اسلام آباد (جیوڈیسک) چیف جسٹس نا صرالملک نے دس صفحات پر مبنی فیصلہ تحریر کیا ہے۔ تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہےکہ آئین کے آرٹیکل 225 کی موجودگی میں انتخابی نتائج کو کیسے چیلنج کیا جا سکتا ہے۔
آرٹیکل 225 کے تحت کسی بھی الیکشن کے نتیجہ کو صرف الیکشن ٹریبونل میں ہی چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار کے ان نکات پر عدالت کی معاونت کرنے میں نا کام رہے۔
آئینی اور قانونی نکات پر درکار معاونت نہ ملنے پر عدالتی کاروائی آگے نہیں بڑھائی جا سکتی۔ تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عدالت اگر درخواستوں کو منظور کر لیتی تو تمام ممبران پارلیمنٹ اپنی رکنیت سے محروم ہو جاتے۔ دائر درخواستوں میں ممبران قومی و صوبائی اسمبلی کو فریق تک نہیں بنایا گیا۔
الیکشن کمیشن کے جن ممبران کے خلاف کاروائی کی استدعا کی گئی انھیں بھی فریق نہیں بنایا گیا۔ عدالتی فیصلے سے ممکنہ متاثرہ شخصیات کو فریق نہ بنانا انھیں فیئر ٹرائل کے حق سے محروم کرنا ہے۔
عدم شواہد، لازمی شخصیات کو فریق نہ بنانے پر درخواستیں نا قابل سماعت ہیں۔ انتخابی دھاندلی کے الزامات سے متعلق کوئی دستاویز منسلک نہیں کی گئی۔ ٹھوس شواہد کی عدم موجودگی میں عدالتی کاروائی کو آگے نہیں بڑھایا جا سکتا۔