تحریر: غلام رضا جنرل راحیل شریف شاندار اننگز کھیلنے کے بعد ریٹائرڈ ہوچکے ہیں جبکہ دوسری طرف جنرل قمر باجوہ نے آرمی چیف کے عہدے کی ذمہ داریاں سنبھال لیں ،امید ہے جنرل قمر باجوہ ملک و قوم کیلئے بہترین سپہ سالار ثابت ہونگے کیونکہ ہمیں ملک میں موجود دہشت گردوں سے بڑا خطرہ ہے جبکہ انہیں کنٹرول والے افغانستان اور بھارت میں موجود ہیں جن کیخلاف سخت ایکشن کی ضرورت ہے۔جنرل قمر باجوہ کو سب سے پہلے وہ کرنا چاہئے جو جنرل راحیل مکمل نہ کر سکے مثال کے طور پر کراچی آپریشن،کرپٹ حکمرانوں کیخلاف کارروائی اور پنجاب میں آپریشن نمایاں ہیں۔جنرل قمر باجوہ آرمی چیف بننے سے پہلے جنرل ہیڈ کوارٹرز میں انسپکٹرجنرل آف ٹریننگ اینڈ ایویلیویشن تعینات تھے ،لیفٹیننٹ جنرل قمر باجوہ کو فور سٹار جنرلز کے رینک پر ترقی دی گئی،جنرل قمر جاوید باجوہ آرمی کی سب سے بڑی 10 کور کو کمانڈ کرچکے ہیں جو کنٹرول لائن کے علاقے کی ذمہ داری سنبھالتی ہے۔جنرل قمر جاوید باجوہ کشمیر اور شمالی علاقہ جات میں معاملات سنبھالنے کابھی وسیع تجربہ رکھتے ہیں، جنرل قمر باجوہ کانگو میں اقوام متحدہ کے امن مشن میں بھارتی آرمی چیف جنرل بکرم سنگھ کیساتھ بطور بریگیڈ کمانڈر کام کرچکے ہیں جو وہاں ڈویڑن کمانڈر تھے۔ انفنٹری سکول کوئٹہ میں کمانڈنٹ بھی رہ چکے ہیں۔قمر جاوید باجوہ فوج کے سینئر افسران میں چوتھے نمبر پر تھے۔ موجودہ لیفٹیننٹ جنرلز میں سے سب سے سینئر جنرل زبیر حیات تھے جبکہ دوسرے نمبر پر لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال رمدے اور تیسرے پر لیفٹیننٹ جنرل اشفاق ندیم تھے قمر جاوید کو فوج کا سربراہ مقرر کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ وہ بھی جنرل راحیل شریف کی طرح فوج کی سیاسی امور میں مداخلت پر یقین نہیں رکھتے ہیں۔
نئے آرمی چیف کو بہت سے چیلنج بھی درپیش ہوں گے جن میں لائن آف کنٹرول پر کشیدگی اور دہشت گردی کے خلاف جاری آپریشن کے علاوہ نئی امریکی انتظامیہ کے ساتھ تعلقات بھی ایک چیلنج ہو سکتا ہے۔ خطے کی سلامتی کی صورت حال ہے کمزور ہے، لائن آف کنڑول پر فائرنگ ہو رہی ہے۔ افغانستان کیساتھ تعلقات نچلی سطح پر ہیں اور اس کیساتھ کیسے آگے بڑھا جائے کیونکہ یہ کشیدگی پاکستان پر کسی نا کسی طرح اثر انداز ہو سکتی ہے۔سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے قبائلی علاقوں خصوصاً شمالی وزیرستان میں ملکی و غیر ملکی دہشت گردوں کیخلاف بھرپور کارروائی شروع کروائی تھی جس کی بدولت ملک میں امن و امان کی صورتحال میں ماضی کی نسبت بہتری دیکھی گئی اور اس کارروائی کے تناظر میں جنرل راحیل کو نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پر بھی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔جیسا کہ نئے آرمی چیف کا تعلق پاک فوج کی بلوچ رجمنٹ سے ہے، ان سے قبل اسی رجمنٹ سے جنرل یحییٰ خان، جنرل اسلم بیگ اور جنرل اشفاق پرویز کیانی آرمی چیف کا عہدہ سنبھال چکے ہیں اور وہ بلوچ رجمنٹ سے تعلق رکھنے والے چوتھے آرمی چیف ہیں جو اس رجمنٹ کیلئے منفرد اعزاز ہے۔جنرل یحییٰ خان اپنے عہدے پر اس وقت تک براجمان رہے جب تک ملک دو لخت نہ ہوگیا۔
Aslam Baig
اسلم بیگ جنرل ضیاء الحق کی طیارہ حادثہ میں موت کے بعد آرمی چیف بنے اور پھر ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد جنرل آصف نواز جنجوعہ کو لگا دیاگیا۔ بلوچ رجمنٹ کے تیسرے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی تھے اور یہ واحد آرمی چیف ہیں جنہیں کسی سویلین حکومت کی جانب سے توسیع دی گئی اور یہ چھ سال تک آرمی چیف رہنے کے بعد ریٹائر ہوئے۔نئے آرمی چیف کے بائیو ڈیٹا پر تو تفصیل سے بات ہوچکی مگر اب جنرل قمر باجوہ کا اصل امتحان شروع ہونے کوہے،عہدہ سنبھالتے ہی دہشت گردی سے نمٹنا چاہئے ،بھارت کو موثر جواب دینا ہوگا، آئین کے اندر رہتے ہوئے ملک کیلئے کام کرنا چاہئے،میرے خیال سے جنرل اشفاق ندیم اور جنرل جاوید رمدے جو جنرل قمر باجوہ سینئر رہے امید ہے اپنے عہدوں سے مستعفی ہو جائینگے کیونکہ دونوں جرنیل آرمی چیف بننے کے اہل تھے ،جونیئر افسر کے آرمی چیف بننے پر پہلے بھی سینئر افسران مستعفی ہو چکے ہیں۔جنرل راحیل شریف شریف کیخلاف سوشل میڈیا پر مہم بھی شروع کی گئی ہے جس میں غیر مناسب باتیں کی جا رہی ہیں۔
خیر اب ان فضول کاموں سے جنرل راحیل کے مخالفین نہ جانے کیا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں اس پر زیادہ بات نہ ہی کی جائے تو بہتر ہے۔جنرل قمر باجوہ ایک سلجھی ہوئی شخصیت ہیں ہر کسی کیساتھ گھل مل جاتے ہیں مگر کوئی انہیں دھوکہ نہیں دے سکتا،سب سے اہم خوبی جو شاید سیاست دانوں کیلئے اچھی ہے وہ یہ کہ خو د کو شروع سے ہی سیاست سے دور رکھا ہوا ہے اور قریبی ساتھیوں میں بھی سیاست پر گفتگو کرنا پسند نہیں کرتے۔ایک فوجی دوست سے بات ہو رہی تھی جس میں ان کا کہنا تھا کہ جنرل قمر باجوہ کو ”ایزی”نہیں لیا جا نا چاہئے،قمر باجوہ ہی دہشت گردوں کی کمر توڑیں گے اور اگر سیاست دانوں کی کرپشن پر ہاتھ ڈالنا ناگزیر ہوا تو گریز نہیں کریں گے۔
Asif Ali Zardari
سابق صدر آصف زرداری کے اینٹ سے اینٹ بجا دینے والے بیان اور واپسی کے حوالے سے دوست کا کہنا تھا کہ فوج کی پالیسی نہیں بدلتی، شخصیات کے آنے جانے سے زیادہ فرق نہیں پڑتا، تفصیل میں جایا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر فوج نے چاہا تو زرداری کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کیونکہ زرداری صاحب نے بیان کسی شخصیت نہیں بلکہ آرمی کیخلاف بیان دیا تھا جس میں براہ راست فوج کو نشانہ بنایا گیا۔اگرچہ زرداری صاحب ایک انٹرویو میں جلد واپسی کا عندیہ دے چکے ہیں مگر ان کیلئے جلد واپس آنا ممکن نہ ہوگا اور آ بھی گئے تو ڈاکٹر عاصم جیسے حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔میرے مطابق وزیراعظم نے جنرل قمر باجوہ کا انتخاب صرف اس لئے کیا ہے کہ ایک تو وہ سیاست سے دور رہتے ہیں اور دوسرا جنرل راحیل کے نقش قدم پر چلنے کا عزم رکھتے ہیں،وزیراعظم نیانتخاب کے دوران یہ ضرور سوچا ہوگا کہ ان کے انتخاب سے وہ اپنی مدت با آسانی پوری کر لیں گے۔جنرل قمر باجوہ کیلئے راحیل شریف کے شروع کئے گئے کاموں کو تکمیل تک پہنچانا ایک امتحان ہوگااس میں وہ کتنے کامیاب ہونگے یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر ہمیں مثبت سوچنا چاہئے ،اگرچہ پاک فوج کے کچھ بڑوں نے غیر جمہوری اقدامات کر کے فوج پر بدنما دھبے بھی لگے جس کی کسی بھی صورت حمایت نہیں کی جا سکتی مگر اس کے باوجود بھی پاک فوج نے ہمیشہ ملک کی سلامتی کیلئے اقدامات اٹھائیاگر ایک شعر میں بیان کروں تو شہیدان وطن کے حوصلے تھے دید کے قابل وہاں پر شکر کرتے تھے جہاں پر صبر مشکل تھا
پاک فوج کا شمار دنیا کی بہترین افواج میں ہوتا ہے اور جنرل راحیل شریف نے جو ”ٹرینڈ”سیٹ کیا ہے ہر سپہ سالار کو اس پر عملدر آمد کرتے ہوئے ادارے کی مضبوطی کیلئے کام کرنا چاہئے،ہم کبھی جمہوریت کے ثمرات سے مستفید ہوئے ہی نہیں ہیں کیونکہ جب بھی جمہوریت پھلنے پھولنے لگتی ہے تو کوئی نہ کوئی سپہ سالار غیر جمہوری اقدام کر کے عوام کی منتخب حکومت کو گھر بھیج دیتا ہے جس کی ہم بھی مذمت اور مرمت کرنے کی بجائے مٹھائیاں تقسیم کرنے میں لگ جاتے ہیں۔ہماری بد قسمتی بھی یہی ہے کہ سیاستدان خود فوج کو مارشل لاء لگانے کی دعوت دیتے ہیں اگر سیاستدان ایک دوسرے کے مینڈیٹ کا احترام کرنا سیکھ لیں اور خود میں برداشت کا مادہ پیدا کر لیں تو کسی بھی جرنیل میں مارشل لاء لگانے کی جرات نہیں ہوگی۔
Ghulam Raza
تحریر: غلام رضا ای میل: hurmateqalam@gmail.com فون نمبر:0331-4260460 فیس بک آفیشل پیج: hurmateqalam/www.fb.com