تحریر : مسز جمشید خاکوانی ہمارے سپہ سالار جنرل راحیل شریف نے پاک بھارت سرحد پر اگلے مورچوں کا دورہ کیا پاک فوج کے جوان اپنے سپہ سالار کو اپنے درمیان دیکھ کر ہی شاداں و فرحاں ہو جاتے ہیں ان میں جوش کی ایک لہر دوڑ جاتی ہے جبکہ بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ سیکورٹی انتظامات کا جائزہ لینے فوجیوں کے کیمپ پہنچے تو انہیں شدید مایوس اور متفکر لوٹنا پڑا بھارتی فوجیوں نے انہیں اپنے درمیان پا کر شکائیتوں کے انبار لگا دیئے ان کو گلہ تھا کہ نہ پینے کا پانی ملتا ہے (نہانے کا شائد انہیں شوق نہیں ہے) نہ پہننے کو کپڑے ،وردی پہنے پہنے جسم میں کیڑے پڑ جاتے ہیں انہیں کیموفلاج یونیفارم بھی چبھ رہی تھی جس سے وہ بیزار ہیں کہ اس یونیفارم کی وجہ سے انہیں جلدی بیماریاں ہو رہی ہیں۔
ہم انسانی ہمدردی کے ناطے بھارتی فوجیوں سے ہمدردی رکھتے ہیں کیونکہ ان میں نہ تو جذبہ شوق شہادت ہے کہ جس کی وجہ سے ایک مسلمان فوجی ہر کٹھن راہ سے بخوشی گذر جاتا ہے بلکہ ایک ریٹائر فوجی بھی اس جذبے کے زیر اثر ہر وقت ملک کی حفاظت کے لیے سینے پہ گولی کھانے کو تیار رہتا ہے ہم نے تو یہ بھی سنا ہے کہ پچیس ہزار ریٹائر فوجی ہر لمحہ سر بکف رہتے ہیں حتی کہ وہ بھی جو اپاہج ہو چکے ہیں لیکن صرف تنخواہ کے لیے لڑنے والا فوجی اس معراج کو نہیں پہنچ سکتا لہذا کیڑے تو پڑیں گے بھارت اپنے لوگوں میں جنگی جنون تو پیدا کر سکتا ہے جذبہ حریت نہیں ایک کبوتر بھی ان کے لیے کافی ہے بھارتی چینل اے بی پی کی ایک مضحکہ خیز رپورٹ کے مطابق پاکستانی کبوتر سلاخوں کے پیچھے قید ہو کر بھی سلاخوں کے درمیان سے ہر اس جگہ پہ نظر رکھے ہوئے ہے جہاں زرا سا بھی ہجوم ہو بھارت کو شکایت ہے کہ پاکستان امن و آتشی کے پیامبر پرندوں کو نفرت اور دہشتگردی کے لیے استعمال کر رہا ہے۔
Indian Army
انڈین ایکس پریس کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق پاک بھارت سرحد سے چار کلو میٹر کے فاصلے پر واقع گائوں منووال میں مٹی اور گارے سے بنے ایک گھر میں ایک کبوتر نے لینڈ کیا جس کے پائوں کے ساتھ ایک تار نما آلہ بندھا تھا کبوتر کے پیر سے بندھے اس آلے پر انگریزی میں شکرگڑھ اور نارووال کے الفاظ لکھے تھے اور ساتھ ہی اردو زبان میں بھی کوئی پیغام درج تھا (اردو زبان بھارت میں آسانی سے سمجھی جاتی ہے وہ بھی پڑھوا لیتے کوئی ہندی سنکسرت کے الفاظ تو نہیں تھے ) بحر حال اس گھر کے مالک کے چودہ سالہ بیٹے کو جس نے یہ کبوتر پکڑا یہ پیغام دیکھ کر تشویش ہوئی اور اس نے قریبی پولیس اسٹیشن کو اطلاع دی جو اس کبوتر کو اپنی تحویل میں لے کر جانوروں والے ڈاکٹر کے پاس لے گئے جہاں کبوتر کا ایکسرے اور طبی معائنہ ہوا جس میں کبوتر کے دل گردے آنتوں کے سوا کچھ نہیں نکلا لیکن پھر بھی کبوتر کو سلاخوں کے پیچھے پہنچا دیا گیا ہے ایس ایس پی راکیش کوشال کے مطابق کوئی منفی بات معلوم نہیں ہو سکی تاہم کبوتر کو ہم نے تحویل میں لے لیا ہے یہ ہے حال دنیا کی اس سب سے بڑی جمہوریت کہالانے والے ملک کا جو ایک کبوتر سے ڈرتے ہیں مگر نہتے کشمیریوں پر ظلم کی انتہا سے نہیں ڈرتے انہوں نے چوبیس سال سے محترمہ آسیہ اندرابی کے شوہر کو جیل میں رکھا ہوا ہے پاکستانی قوم آسیہ اندرابی کو اس حوالے سے جانتی ہے کہ وہ ہر سال چودہ اگست کو مقبوضہ جموں و کشمیر کے شہر سرینگر میں پاکستانی پرچم لہراتی ہیں لیکن ان کے خاندان کی قربانیوں کو کوئی نہیں جانتا عاشق حسین فاکتو آسیہ اندرابی کے شوہر ہیں۔
انکی شادی 1990میں ہوئی 1992میں عاشق حسین فاکتو کو قتل کے ایک جھوٹے مقدمے میں گرفتار کر لیا گیا ان کے ساتھ ان کی بیوی اور چھ ماہ کے بچے کو بھی گرفتار کیا گیا جن کو 1995میں رہا کر دیا گیا لیکن عاشق حسین فاکتو جنھیں چودہ سال عمر قید کی سزا ہوئی تھی چوبیس سال جیل کاٹنے کے بعد بھی ہنوز جیل میں ہیں آسیہ اندرابی بھی گاہے بگاہے گرفتار اور رہا ہوتی رہی ہیں لیکن دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے دعوے دار بھارت نے عاشق حسین فاکتو کو رہا نہیں کی یاد رہے یہ وہی بھارت ہے جس نے جنوبی افریقہ کے بنیلسن منڈیلا کو ستائیس سال جیل کاٹنے پر ”حریت پسند ” کا خطاب دیا تھا لیکن وہ فاکتو کو مسلسل قید میں رکھے ہوئے ہے عاشق حسین فاکتو نے جیل میں رہتے ہوئے اسلامک سٹڈیز میں نہ صرف پی ایچ ڈی کر لی ہے بلکہ 125قیدیوں کو گریجویشن بھی کرائی ہے۔
Kashmir Issue
فاکتو مقبوضہ جموں و کشمیر بلکہ جنوبی ایشیا میں سب سے لمبی قید کاٹنے والے سیاسی قیدی ہیں ایک ہمارے سیاسی قیدی بھی ہوتے ہیں جو کرپشن اور بد عنوانی کے الزام میں جیل جاتے بھی ہیں تو چار دن بعد وکٹری کا نشان بناتے حواریوں کے جلو میں پھولوں کے ہار پہنے برامد ہوتے ہیں اور صلے میں کوئی بڑا عہدہ پاتے ہیں لمیاں کمائیاں تے لمے عیش ،کاش یہ بھی جمہوریہ بھارت میں ہوتے کہ گل سڑ کے نکلتے لکن ہماری ایسی قسمت کہاں ابھی کچھ دن پہلے میرا ایک کالم ”جب تک ہم خود انصاف نہیں کریں گے ” چھپا ہے جس پر بھارت کے کے ایک معزز مسلمان شہری نے مجھ سے سوال کیا کہ کیا پاکستان کی یہی تصویر ہے ؟ میں نے انہیں لکھا کہ محترم ہم آج کل انڈیا کی تہذیب اپنائے ہوئے ہیں بھارت کی چھتری پر ہمارا ایک کبوتر لینڈ کر جائے تو بھارتی تشویش میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
ہماری تو ایک پوری نسل ان چھتریوں پہ جوان ہوئی جو انٹینے کی صورت اور کیبل کی صورت گھر گھر لگے ہوئے ہیں جہاں پر آپ کا میڈیا لینڈ کرتا ہے گھر گھر بھارتی فلمیں ،بھارتی ایکٹر ،بھارتی گانے ،بھارتی کارٹون ہماری نسلوں کی تربیت کر رہے ہیں ورنہ اس سے پہلے ہمارے گھروں میں سور اور حرامزادہ کہنے والا کوئی نہ تھا ٹھونکنا اور بھونکنا یہ انڈیا کی لینگوج ہے جو اب ہماری روز مرہ کی گفتگو میں شامل ہوتی ہے جنگ اور جیو گروپ نے ہماری تہذیب بدل دی ہے وہ پاکستان میں آپ ہی کی تہذیب کو فروغ دے رہا ہے وہ تہذیب جو بے حیائی کو اعتماد ،بد لحاظی کو سچ اور بد کرداری کو آزادی کا نام دیتی ہے ،کاش ہم وہی پینڈو جاہل ہی رہتے اب تو نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے۔