بارک اوباما نے جب پہلی بار امریکہ کے صدارتی انتخاب میں حصّہ لیا تو مسلمان بہت خوش تھے کیونکہ اوباما کے نام کے ساتھ حسین کا ”لاحقہ”بھی لگا ہواتھا اور دنیابھر کے مسلمان یہی سمجھتے تھے کہ بارک حسین ”اندر کھاتے”مسلمان ہی ہیں۔اسی لیے مسلمانوں نے”چوری چوری” اُن کی کامیابی کی دعائیں بھی بہت کیں۔ امریکی صدربننے کے بعدجب اوباما نے پَرپرزے نکالنے شروع کیے تو مسلمانوں کوپتہ چلاکہ وہ تو اسلام دشمنی میں جارج ڈبلیوبُش سے بھی دوہاتھ آگے ہیں ۔اب محترم حامدمیر نے اپنے کالم میں یہ چونکا دینے والا انکشاف کیا ہے کہ بھارت کے نئے” فطری اتحادی” تو ہنومان(بندر) کے بھگت ہیں اور اسی کی پر اتھنا بھی کرتے ہیں۔
بطور ثبوت اوباما نے صحافیوں کو اپنی جیب سے ہنومان کی مورتی نکال کربھی دکھا دی تاکہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آئے۔اب اصولاََ تو ہنومان کے اِس بھگت کانام ” لالہ بارک حسین اوباما مسیح”ہونا چاہیے لیکن ہوسکتا ہے کہ اُنہوںنے ابھی اپنے نام کے ساتھ یہودیت کا”تَڑکہ”بھی لگاناہو اِس لیے وہ پرانے نام پرہی اکتفا کررہے ہوں۔ اوباما نے بھارت پر نوازشات کی بارش کرتے ہوئے ”ہندولالوں”کا جی خوش کردیا لیکن امریکہ کی تاریخ تویہی بتاتی ہے کہ یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے ہوئے تم دوست جس کے دشمن اُس کا آسماں کیوں ہو
بھارت کو ہنومان کا بھگت مبارک ہو اور پاکستانی قوم کو زیادہ مبارک باد کیونکہ اب اُمید ہوچلی ہے کہ ہماری جان ہمارے اِس ”سٹریٹجک پارٹنر ”سے جلد چھوٹ جائے گی اورہم بھی سُکھ ک اسانس لے سکیں گے ۔خیال تویہی تھاکہ صرف ہم ہی یوٹرن کے ماہر ہیں لیکن اوباما تو ہمارے بھی استاد نکلے۔ اُنہوں نے بھارت جاتے ہی” مذہبی یوٹرن” لے کر ثابت کر دیا کہ اِس معاملے میںاُن کاکوئی ثانی نہیں۔ شایدیہ مغرب کی ہواؤں کا اثرہو کہ ہمارے اپنے الطاف بھائی بھی آئے روز یوٹرن لیتے رہتے ہیں اور مغرب کی فضاؤں میں عمرِ عزیز کا ایک حصّہ گزارنے والے عمران خاں بھی۔
لندن میں بیٹھے الطاف بھائی گزشتہ کئی روزسے باربار مارشل لاء کامطالبہ کررہے تھے ۔وہ کبھی جنرل راحیل شریف سے ملک میںمارشل لاء کا مطالبہ کرتے اورکبھی وزیرِاعظم صاحب سے استدعاکرتے کہ سندھ میں مارشل لاء لگا دیا جائے لیکن 29 دسمبر کو اپنی تین گھنٹوں پر محیط تقریر میں اُنہوں نے یوٹرن لیتے ہوئے فرمایا کہ آئی ایس آئی اور رینجرز میں بہت سے لوگ اُن کے خلاف ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کو ایم کیوایم توقبول ہے، الطاف حسین نہیں اِس لیے وہ 30 دسمبر کو حیدرآباد میں قائم کی جانے والی ”الطاف حسین یونیورسٹی”کی افتتاحی تقریب کے موقعے پراپنی سیاست کی اختتامی تقریر فرمائیں گے جس کے بعداُن کا ایم کیوایم سے کوئی تعلق نہیں رہے گا۔ الطاف بھائی اِس سے پہلے بھی کئی بار ایم کیو ایم کی قیادت چھوڑنے کی ”پھوکی”دھمکیاں دے چکے تھے۔
اُن کی یہ دھمکی بھی”پھوکی”ہی نکلی اوروہ ایک دفعہ پھر”پبلک کے پُرزوراصرار پر ”ایم کیوایم کی قیادت سنبھالنے کے لیے تیار ہوگئے ۔ویسے ایم کیوایم کے اکابرین اگر جی کڑا کرکے ایک بار الطاف بھائی کوکہہ دیتے کہ واقعی وہ ایم کیو ایم کی قیادت کرتے کرتے تھک بلکہ ”ہپھ”چکے ہیںاِس لیے ایم کیوایم اُن پرمزید بوجھ ڈال کر اُنہیں پریشان نہیں کرنا چاہتی۔ وہ آرام کریں کیونکہ اب اُن کے آرام کرنے کے دن ہی ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ جواباََ الطاف بھائی یہی کہتے ”میں تو مخول کررہا تھا تُم نے سچ ہی جان لیا”۔لیکن بیچاری ایم کیوایم میں اتنی ہمت کہاں۔
Pervaiz Rashid
ہمارے کپتان صاحب بھی یوٹرن کے ماہر سمجھے جاتے ہیں ۔وہ چھوٹے بڑے یوٹرن لیتے ہی رہتے ہیں ۔ابھی حال ہی میںاُنہوںنے قومی اسمبلی کے حلقہ 122 کے تحقیقاتی کمیشن کے خلاف ایک بڑا یوٹرن لیتے ہوئے اُس پر عدمِ اعتماد کا اظہار کر دیا حالانکہ وہ باربار اسی تحقیقاتی کمیشن پراندھے اعتمادکا اظہار کرتے رہے اور اسی تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ پر وزیرِ اطلاعات پرویز رشید صاحب اورخاںصاحب کی چشمک بھی جاری رہی ۔یہ چھوٹے بڑے یوٹرن تواپنی جگہ لیکن اب اُنہوں نے ایک یوٹرن ایسابھی لیاجس کی ”اہمیت”کو مدِنظر رکھتے ہوئے اُن کانام گینزبُک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل ہونا ضروری ہے ۔آپ کویاد ہوگا کہ اسلام آباد کے ڈی چوک کے دھرنوں کے ابتدائی ایام میں ہی خاںصاحب نے اپنے چاہنے والوں اور” والیوں”کو سول نافرمانی کاحکم نامہ جاری کیا تھا۔
سول نافرمانی کی کال توبری طرح پِٹ گئی اورتحریکِ انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی تک نے بھی اسے درخورِ اعتنا نہ سمجھا لیکن کپتان صاحب ڈٹے رہے لیکن جب اُن کی شادی ”خانہ آبادی”ہوئی تو اُنہوں نے بھی اپنے بنی گالہ والے محل کا لاکھوں روپے کا بجلی کابل ادا کرکے اپنے ہی ہاتھوں اپنی سول نافرمانی کو ہوامیں اُڑا دیا ۔جب ایک صحافی نے اِس بارے میں سوال کیاتو خاں صاحب نے فرمایا”میں تو ٹھنڈے پانی سے نہا سکتاہوں لیکن میری بیوی اور گیارہ سالہ بچی نہیںنہا سکتیں اِس لیے مجبوراََ بجلی کابِل ادا کرنا پڑا۔ یہ غالباََ انسانی تاریخ کی سول نافرمانی کی پہلی کال تھی جسے ایک خاتون کے قدموں پہ نچھاور کردیا گیا سچّے عاشقوں کو تو یہی کہتے سنا گیاہے کہ ”رکھ دیا قدموں میں دل نذرانہ، قبول کرلو”لیکن ہمارے کپتان صاحب نے ہماری بھابی کے قدموں میں سول نافرمانی رکھ کے ایسی انوکھی اور نرالی مثال قائم کی ہے جسے رہتی دنیاتک یاد رکھا جائے گا۔
ایک یوٹرن ہمارے پیارے مرنجاں مرنج گورنر پنجاب چودھری محمد سرور نے بھی لے لیا یہ بھی غالباََ مغربی فضاؤں کا ہی اثرتھا کیونکہ چودھری صاحب تواپنی عمرِ عزیز کا غالب حصّہ انگلینڈمیں گزار کر پاکستان تشریف لائے اور گورنری کا منصب سنبھالا ۔وہ جاتے جاتے حکومت کو”چارج شیٹ” کرتے ہوئے کہہ گئے کہ پاکستان میںسچ کا قحط ہے اور یہاں توقبضہ گروپ بھی گورنرسے مضبوط ہیں۔ دراصل چودھری صاحب کے اندرکچھ نہ کچھ کرگزرنے کی اُمنگ جواںتھی لیکن وہ اُتنے ہی بے اختیارتھے جتنی کہ ملکہ برطانیہ ۔عقیل وفہیم چودھری صاحب کو گورنری کا عہدہ سنبھالنے سے پہلے ہی یہ سوچ لینا چاہیے تھا کہ پاکستان میںصدر اور گورنر کاعہدہ” علامتی” اور مکمل طورپر بے اختیار ہوتا ہے۔ اگر چودھری صاحب نے گورنری سے لطف اندوز ہونا تھاتو پھر وہ ”دَورِآمریت”میں یہ عہدہ سنبھالتے کیونکہ پاکستان میں تو صرف دَورِ آمریت میں ہی سارے اختیارات صدراور گورنرز کو منتقل ہوا کرتے ہیں
جمہوری دَور(خواہ وہ کیساہی کَٹا پھٹا کیوںنہ ہو) میںتو یہ عہدہ بس ”ایویں ای ہوتا ہے۔ہمارے چودھری صاحب کے ساتھ توایک ”ہَتھ”یہ بھی ہواکہ اُن کا”مَتھا” میاں شہباز شریف جیسے وزیرِاعلیٰ سے لَگ گیاجو اِرتکازِ اختیارات کوہی اپنی زندگی کا محور و مرکز سمجھتے ہیں۔بھلے وہ دوچار وزارتیں بانٹ بھی دیں لیکن اُن کے اختیارات بھی اپنے ہاتھ میں ہی رکھتے ہیں۔ چودھری صاحب کو اِس کا ادراک تو دوچار ماہ میں ہی ہوگیا تھا اور اسی وقت سے وہ ”پھُر”ہوجانے کے لیے پَربھی تول رہے تھے لیکن شاید اُن کی طبعی شرافت آڑے آتی رہی اوروہ اتنا عرصہ نکال گئے۔