جنرل الیکشن 2018 کا وقت جیسے جیسے قریب آ رہا ہے ویسے ویسے امیدواروں کی جانب سے ڈورٹوڈور کمپین زور پکڑتی جارہی ہے شہر بھر میںہزاروں کی تعداد میںلگائے گئے رنگین تصاویر والے فلیکس ماہ جون میں سورج کی تپش کا اثر کم کرتے ہوئے سیاسی بہار کا پیغام دے رہے ہیں یہ ہی وہ وقت ہے جب سیاستدان گرمی کا احساس محسوس نہ کرنے کا عندیہ ووٹرکو دیتے ہوئے جون ،جولائی کی تپتی دوپہروںمیں وہاں وہاں قدم رنجہ فرما رہے ہیں جہاں سے گزرے کم ازکم پانچ برس تو بیت چکے ہونگے آج ہمدردی ،خلوص ،شفقت کی نئی نئی کہانیاں لکھی جارہی ہیں جنازوں میں لیڈراں کی شمولیت دور دراز کے چکوک میں دیکھی جارہی ہے وہ ہی مسائل وہ ہی شکوے شکایات جو ستر سال سے وطن عزیز کے عوام نعروں سے متاثر ہوکر مختلف پارٹیوں کو اقتدار لانے کے بعداُن سے مایوس ہو کر دیتے آرہے ہیں زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں گزشتہ تیس سال کے سیاستدانوں پر نظر دوڑائیں تو تقریباََ وہ ہی سیاسی رہنمایا خاندان مختلف پارٹیوں سے مختلف وقتوں میں کامیاب ہوکر نئی پارٹی میں شمولیت کے بعد تبدیلی کا نعرہ بلند کر کے عوام (عام ) کے پاس جا پہنچتے ہیں۔
بے مقصد بنائے منصوبے اور اُن پر لگے کروڑوں روپے اور حاصل ؟برسات کی پہلی جھڑی نے منصوبوں کی پائیداری اور دعوئوں کی قلعی کھول دی نوجوان نسل سوشل میڈیا پر تبدیلی اور کوئی ترقی کے دعوے کر کے ایک دوسرے کو بُرا بھلا کہنے میں مصروف عمل ہے میڈیا خاموش اور کچھ میڈیا پرسنز الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کے سامنے مجبور نئی نسل کو یہ بتانے سے گریزاں کہ پارٹیاں بدلنے سے تبدیلی نہیں آتی اپنی سوچ اور اپنے عمل وکردار کو حقیقی طور پر بنیادی ضرورتوں سے محروم افراد کی بہتری کے لئے بدلنے سے آتی ہے سوشل میڈیا پر پارٹیاں بدلنے والے کے سابقہ عمل کو دیکھنے کی بجائے اُس کے بدلے انتخابی نشان پرکمپرومائز کر کے اُسے جیتنے کی بحث زوروں پرجاری ہے بعض دفعہ تو سوشل میڈیا پر بحث کرتے کرتے بات گالم گلوچ تک پہنچ جاتی ہے کہیں مریض کا مذاق ،کہیں کسی کے عقیدے پر،کہیں کسی کی عبادات کا مذاق ،کہیں لچر اور واہیات جملہ بازی، کیا ایسے تبدیلی آتی ہے ؟کیا ایسے جمہوریت پنپتی ہے ؟ اگر تو کوئی کسی کی پسند کی پارٹی کا ہے تو وہ ٹھیک اگر مخالف پارٹی کو سپورٹ ووٹ دینے کا ارادہ ظاہر کرتا ہے تو اُس پر ایسے ایسے جملے لکھے جاتے ہیں کہ پڑھ کر سوشل میڈیا سے منسلک رہنا گناہ لگتا ہے ،نوجوان نسل اپنی اپنی پارٹی کو ضرور سپورٹ کریں لیکن اخلاق اقدار کو ملحوظ خاطر بھی رکھیںہو سکتا ہے۔
آج آپ جس پارٹی کے نمائندہ کے لئے سب کچھ کئے جارہے ہیں ہو سکتا ہے آئندہ الیکشن میں وہ کسی دوسری پارٹی کا نمائندہ بن جائے کیونکہ ہم نے تو گزشتہ آٹھ جنرل الیکشنوں میں اکثریت کو پارٹی بدل کر بر سراقتدار آنے والی پارٹی کے لئے چلنے والی ہوا کے رُخ پر چلتے دیکھا ہے ۔سانچ کے قارئین جانتے ہیں کہ میں پاکستانی سیاست کے بدلتے رنگوں پر اخبارات کے صفحے کم ہی کالے کرتا ہوں سیاست کے بارے پیشن گوئی کرنے والے ہزاروں قلم کار اور اینکرز ہیں جنرل الیکشن کو منعقد ہونے میں گنتی کے دن رہ گئے ہیں مختلف پارٹیوں کے امیدواروں کو انتخابی نشانات تک آلاٹ ہو چکے اوکاڑہ میں قومی اسمبلی کے حلقہ 141اور صوبائی حلقہ 183اور190کے سیاسی دنگل کو دیکھیں تو یہاں پر پاکستان مسلم لیگ (ن)کے امیدوارچودھری ندیم عباس ربیرہ ہیں آپ 2013کے جنرل الیکشن میں بھی پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ہی امیدوارتھے اور بھاری اکثریت سے کامیاب بھی ہوئے تھے آپ اپنی سابقہ کارکردگی کی بنیاد پر کامیابی کے لئے پُر اُمید ہیں آپکے چھوٹے بھائی رضا عباس ربیرہ صوبائی اسمبلی کے حلقہ 190سے امیدوار ہیں رضا عباس ربیرہ 2013 میں بھی پاکستان مسلم لیگ (ن) کی جانب سے امیدوار تھے لیکن آپکے مد مقابل ربیرہ فیملی سے تعلق رکھنے والے قریبی عزیز چودھری مسعود شفقت ربیرہ پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ پر کامیاب ٹھہرے تھے یہ ضلع بھر میں واحد نشست تھی جو پاکستان تحریک انصاف نے جیتی تھی اب کی بار چودھری مسعود شفقت ربیرہ پاکستان تحریک انصاف کا ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے اور آزاد حثیت سے قومی اسمبلی کی نشست 141سے میدان میں ہیں اور جیت کے لئے پر عزم ہیں قومی اسمبلی کے حلقہ141سے ہی پاکستان تحریک انصاف نے سید صمصام بخاری کو ٹکٹ جاری کر دیا ہے سید صمصام بخاری 2008کے جنرل الیکشن میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے تھے بعدازاں پیپلز پارٹی کو خیر آباد کہہ کر پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہوگئے یہیں سے پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر رائے غلام مجتبی کھرل قومی اسمبلی کی نشست پر امیدوار ہیں آپ 2008 کے انتخابات میں بھی پاکستان پیپلز پارٹی کے ممبر قومی اسمبلی منتخب ہو چکے ہیں۔
آزاد امیدوار چودھری خلیل الرحمن بھی میدان میں ہیں آپ معروف کاروباری فیملی( نعمت گروپ )کی جانب سے انتخابات میںحصہ لے رہے ہیں گزشتہ دو سال سے آپ نے اِس حلقہ پر توجہ مرکوز کرنے کے ساتھ ساتھ سیاسی ،سماجی ،فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔سانچ کے قارئین کرام !اگر ہم اس حلقہ میں گروپس کی بات کریں تو پانچ گروپ کے امیدواران قومی وصوبائی اسمبلی مد مقابل ہیں پاکستان مسلم لیگ (ن ) چودھری ندیم عباس ربیرہ ،پاکستان تحریک انصاف کے سید صمصام بخاری ،پاکستان پیپلز پارٹی کے رائے غلام مجتبی کھرل ،آزاد گروپس میں چودھری خلیل الرحمن اور چودھری مسعود شفقت ربیرہ ،اِسی حلقہ سے صوبائی اسمبلی کے امیدواران کودیکھا جائے تو پی پی 183سے سابقہ مسلم لیگی ایم پی اے جاوید علائوالدین اَب کی بار بھی امیدوار ہیں جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے رانا عبدالرحمن ایڈووکیٹ اور پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے مہر محمد جاوید اور آزاد امیدواروں میں محمد اکرم بھٹی،رائو عابد علی واجد،راجہ قمر الزمان بھی میدان میں ہیں سابقہ ایم پی اے رائے نور کھرل کے بیٹے رائے علی نور بھی آزاد امیدوار ہیں سابقہ ایم پی اے رائے نور کھرل کی دختر ثمینہ نور 2013کے جنرل الیکشن میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر منتخب ہوچکی ہیں اس کے علاوہ تحریک لبیک کی جانب سے رانا فرزند نسیم امیدوار ہیں اور کچھ اور امیدوار بطور آزاد اپنی قسمت آزمائی کرتے نظر آرہے ہیں صوبائی حلقہ پی پی 190کی بات کی جائے تو پاکستان مسلم لیگ (ن) کی جانب سے غلام رضا عباس ربیرہ ،پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے رائے فیصل میاں خاں کو ٹکٹ دیا گیا ہے رائے فیصل میاں خاں سابقہ ایم پی اے رائے میاں خاں کھرل کے صاحبزادے ہیں رائے فیصل میاںخاں بہت عرصہ سے جنرل پرویز مشرف کی پارٹی کے ورکر کی حثیت سے کام کرتے رہے ہیں ،پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے رائے حماد اسلم سمیت دیگر آزاد امیدوار میدان میں ہیں اگر اوکاڑہ شہر کے قومی اسمبلی کے حلقہ کی بات کی جائے تو یہاں پر پاکستان مسلم لیگ (ن)کی جانب سے اپنے سابقہ ایم این اے چودھری ریاض الحق جج کو ہی جنرل الیکشن 2018میں بھی ٹکٹ جاری کیا گیا ہے چودھری ریاض الحق جج ضمنی الیکشن میں چودھری محمد عارف کے نااہل ہونے پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے امیدوار علی عارف کو بھاری اکثریت سے شکست دے کر آزاد امیدوار کے منتخب ہوئے تھے۔
بعد ازاں پاکستان مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوگئے تھے آپکی فیملی(نعمت گروپ) کا مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنمائوں اور مسلم لیگ (ن)سے گہرا تعلق رہا ہے آپکی کمپین میں آپکے بڑے بھائی چودھری فیاض الحق انتہائی سرگرم ہیں چودھری فیاض الحق نے شہر اور اس سے ملحقہ چکوک کی برادریوں کے سرکردہ سربراہاں کو اپنے ساتھ ملا کر چودھری ریاض الحق کی کمپین کو بام عروج پر پہنچا رکھا ہے قومی اسمبلی کے حلقہ 142سے پاکستان تحریک انصاف کے رائو حسن سکندر امیدوار ہیں جوکہ سابق وزیر دفاع رائو سکندر اقبال (مرحوم )کے فرزند ہیں رائو سکندر اقبال (مرحوم )سال1988کے جنرل الیکشن سے سال 2002 تک پیپلز پارٹی کے سرگرم رہنما رہے اور اس عرصہ میں دو بار قومی اسمبلی کے ممبر بننے کے ساتھ ساتھ وزارت کا عہدہ بھی حاصل کرتے رہے 2002کے جنرل الیکشن کے بعد آپ پاکستان مسلم لیگ (ق)کے دور حکومت میں وزیر دفاع کے عہدہ پر فائز رہے 2008کے انتخابات میں شکست آپکے حصہ میں آئی آپکو تعمیر شہر کا خطاب بھی دیا گیا آپ نے اپنے دور میں سکولز،کالجز،ہسپتال ،اسٹیڈیم ، پارک ،جمنیزیم ،سڑکیں ،انڈر پاسز کی تعمیرپر بھر پورتوجہ مرکوز رکھی آپکی وفات کے بعد آپکی فیملی پہلے مسلم لیگ (ن) اور پھر پیپلز پارٹی اور بعد ازاں پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہوگئی آپکے فرزند رائو حسن سکندر اپنی جیت کے لئے انتہائی پر امید ہیں اسی حلقہ سے پاکستان پیپلز پارٹی نے نواب طارق پٹھان کو ٹکٹ جاری کیا ہے جوکہ سابق ایم این اے چودھری سجاد الحسن کی جانب سے الیکشن میں حصہ نہ لینے کے بعد جاری کیا گیا اس حلقہ سے پاکستان مسلم لیگ (ق)کے سابق سرگرم رہنما عبدالرشید بوٹی بھی امیدوار ہیں جنھیں شہر میں جاری کمپین کو دیکھا جائے تو سابق ایم این اے پاکستان مسلم لیگ (ن) چودھری عارف اور انکے دست راست الحاج عبد الرشید کا گروپ سپورٹ کرتا نظر آتا ہے قومی اسمبلی کے اس حلقہ سے پہلی بار خواجہ سراء ارسلان نایاب علی پاکستان تحریک انصاف (گلالئی)کے امیدوار کے طور پر سامنے ہیں۔
شہر کے صوبائی حلقہ189 سے پاکستان مسلم لیگ (ن)کے امیدوار نوجوان چودھری منیب الحق ایڈووکیٹ ہیں آپ سابق ایم پی اے چودھری اکرام الحق ایڈووکیٹ (مرحوم) کے فرزند ہیں ،پاکستان تحریک انصاف نے تاجر رہنما چودھری سلیم صادق کواس حلقہ سے اپنا امیدوار منتخب کیا ہے چودھری سلیم صادق تاجر برادری سمیت نوجوانوں کی بڑی تعداد کے ساتھ کمپین کو چلا رہے ہیں اگرچہ تاجر برادری کی بڑی اکثریت پاکستان مسلم لیگ (ن) کو سپورٹ کرتی نظر آ رہی ہے پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے رائو رفیق ساجد کو ٹکٹ جاری کیا گیا ہے اسکے علاوہ بہت بڑی تعداد آزاد امیدواران کی ہے جوکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑی سیاسی پارٹیوں کو سپورٹ کرتے نظر آتے ہیں ،صوبائی حلقہ 188میں پاکستان مسلم لیگ (ن) نے اپنے سدا بہار ایم پی اے میاں یاور زمان کو ایک بار پھر میدان میں اُتارا ہے سابقہ صوبائی وزیر میاں یاور زمان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ آپ مسلسل تین جنرل الیکشنوں میں یہاں سے کامیاب ہو چکے ہیں اگرچہ حلقہ بندیوں میں کچھ تبدیلیوں سے کچھ اور چکوک اس حلقہ میں شامل ہوئے ہیں لیکن میاں یاور زمان فرزند سابق ایم این اے میاں محمد زمان (مرحوم)اپنی کامیابی کے لئے پُر امید ہیں یہاں سے پاکستان تحریک انصاف نے نوجوان کاروباری سماجی شخصیت چودھری عبداللہ طاہر کو ٹکٹ جاری کیا ہے۔
چودھری عبداللہ طاہر اپنے دیرینہ ساتھی مہر عبدالستار کے ساتھ ملکر اپنی کمپین چلا رہے تھے کہ مہر عبدالستار جنرل سیکرٹری انجمن مزارعین اپنے اوپرچلنے والے کیس میں انسداد دہشت گردی کی عدالت سے سزا ملنے کے بعد گرفتار کئے جاچکے ہیں لیکن انہوں نے گرفتاری سے پہلے اپنے ایک سوشل میڈیاپیغام میں اپنے چاہنے والوں کو چودھری عبداللہ طاہرکو سپورٹ اور ووٹ دینے کا کہا ہے یاد رہے کہ اس حلقہ میں مزارعین کے چکوک شامل ہیں چودھری عبداللہ طاہر پاکستان تحریک انصاف کا ٹکٹ حاصل کرنے کے بعدنوجوانوں اور سپورٹرز کے ساتھ منظم انداز میں کمپین چلاتے نظر آتے ہیں یہیں سے پاکستان پیپلز پارٹی کے نظریاتی کارکن جاوید نورنگ بھی صوبائی اسمبلی کی نشست جیتنے کے دعوے کرتے نظرآتے ہیں حلقہ این اے 142اور پی پی189 میں اگرذات برادریوں کو دیکھا جائے تو رائو،رانا(راجپوت) ،آرائیں،ملک ، مغل ،بھٹی ،گجرقابل ذکر ہیں شہر کے اس حلقہ سے سابقہ انتخابات کو دیکھا جائے تو رائو اور آرائیں ہمیشہ سے مد مقابل رہے ہیں اور دیگر برادریاں انکو سپورٹ کرتی رہی ہیں لیکن اَب کی بار صوبائی حلقہ پر دو آرائیں مختلف بڑی پارٹیوں کے امیدوار کے طور پر سامنے ہیں جس پر آرائیں برادری کا ووٹ تقسیم ہوتا نظر آتا ہے دونوں امیدوار چودھری منیب الحق اور چودھری سلیم صادق کامیابی کے لئے اپنی آرائیںبرادری کے علاوہ دیگر پارٹیوں کی حمایت کا دعوی کرتے نظر آتے ہیں کامیابی کس کا مقدر بنتی ہے اس کے لئے 25جولائی کا انتظار شدت سے اِنکے ووٹر اور سپورٹر کرتے نظر آتے ہیں۔