اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستان کے وفاقی دارالحکومت کے جڑواں شہر راولپنڈی میں فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کے حق میں ایک مرتبہ پھر بینرز آویزاں کیے گئے ہیں۔
ان بینرز میں سیاسی جماعتوں سے کہا گیا کہ آئین میں سرکاری ملازمین کے سیاست میں حصہ لینے پر پابندی کی مدت 2 سال سے کم کر کے ایک سال کی جائے تاکہ 2018 کے عام انتخابات میں راحیل شریف حصہ لے سکیں۔ یہ بینرز ایک غیر معروف عوامی مانٹیرنگ سیل (راولپنڈی) کے ترجمان شیخ امجد علی کی طرف سے لگائے گئے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل بھی ملک کے مختلف شہروں بشمول وفاقی دارالحکومت میں ایسے پوسٹر یا اشتہارات آویزاں کیے گئے تھے جن میں بظاہر فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کو ملک کا اقتدار سنبھالنے کی دعوت دی گئی۔ وہ اشتہارات بھی ایک غیر معروف جماعت ’’موو آن پاکستان‘‘ کی طرف سے آویزاں کیے گئے تھے۔
جن پر فوج کے ترجمان نے لفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ نے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ’’ٹوئیٹر‘‘ پر ایک پیغام میں یہ وضاحت کی تھی کہ فوج کے سربراہ کے حوالے سے لگائے گئے پوسٹرز سے ’’فوج یا اس سے وابستہ کسی شعبے کا کوئی تعلق نہیں ہے۔‘‘
لیکن نئے پوسٹرز کے بارے میں نا تو فوج اور نا ہی حکومت کی طرف سے فوری طور پر اس بارے میں کوئی ردعمل سامنے آیا ہے۔ یہ پوسٹرز ایسے وقت آویزاں کیے گئے جب ملک میں سیاسی کشیدگی جاری ہے اور وزیراعظم نواز شریف کو ملک کی اپوزیشن جماعتوں خاص طور پر تحریک انصاف کی طرف سے شدید تنقید کا سامنا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ جنرل راحیل کی مدت ملازمت رواں ماہ کے اختتام پر ختم ہو رہی ہے۔
ملک میں جمہوریت کے فروغ کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’پلڈاٹ‘ کی عہدیدار آسیہ ریاض نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اس وقت کے قوانین کے مطابق سرکاری ملازمت کی مدت کے خاتمے کے بعد اگر کوئی شخصیت سیاست میں حصہ لینے کی خواہمشند ہو تو اُسے دو سال تک انتظار کرنا پڑے گا۔
’’جنرل راحیل شریف جس وقت اپنی مدت ملازمت سے ریٹائرڈ ہو جائیں گے، پاکستان میں ہر شہری کو سیاسی سرگرمی کی اجازت ہے وہ اپنی سیاسی جماعت بھی بنا سکتے، وہ انتخاب بھی لڑ سکتے ہیں۔ لیکن وہ اپنی مدت ملازمت کے ختم ہونے کے دو سال بعد ہی یہ کر سکتے ہیں۔‘‘
تجزیہ کار تسنیم نورانی کہتے ہیں کہ کسی ایک شخصیت کے لیے مدت ملازمت کے بعد دو سال تک سیاست میں حصہ نا لینے کی شرط ختم کرنے کی کوشش مناسب نہیں ہو گی۔ ’’میرے خیال کسی ایک شخصیت کے لیے رعایت یا چھوٹ کا دفاع کرنا بڑا مشکل ہو گا۔‘‘
پاکستان میں حالیہ مہینوں میں یہ خبریں منظر عام پر آتی رہیں کہ بعض معاملات پر وزیراعظم نواز شریف اور عسکری قیادت کے درمیان اختلاف ہے۔ تاہم حکومت کی طرف سے ایسی قیاس آرائیوں کی سختی سے تردید کی جاتی رہے۔