورزی کی جارہی ہے۔ہم مذاکرات کرناچاہتے ہیں لیکن بھارت الزام تراشی کررہا ہے۔
India
پندرہ ممالک کو بھارتی جارحیت سے آگاہ کردیا ہے۔ اوفا میں طے پایا تھا کہ تمام معاملات میں مذاکرات ہوں گے لیکن بھارتی حکومت چاہتی ہے بات چیت ان کی مرضی کے مطابق ہو۔پاکستان افغانستان میں مفاہمتی عمل کی حمایت کرتا ہے۔ بھارتی وزیرخارجہ کے ترجمان وکاس سوارپ نے وزیراعظم نوازشریف کے جنرل اسمبلی سے خطاب پرردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ کشمیرسے فوج نکالنامسئلے کاحل نہیں ۔مستقل امن کے لیے خطے سے دہشت گردی کاخاتمہ ضروری ہے۔اپنی جارحانہ ٹوئیٹس میں اس نے ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہ پاکستان بنیادی طوپردہشت گردی کانہیں اپنی پالیسیوںکاشکارہے۔دراصل وہ دہشت گردی کااہم ترین مددگارہے۔اس کے عدم استحکام کی وجہ بھی یہی ہے۔پڑوسیوںپرالزام تراشی کوئی حل نہیں۔
پاکستان نے بھارتی وزیرخارجہ کی جنرل اسمبلی میں تقریرپراقوام متحدہ میں جمع کرائے گئے جواب میںکہا ہے کہ بھارت کوعالمی قوانین کااحترام ہے توریاستی دہشت گردی بندکرے ۔ اس کے کشمیر پر ناجائز قبضے سے ایک لاکھ کشمیری شہیدہوچکے ہیں۔مذاکرات کوایک نکتے تک محدود کرنا غیرسنجیدگی ہے۔ بھارت فوج نکال کرکشمیری عوام کوفیصلے کا حق دے۔ لبریشن فرنٹ چیئرمین یاسین ملک نے کہا ہے کہ جنوبی ایشیا کو تصادم اورجنگ سے بچانا ہے تومسئلہ کشمیرحل کرناہی پڑے گا۔ مستقل اورپائیدارامن واستحکام کے لیے پاکستانی وزیراعظم نوازشریف کی جانب سے اقوام متحدہ کے اجلاس میں پیش کی گئی تجاویزمثبت اورمعقول ہیں۔سینیٹ میں وزیراعظم نوازشریف کے امن فارمولا کی حمایت میں راجہ ظفرالحق کی پیش کردہ خیرمقدمی
قراردادمنظورکی گئی ہے۔جس میں وزیراعظم کے خطاب کوسراہا گیا ہے۔میرواعظ عمرفاروق نے کہا ہے کہ نوازشریف نے کشمیرپرجرات مندانہ موقف اختیارکیا۔عالمی برادری دہرامعیارترک کرے۔اقوام متحدہ کے چارٹر پر موجودنہ ہونے کے باوجودسکاٹ لینڈ، مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان میںرائے شماری ہوسکتی ہے تو کشمیر میں کیوں نہیں وزیراعظم نوازشریف، سیکرٹری خارجہ اور مشیرخارجہ نے اقوام متحدہ کے اجلاس اورمختلف فورمزسے خطابات اوراہم شخصیات سے ملاقات میں جس جرات کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے کردارکودنیاکے سامنے پیش کیاہے۔
Pakistan
مسئلہ کشمیر کے حل پر زور دیا ہے۔ پاکستان میں عدم استحکام اور بدامنی پھیلانے پر بھارت کو دنیا کے سامنے بے نقاب کیا ہے۔اس پر پاکستان کا ہرمحب وطن شہری اور حقائق پر نظر رکھنے والا ہر شخص وزیر اعظم نوازشریف کو خراج تحسین پیش کررہا ہے۔ملک کے سیاسی اور مذہبی راہنمائوں نے بھی نوازشریف کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کی تعریف کی ہے ۔پاکستان نے ملک میں عدم استحکام پھیلانے پربھارت کے خلاف ثبوت اقوام متحدہ کودے دیے ہیں۔پاکستان کے موقف کوعالمی برادری نے سنا توہے اورتسلیم بھی کیا ہے یانہیں۔اس کافیصلہ زبانی اقرارسے نہیں عملی اقدام سے کیا جاناچاہیے۔جنرل اسمبلی سے نوازشریف کے خطاب اوربھارت کے خلاف ثبوت پیش کیے جانے کے بعدعالمی برادری پاکستان اوربھارت کے ساتھ کیارویہ اختیارکرتی ہے۔
اس رویہ سے ہی اس کی مسئلہ کشمیر،لائن آف کنٹرول پرجنگ بندی معاہدہ کی خلاف ورزی اورپاکستان میں دہشت گردی کے خاتمہ کے سلسلے میں عالمی برادری کی سنجیدگی اوردلچسپی کاپتہ چلے گا۔وزیراعظم نواز شریف نے مسئلہ کشمیر کے حل نہ ہونے کو اقوام متحدہ کی ناکامی قراردے کراقوم متحدہ کے کردارپربہت بڑا سوالیہ نشان لگادیا ہے۔یہ بات بھی غورکرنے کی ہے کہ پاکستان کے موقف کو تو سنا گیا ہے اوبامااوربان کی مون سمیت کسی نے بھارت سے نہیں کہا کہ وہ ایسا کیوں کررہا ہے۔وہ ایسا کرنابندکردے۔مسئلہ کشمیر کا حل نہ ہونااقوام متحدہ کی ناکامی ہی سہی اس کے ساتھ ساتھ یہ اقوام متحدہ کی جانبداری، مسلمانوں کے مسائل اوران پرہونے والے مظالم سے نظریں چرانے اوراس کے دہرے معیاروکردارکی زندہ اورواضح مثال ہے۔