تحریر: روشن خٹک صحافیوں سے متعلق عموما یہ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ وہ تنقید زیادہ کرتے ہیں، تعریف کم کیا کرتے ہیں۔لیکن سچی بات ہی ہے یہ خیال درست نہیں، توصیف کی تعریف ضرور کی جاتی ہے مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ، ہماری سیاست اور ہماری سماج میں توصیف کا پہلو کم کم ہی پایا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے اہلِ قلم حضرات کا قلم بھی تعریف کے پل باندھنے کی بجائے تنقید کی طرف زیادہ جھکتا ہے۔چند روز پہلے جماعتِ اسلامی نے اضاخیل کے قریب پندرہ سو کنال پر مشتمل ایک وسیع و عریض میدان میں ایک اجتماعِ عام کا اہتمام کیا تھا۔ یہ اجتماع یقینا تعریف کے قابل تھا ، ایک اندازے کے مطابق پچاس ہزار سے زائد خواتین اور ایک لاکھ سے زائد مردوں نے اس میں شرکت کی۔
جنوبی وزیرستان سے لے کر چترال تک کے لوگ اس میں شریک تھے۔اتنے بڑے اجتماع کے لئے خوراک، پانی،بیت الخلاء اور طبّی امداد جیسے سہولتوںکا اہتمام کرنا یقینا کو ئی آسان کام نہیں تھا۔جماعتِ اسلامی کے خیبر پختونخوا کے آمیرمشتاق احمد خان سے ایک ملاقات میں ہم نے پوچھا کہ اتنے بڑے اجتماع کے لئے بڑی رقم درکار ہو تی ہے،وہ رقم کہاں سے آئی اور اجتماع کا مقصد کیا تھا ؟ انہوں نے بتایا کہ اس اجتماع پر تقریبا پانچ کروڑ روپے کا خرچہ آیا ۔اس کا بندبست یوں کیا گیا تھا کہ ہم نے اس اجتماع سے قبل یونین کونسل، تحصیل کو نسل اور ضلع کونسل سطح پر کنونشن منعقد کئے گئے تھے جس میں چھوٹی بڑی رقم کے کوپن فروخت کئے گئے تھے اور اس طرح پارٹی کے کارکنوں سے یہ رقم جمع کی گئی تھی۔
اس اجتماع کا مقصد کیا تھا؟ اس پر گفتگو کرتے ہو ئے مشتاق احمد خان نے کہا کہ ہمارے صوبہ خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کی وجہ سے ایک گھٹن کی فضا ہے، لو گ خوف زدہ ہیں۔ایسے حالات میں یہ اجتماع نہ صرف یہ کہ زہنی اور رووحانی تسکین حاصل کرنے کا ذریعہ بنا بلکہ ہم نے خیبر پختونخوا کے عوام کو یہ پیغام دیا کہ اللہ تعالیٰ نے خیبر پختونخوا کو ان نعمتوں سے نوازا ہے جس طرح سعودی عرب کی سر زمین اللہ کی نعمتوں سے مالامال ہے۔مثلا پورے ملک کے اندر پن بجلی پیدا کرنے کی لگ بھگ 70فی صد پو ٹیشنل خیبر پختونخوا میں ہے ۔تقریبا چالیس ہزار میگاواٹ نہایت سستی بجلی خیبر پختونخوا میں آسانی سے پیدا کی جا سکتی ہے۔ایک معروف انجنیرنگ فرم کے محتاط اندازے کے مطابق صرف ایک ہزار میگاواٹ پن بجلیپیدا کر کے صوبہ خیبر پختونخوا سالانہ 30ارب روپے کما سکتا ہے۔50سے 60 بلین ڈالر گیس کے ذخائر اس کے علاوہ ہیں۔
تیل کے ذخائر سے سالانہ 600 ملین بیرل تیل پیدا کیا جا سکتا ہے۔ہمارا صو بہ ملک کے زرخیز ترین علاقوں مین شامل ہے، جس میں زراعت، بالخصوص جنگلات اور لائیو سٹاک کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ہمارا صوبہ غیر معمولی کشش رکھتا ہے،اگر سیاحت کے مناسب اقدامات کئے جائیں تو یہاں کئی ملین دالر کی سرمایہ کاری کی جا سکتی ہے۔خیبر پختونخوا میں تیل اور گیس کے ذخائر کے علاوہ کئی معدنیخزانے پو شیدہ ہیں ، جس میں زمرد ، سنگِ مر مر، لو ہا، کو ئلہ، یو رینیم قا بلِ ذکر ہیں ، جن سے صوبے کو کئی بلین ڈالر کی آمدنی مِل سکتی ہے۔
Khyber Pakhtunkhwa
انسانی وسائل سے بھی یہ صوبہ مالا مال ہے۔ اس وقت خیبر پختونخوا کے تقریبا بیس لاکھ افراد بیرونِ ملک بر سرِ روزگار ہیں اور پورے ملک کے غیر ملکی زرِ مبادلہ کی کمائی میں 60فی صد حصہ خیبر پختونخوا کے لو گوں کا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کے باوجود خیبر پختوا کے عوام بے شمار مسائل سے دو چار ہیں ۔جس میں غربت، ناخواندگی، بیماریاں، بے روزگاری، لا قانو نیت، بد عنوانی، اقرباء پروری اور بے انصافی سرِ فہرست ہیں۔پاکستان کے دیگر صوبوں کے مقابلہ میں صوبہ خیبر پختونخوا کئی حوالوں سے زیادہ پسما ندہ ہے۔
مثلا کنشوریم فار ڈیولپمنٹ پالیسی ریسرچ کے حالیہ رپورٹ کے مطابق ہماری اوسط فی کس آمدنی دیگر صوبوں کے مقابلہ میں دس فی صد کم ہے۔جبکہ چاروں صوبوں کے مقابلہ میں ہمارے صوبے میں ملازمت سے وابستہ افراد کی شرح بھی سب سے کم ہے۔یہی صورتِ حال صوبے کے اندر غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد کی بھی ہے جو قومی اوسط سے بہت زیادہ ہے۔
انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس اجتماع کا مقصد خیبر پختونخوا کے لو گوںکوان باتوں سے آگاہ کرنا اور اپنی پارٹی کی ویژن اور آئیندہ کے لائحہ عمل کے متعلق وضاحت کرنا مقصود تھی۔
بحر حال اس اجتماع سے ایک بات اظہر من الشمش ہے کہ جماعتِ اسلامی ایک منظم اور آئیندہ کے لئے ایک مناسب پلان رکھنے والی جماعت ضرور ہے۔ البتہ یہ تو آنے والا وقت بتائیگا کہ آئیندہ عام انتخابات میں عوام انہیں کتنا مینڈیٹ دیتی ہے اور ان کی کو ششیں کتنی بار آور ثابت ہو تی ہیں۔!!!!!!