نیو دہلی (اصل میڈیا ڈیسک) بھارت کے آرمی چیف جنرل بپن راوت کو عہدہ سے سبکدوش ہونے سے ایک دن پہلے آج ملک کا پہلا چیف آف ڈیفنس اسٹاف(سی ڈی ایس) نامزد کردیاگیا۔ یہ عہدہ ’فور اسٹار‘ جنرل کے مساوی اور تینوں افواج کے سربراہوں سے اوپر ہو گا۔
شہریت ترمیمی قانون پر اپنے متنازع بیان کی وجہ سے جنرل راوت کو گزشتہ دنوں متعدد سیاسی جماعتوں کی تنقید کا نشانہ بننا پڑا تھا۔کانگریس سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں نے ان کے بیان کو سیاسی امور میں فوج کی مداخلت سے تعبیر کیا تھا۔
سی ڈی ایس بری، بحری اور فضائی افواج کی مشترکہ کمان کا مشیر ہوگا۔ کارگل جنگ کے بعد 2001میں اس وقت کے نائب وزیر اعظم لال کرشن اڈوانی کی صدارت میں قائم وزارتی گروپ نے جائزہ کے دوران پایا کہ تینوں افواج کے درمیان تال میل کی کمی تھی اور اگر تینوں کے درمیان ٹھیک سے تال میل ہوتا تو نقصان کافی کم کیا جاسکتا تھا۔
اسی وقت سی ڈی ایس کا عہدہ قائم کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔ اس کے بیس برس بعد رواں برس پندرہ اگست کویوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ سے اپنی روایتی تقریر میں وزیر اعظم نریندر مودی نے سی ڈی ایس کا عہدہ قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ سی ڈی ایس فوج کے تینوں شعبوں (بری، بحری اور فضائیہ) کے درمیان تال میل کو یقینی بنائے گا اور انہیں موثر قیادت فراہم کرے گا۔
وزیر اعظم کے اعلان کے بعد قومی سلامتی مشیر اجیت ڈوبھال کی صدارت والی ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے سی ڈی ایس کی تقرری کے طریقہ کار اور اس کی ذمہ داریوں کے تعین کا خاکہ تیار کیا۔
وزیر اعظم نریندر مودی کی صدارت والی وفاقی کابینہ نے 24 دسمبر کو سی ڈی ایس عہدہ اور اس کے چارٹر اور ذمہ داریوں کو منظوری دی تھی۔ اس کی خاص بات یہ ہے کہ سی ڈی ایس کا عہدہ چھوڑنے کے بعد وہ کسی بھی سرکاری عہدہ قبول کرنے کا اہل نہیں ہوگا۔
چیف آف ڈیفنس اسٹاف کی تقرری کا مقصد بھارت کے سامنے آنے والے سلامتی کے چیلنجز سے نمٹنے کے لئے تینوں افواج کے درمیان تال میل میں اضافہ کرنا ہے۔
خیال رہے کہ مغربی دفاعی اتحاد نیٹوکے بیشتر ممالک اس نظام کے تحت اپنی افواج کے اعلیٰ ترین عہدہ کے لیے چیف آف ڈیفنس اسٹاف کی تقرری کرتے ہیں۔ اس وقت برطانیہ، سری لنکا، اٹلی اور فرانس سمیت تقریباً دس ملکوں میں اس طرح کا نظام ہے۔ اب بھارت کانام بھی ان ملکوں کی فہرست میں شامل ہوگیا ہے۔
سی ڈی ایس تمام فوجی امور میں حکومت کے پرنسپل ایڈوائزر کے طور پر کام کرے گا اور تینوں افواج کے درمیان بہتر تال میل قائم کرنے پر توجہ مرکوز کرے گا۔ وزارت دفاع کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے، ”گوکہ سی ڈی ایس تینوں افواج سے متعلق کے حوالے سے وزیر دفاع کا پرنسپل ملٹری ایڈوائزر ہوگا تاہم تینوں افواج کے سربراہان بھی اپنی اپنی افواج سے متعلق خصوصی امور پر وزیر دفاع کو مشورہ دیتے رہیں گے۔ سی ڈی ایس تینوں افواج کے سربراہوں کو کسی طرح کا فوجی حکم نہیں دے گا۔‘‘
دریں اثناء پنجاب کے وزیر اعلی کیپٹن امریندر سنگھ اور حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کے نائب صدر بجینت جے پانڈا نے جنرل راوت کو سی ڈی ایس کے لیے نامزد کیے جانے پر مبارک باد دی ہے۔ پانڈا نے اسے بھارتی مسلح افواج کے لیے ایک تاریخی موقع قرار دیا۔
خیال رہے کہ چند دنوں قبل جنرل راوت نے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف جاری ملک گیر مظاہروں پر یہ کہہ کر تنازعہ کھڑا کردیا تھا کہ ”لیڈر وہ ہوتے ہیں جو لوگوں کو صحیح سمت میں لے جاتے ہیں۔ یونیورسٹیوں اورکالجوں میں طلبہ احتجاجی مظاہرے کررہے ہیں۔ اس سے تشدد میں اضافہ ہورہا ہے۔ یہ لیڈرشپ نہیں ہے۔”
کانگریس کے سینئر رہنما اور سابق مرکزی وزیر پی چدمبرم نے اس بیان کی سخت نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا تھا، ”آپ آرمی کے سربراہ ہیں۔ آپ کو اپنے کام سے مطلب رکھنا چاہیے۔ مسلح افواج کا یہ کام نہیں کہ وہ سیاسی لیڈروں کو یہ بتائیں کہ انہیں کیا کرنا چاہیے، جیسا کہ یہ ہمارا کام نہیں کہ ہم آپ کو بتائیں کہ جنگ کیسے لڑنی ہے۔”
ممبر پارلیمنٹ صلاح الدین اویسی نے جنرل راوت پر طنز کرتے ہوئے کہا، ”وزیراعظم مودی نے اپنی آفیشل ویب سائٹ پر لکھا ہے کہ ایک طالب علم کے طور پر انہوں نے ایمرجنسی کے دوران مظاہروں میں حصہ لیا تھا۔ آرمی چیف کے بیان کے مطابق وزیر اعظم مودی کا یہ اقدام غلط ہے۔”