جنرل راحیل شریف اور موجودہ سیاسی خلائ

Raheel Sharif

Raheel Sharif

تحریر: مبشر ڈاہر۔ الریاض سعودی عریبیہ
اسی ماہِ نومبر 2016 ء میں سپہ سالار پاک فوج جنرل راحیل شریف کی افواجِ پاکستان کے ساتھ 40 سالہ رفاقت اختتام پزیر ہو رہی ہے ۔جنرل راحیل شریف نے افواجِ پاکستان کی پہلے سے مضبوط اور مستحکم فنی اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کووہ جہت اور جدت بخشی ہے کہ جس نے افواجِ پاکستان کو اقوامِ عالم کی شماریات میں اولیں درجوں پر فائز کر دیا ہے ۔گو کہ پاکستان کے دفاعی اداروں اور حکومتی ایوانوں اوران کے ذیلی اداروں دونوں کی عمر ایک جتنی ہی ہے لیکن اقوامِ عالم سے مقابلہ میں دفاعی اداروں کی گنتی بدنریج بہتر ہوتی گئی اور ان کے سربراہوں نے پیشہ ورانہ مہارت، محنت ، لگن، اور جذبہ حب الوطنی سے سرشار ہو کر اپنے اداروں کو مضبوط سے مضبوط تر بناتے گئے یہاں تک کہ یہ ادارے اقوامِ عالم سے مقابلہ کی درجہ بندی میں ٹاپ ٹین کی پوزیشن پر براجمان ہوگئے ہیں۔ جب کہ دفاعی اداروں کے متوازی حکومتی ایوانوں اور ان کے متعلقہ ادارے اتنی ہی عمر ہونے کے باوجود دنیا کے بدترین اداروں میں شمار کیے جاتے ہیں،ہمارے حکومتی ادارے دنیا کے بدترین حکومتی اداروں کی درجہ بندی میں ٹاپ ٹین کی پوزیشن پر جلوہ افروز ہیں، مقننہ ہویا اس کے ذیلی ریاستی ادارے انتظامیہ ہو یا اس کے انتظامی ادارے عدلیہ ہو یا اس کے ماتحت ادارے سب کی درجہ بندی اقوامِ عالم سے مقابلہ میں بدترین شمار کی جاتی ہے ۔گو کہ ہر طرف نااہلی، رشوت ستانی اورگراوٹ کی دوڑ لگی ہوئی دکھائی دیتی ہے ۔ فوجی اداروں کے سربراہ اور ماتحت عملہ فنی و تکنیکی اعتبار سے پروفیشنل ہوتا ہے جبکہ حکومت اداروں میں ہمیشہ نام نہاد تجربہ کاروں کی بھرمار رہی ہے ۔

ایوان اقتدار پر جمہوریت کے نام پر قابص پانامِ زمانہ شریفوں سے عوام بے حد نالاں ہے ۔ یہ ہر کام کو کاروباری نظریے سے دیکھتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کو عوام مسترد کر چکے اپنے سابقہ دورِ حکومت میں جو حال وطنِ عزیز کا ” زرداری بمعہ حواریوں” نے کیا ہے ایسا تو کبھی ازلی دشمن بھارت بھی نہیں کر سکے گا۔ خیر پیپلز کو عوام مسترد کر چکی ہے سندھ میں انہوں نے ایک دوسرے کے ساتھ جرابیں بدلنے والے قصے کی مصداق وزیر اعلی تو بدلا ہے لیکن اس تبدیلی کے ساتھ نئے سائیں مرادعلی شاہ کے حالات تو کافی بدلے دکھائی دیتے ہیں لیکن عوام کے سر پر وہی منہوس مسائل کے گھمبیر سائے دکھائی دیتے ہیں۔تعویز، گنڈوں سے تو یہ گھنے اور منہوس سائے اترتے دکھائی نہیں دیتے ۔ان کے لیے ڈاکٹر طاہرالقادری والی ”بڑی جراحت” در کار ہے ۔کیااتنی بڑی جراحت اکیلے طاہر القادری کے بس کی بات ہے ? ۔ بالکل بھی نہیں۔ عمران خان بھی اتنے بڑے سیاسی خلا کو پرکرنے میں ابھی تک تو ناکام و نامراد ہی دکھائی دیتے ہیں ۔ اور پینترے پہ پینترہ بدل رہے ہیں۔ کہ شاید اب کے برس اقتدار کی منڈلاتی ہما ان کے سرپر ہی بیٹھ جائے ۔لیکن ان کے تمام کرتب پرانے ”سیاسی قلندروں” کے سامنے فیل ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ایم کیو ایم نے خوداپنے ہاتھوں سے اتنی دامن دریدی کر لی ہے اسے اس دریدہ دامنی کی بخیہ گری کے لیے بھی آٹھ دس سال درکار ہوں گے ۔

Chair

Chair

حکمران و حزبِ اختلاف مافیہ طاقت کے نشے میں بدمست” کرسی ،کرسی” کھیل رہے ہیں۔ قومی ”شرینی” کے اندھے تقسیم کاروں کے مابین اقرباء پروری کی مقابلے چل رہے ہیں۔ قومی ادارروں کی پارلیمنٹ کے نیلام گھر میں نیلامی چل رہی ہے ۔نااہلی کے ایوارڈ یافتہ، ٹیڑھے آنگن کا رونا روتے یہ قومی ناچ کار، کاسہ لیسی کو ترک کرنے کے نام پر عوام سے ووٹ لینے والے ،کاسہ لیسی اور قرض منظوری پر بغلیں بجاتے دکھائی دیتے ہیں۔ قومی جائیدادیں اقوامِ عالم کے ہاں گروی رکھی جارہی ہیں۔اقتدار کے نام پر ایسا پتلی تماشہ دکھایا جا رہا ہے جس میں آئے روز تماشائیوں کوہی تماشہ بنا کر ان سودا کر دیا جاتا ہے ۔ایسے میں ہم عوام ” کسے وکیل کریں ۔ ۔ ۔ کس سے منصفی چاہیں” دعوؤں اور وعدوں کے ا س گورکھ دھندے نے عوام مجموعی سوچ کو شل اور فکر کو مفلوج بنا کررکھ دیا ہے ۔ نہ خوفِ خدا ہے نہ ہی عوامی خدمت کا جذبہ۔ ۔

خیر اپنی ان تمام تر نااہلیوں کے متوازی موجودہ حکومتی حلقوں اور حکومتی پارٹی کے میڈیا سیل کی جانب سے جنرل راحیل شریف کے خلاف کافی عرصے سے ایک منظم مہم آرائی کی جارہی تھی کہ وہ مدت میں توسیع کے خواہش مند ہیں۔لیکن جنرل راحیل شریف نے ایک مناسب موقع اس کی تردید کر کے نہایت دانشمندی کا مظاہرہ اور خاندانی سپہ گری کی خدمت کے تسلسل کو توسیع دی اور خواہشات اور سازشوں کے غبارے سے ہوا کھینچ لی۔

بلاشبہ جنرل راحیل شریف کو قوم نے جو قبول عام دیا ہے وہ آج تک کی تاریخ میں کسی پاکستانی سپہ سالار کو نہیں ملا۔جنرل راحیل شریف قومی خدمت کے جذبے سر شار ہیں اسی بنیاد پردہشت گردی کے مخالف جنگ میں جہاں پوری دنیا ان کی خدمات کا اعتراف کرتی دکھائی ہے وہی پاکستانی قوم کا ہر فرد جنرل راحیل شریف کو ایک جانثارِ مادرِ وطن کے طور پر جانتا ہے ۔ جنرل راحیل شریف کی قیادت میں افواجِ پاکستان نے گراں قدر قومی خدمات سر انجام دی ہیں، دہشت گردی خلاف جنگ ہو یا کراچی کے حالات کے تناظر میں شروع کردہ کراچی آپریشن ، دہشت گردوں کے حواریوں اور حامیوں کی نشاندہی ہو یا پھر بھارت کی گیدڑ بھبکیوں کے جواب میں للکار ہو ،تمام تر معرکوں میں جنرل راحیل شریف نے قوم کی بہترین ترجمانی کی ہے ۔یہاں تک کہ اسلام آباد میں طاہرالقادری کے دھرنے کو ختم کرنے اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ایف آئی آر درج کروانے ،کرپشن کے خلاف حکومت پر دباؤ بنائے رکھنے میں بھی جنرل راحیل شریف کا کردار نمایاں ہے ۔دہشت گردی کے خلاف جاری عالمی جنگ میں سپہ سالارِ صفِ اول کی حیثیت کے ساتھ شمولیت اور ملکی سالمیت کو درپیش چیلنجوں کے خلاف موثر اور بہترین فوجی حکمت عملی اپنانے پر اقوامِ عالم جنرل راحیل شریف کو سالِ 2015 ء اور 2016 ء کا بہترین آرمی چیف گردانتی ہیں۔

Raheel Sharif

Raheel Sharif

سپہ سالاروں کی سیاسی دانشمندی تو مسلمہ حقیقت ہے ۔ تاریخ ایسے حقائق سے بھری پڑی ہے کہ فوجی سپہ سالاروں بروقت سیاسی دانشمندی کا مظاہرہ کر کے ملک وملت بڑھوتری کی طرف گامزن کیا ہے ۔اس کی سب سے بڑی مثال جنرل مصطفی کمال ہے جسے آگے چل کر ترکوں نے ”اتاترک” کے خطاب سے نوازا۔اسی طرح جدید کشت وخون کے بانی ہٹلر کے مقابل آنے والے فرانسیسی جرنل ڈیگالے کو بھی دنیا ایک مدبر اور دانشمند فوجی سپہ سالار کے طور پر جانتی ہے ۔انقلابِ فرانس سے لے کر موجودہ سیاسی استحکام، اور ترویج و ترقی کی بنیادیں جنرل ڈیگالے کے تدبر تک پہنچتی ہیں۔اسی تناظر میں عوامِ پاکستان بھی جنرل راحیل شریف کو اپنی دفاعی اننگ کی تکمیل کے بعد ایک مضبوط سیاسی اننگ کھلانے کے لیے بے قرار ہیں۔چونکہ وطنِ عزیز اور مسلم امہ کا سیاسی افق حقیقی قیادت کی کمی کا شکار ہے ۔ملک اور مسلم امہ میں موجو د سیاسی خلائ

کو پر کرنے کے لیے جنرل راحیل شریف سے بہتر کوئی کردار نہیں ہے ۔ اسلام آباد اور راولپنڈی کے در و دیوار تو پورے زورو شور سے اپنے محسن کو اس ملک کی سیاسی باگ ڈور سنبھالنے کی صدا بلند کر رہے ہیں ۔اس وقت پاکستان کو مخلص، قابل، عالمی سیاسی حالات سے واقف، پاکستان کے موجودہ مسائل سے ادراک یافتہ ، بھارت اور ہندو بنیے کی موجودہ سوچ کے تناظر میں، خطے میں بننے والی فضا پر آنکھ سے آنکھ ملا کر بات کرنے والی قیادت کی ضرورت ہے ۔پاکستان کی ترقی ، دفاع اور استحکام کے تناظر میں جنرل راحیل شریف سے بڑھ کر کوئی نام نہیں ہے ۔ 2018 ء کے انتخابات اگر دو تین ماہ تاخیر کا شکار ہوتے ہیں تو جنرل راحیل بھی ان انتخابات میں حصہ لینے کے اہل ہوجائیں گے ۔بلاشبہ جنرل راحیل ملکی سیاسی افق پر ایک خوبصورت اضافہ ہوں گے جو حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہو کر اس ملک خداداد کی تقدیر کو سنوارنے میں ایک اہم کر دار ادا کر سکتے ہیں۔اور دفاعی اداروں کی طرح حکومتی ایوانوں کو بھی راہِ راست پر لا کر ملک و ملت کو جہالت، غربت، پسیماندگی،انتشار اور خانہ جنگی سے نکال کر علم وفن کی ترویج، ترقی،مستحکم سلامتی اور استحکام کی راہوں پر ڈال سکتے ہیں۔جمہوریت اس ملک کی تقدیر میں لکھی جا چکی ہے امید ہے کہ جنرل راحیل شریف کی جمہوری قیادت میں شمولیت سے اس ملک کی لنگڑی لولی جمہوریت اپنے پیروں پر کھڑی ہو پائے گی اور ملکی دفاعی اداروں کی طرح جمہوری حکومتی ادارے بھی عالمی شماریات میں اپنی پوزیشن بہتر کر سکیں گے۔

Mubashar Dahar

Mubashar Dahar

تحریر: مبشر ڈاہر۔ الریاض سعودی عریبیہ