تحریر: پروفیسر مظہر سانحہ پشاور پر احتجاج دم توڑ رہا ہے ،سردراتوں میں چوراہوں پر معصوم پھولوں اور کلیوں کی یاد میں جلائی جانے والی شمعیں بھی بجھ چکیں۔ الیکٹرانک میڈیاحسبِ سابق سب کچھ بھلاکر اپنی پرانی ڈگر پرلوٹ آیا۔ وہی ریٹنگ کی جنگ، وہی چائے کی پیالی میں طوفان اوروہی مزاحیہ پروگرام جن میں ہزل گوئی ،پھکڑپَن ،جگت بازی اور ذومعنی جملوں کی بھرمار۔ لیکن اندھیری راتوں میں بند کواڑوں کے پیچھے بے کل ماؤں کی سسکیاں اب بھی راتوں کا سکوت توڑ رہی ہیں،اُن کی اُجڑتی کو کھیں اب بھی نوحہ کناںاور گھر گھرمیں صفِ ماتم۔ ہم اِس سولہ دسمبر کو اُسی طرح بھولتے جارہے ہیں جس طرح سولہ دسمبر 71ء کو بھول چکے۔
تب توہماراپڑوسی دشمنی نبھانے کے لیے ہمارے سامنے تھا اورسقوطِ ڈھاکہ کے بعد اندراگاندھی نے بڑے فخرسے کہہ بھی دیا ”ہم نے نظریہ پاکستان کو خلیج ِ بنگال میںڈبودیا”۔معاملہ اب بھی وہی درپیش ،ملکی سلامتی داؤ پرلیکن اب کی باردشمن خارجی نہیں ،داخلی ہے اورہم اسے پہچانتے بھی نہیں ۔کوئی نہیں جانتا کہ اُس کے ساتھ بیٹھاشخص محبِ وطن ہے یادہشت گرد ۔جس کی شناخت ممکن ہے اُس پر ہاتھ ڈالنے کی کسی میں ہمت ہے نہ سکت ۔کوئی حکمرانوںسے یہ سوال کرنے کی جرأت بھی نہیں کرتا کہ افلاس کے مہیب سایوںمیںاُن دَس لاکھ سے زائد زبردستی کے مہمانوں (افغان مہاجرین) کو اُن کے گھروں میں کیوں نہیں بھیجاجاتا؟۔ قوم نہیں جانتی کہ پچاس لاکھ سے زائد ازبک ،چیچن ،تاجک ،سومالین، نائجیرین، سوڈانی، برمی، بنگلہ دیشی اور آذربائیجانی آسمان سے گرے یا زمین سے اُگے۔
اگر سرحد پارکرکے آئے توہماری تین درجن خفیہ ایجنسیاں کس مرض کی دواہیں اوراُن پر اربوںروپیہ کیوں صرف کیا جارہاہے؟۔کوئی بتلائے توسہی کہ CIA کے ہزاروںایجنٹوں کو بنا کسی تصدیق کے کس نے ویزے جاری کیے اوردہشت گردوں کو جدید ترین ہتھیاراور بارودکے ڈھیر فراہم کرنے والے کون ہیں؟۔اورہاں وہ جو میموگیٹ سکینڈل پرہمارے وزیرِاعظم خود کالاکوٹ پہن کر سپریم کورٹ جا پہنچے تھے ،اُس سکینڈل کو بحرِہند میں غرق کیا یا بحرِ عرب میں؟۔ باتیں بہت کہ یہاںتو ”قدم قدم پہ ہے جائے نالہ وفریاد” لیکن چلیں یہ سب کچھ یہیںچھوڑ کر آگے بڑھتے ہیںکہ ہمارے سپہ سالارنے کہا ”ماضی کو چھوڑیں ،آگے بڑھیں”۔سوال مگریہ کہ آگے بڑھیں تو کیسے؟۔
یہ بجاکہ ہمارے پُرعزم سپہ سالارآپریشن ضربِ عضب میں بے مثل کامیابیاں سمیٹ رہے ہیں اوریہ یقین کہ انشاء اللہ عنقریب وہ وزیرستان سے دہشت گردوںکا مکمل صفایا کردیں گے لیکن بصدادب گزارش ہے کہ یہ ناسورتو وطنِ عزیزکی نَس نَس میں سماچکا،اِس گلتے ناسور کی بُوسے تو وطنِ عزیزکی فضائیں مسموم ہوچکیں۔اِس ناسورکی جراحی کون کریگا؟۔
سیاسی اورعسکری قیادت نے متفقہ طورپر بیس نکاتی ایکشن پلان کی منظوری دے دی لیکن کیایہ بھی سوچاکہ اِس پرعمل درآمد کیسے ممکن ہے ؟۔وزیرِاعظم صاحب نے توانا آوازمیں دہشت گردوںکو منطقی انجام تک پہنچانے کاعزم کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک آپریشن ضربِ عضب افواجِ پاکستان فاٹا میں کررہی ہیں ،دوسرا آپریشن ضربِ عضب ہم پورے ملک میں کریں گے۔ ہمیں وزیرِاعظم صاحب کی نیت پر کوئی شک ہے نہ عزمِ صمیم پرلیکن راستہ اتنا طویل ،کٹھن اور پُرخارہے کہ سوچتے ہوئے بھی ڈرلگتا ہے ۔ طالبان نامی دہشت گردوں کے خلاف تو آپریشن کامیابی سے جاری ہے لیکن یہاںتو کئی قسم کی دہشت گردی کاسامناہے ۔
Terrorists
جن مذہبی اور سیاسی جماعتوں نے اپنے عسکری ونگز بنارکھے ہیںکیا وہ دہشت گرد نہیں ؟۔کیانفرت انگیزلٹر یچر چھاپنے اور فرقہ واریت کو ہوادے کر فسادات کروانے والے دہشت گردنہیں؟۔ کیا ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری دہشت گردی نہیں؟۔ دین میں شدت کاعنصر داخل کرنے والے تودہشت گردہیں ہی لیکن کیا فسطائیت کا دفاع کرنے والے ”لبرل”دہشت گرد نہیں ؟۔کیا نیوز چینلز پر بیٹھ کر اللہ اور اُس کے رسولۖ کے احکامات کی صریحاََخلاف ورزی کادرس دے کر قوم کے جذبات بھڑکانے والے دہشت گرد نہیں؟۔ ”پنبہ کجا کجانہم”کے مصداق وزیرِاعظم صاحب کِس کِس کے گردشکنجہ کسیں گے۔
سبھی جانتے ہیں کہ کچھ مذہبی اور سیاسی جماعتوںنے اپنے اپنے عسکری ونگ بنا رکھے ہیں اور انہی سیاسی جماعتوںپر ٹارگٹ کلنگ اوربھتہ خوری جیسے الزامات بھی لگتے رہتے ہیں ۔کیا مرکزی حکومت کراچی سمیت پورے ملک میں بلاامتیاز کارروائی کرنے کے لیے پرعزم ہے۔
غیرملکی فنڈنگ پر پلنے والی سیکولر نظریات کی حامل NGO’s ہمیشہ بلندآہنگ سے دینی ومذہبی جماعتوں کے خلاف زہراُگلتی رہتی ہیںکیونکہ اُنہیںفنڈنگ ہی منافرت پھیلانے کی ملتی ہے ۔دوسری طرف مذہبی جماعتیں بھی ترکی بہ ترکی جواب دیتی رہتی ہیں جس کی بناپر تصادم کی فضاپیدا ہوتی ہے ۔کیاحکومت اِن NGO’s پر ہاتھ ڈال سکتی ہے؟۔ ہماری خفیہ ایجنسیاں بھی یہ تسلیم کرتی ہیں کہ دینی مدارس کی غالب اکثریت میں صرف دینی تعلیم ہی دی جاتی ہے لیکن کچھ مدارس ایسے بھی ہیں جودہشت گردوں کی تربیت گا ہیں اور پناہ گاہیں ہیں۔ کیا حکومت تمام دینی مدارس کو آئین وقانون کے دائرے میںلانے کی ہمت رکھتی ہے ؟۔ہم تو صرف دعاہی کرسکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ مرکزی اور صوبائی حکومتوںکو عزمِ صمیم کی دولت سے مالامال کرے لیکن یہ کام اگر ناممکن نہیںتو انتہائی مشکل ضرورہے اور اسے تووہی پایۂ تکمیل تک پہنچا سکتاہے جوحضرت خالدبِن ولید کی طرح سفینے جلانے کی ہمت رکھتاہو۔
وزیرِاعظم صاحب کے متواتر بیانات سے یقین ہوچلاہے کہ اب اُن میںکچھ کرگزرنے کی اُمنگ جوان ہے،یہ الگ بات کہ کچھ لکھاری اب بھی یہ ماننے کو تیارنہیں ۔شایدیہ بغضِ معاویہ ہی ہے کہ ایک لکھاری میاںصاحب کے بارے میںفرماتے ہیں”یہ صلح جو روحیںہیں جو صرف مذاکرات اورامن کی راگنی ہی چھیڑسکتی ہیں اور اگر فعالیت کامرحلہ درپیش ہوتو کُل جماعتی کانفرنس کی ڈھال کے پیچھے پناہ کا آپشن موجودرہتاہے ۔۔۔جب میں ایم این اے تھا اور مجھے پارلیمانی پارٹی کی میٹنگ میں شرکت کرناہوتی تھی تو وہاں یہی نغمہ گونجتاتھا کہ ”میاںصاحب ! اٹھارہ کروڑ افرادآپ کے منتظرہیں ۔۔
توشام کو مجھے مُنہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے اسکاٹ لینڈ کی عمدہ ترین مصنوعات میں سے ایک کی ضرورت پڑتی تھی ۔وزیرِاعظم ہاؤس میں گزارے ہوئے ایک دِن میں پتہ نہیں جرنیل صاحبان نے مُنہ کا ذائقہ کیسے بدلا ہوگا”۔عرض ہے کہ لکھاری موصوف کوشام توکیا ،ہر وقت ہی اسکاٹ لینڈکی عمدہ ترین مصنوعات میںسے ایک کی ضرورت پڑتی رہتی ہے لیکن لکھاری موصوف خاطرجمع رکھیں ہمارے جرنیل صاحبان کومُنہ کا ذائقہ بدلنے کی ضرورت محسوس نہیںہوتی۔
ویسے جس ”شے”سے موصوف مُنہ کا ذائقہ بدلتے رہتے ہیں اُس سے بندہ ایسے ہی مخبوط الحواس ہوجاتاہے جیسے ہمارے یہ” عظیم لکھاری”آجکل ہوچکے ہیں۔ ویسے اگرمحترم لکھاری نوازلیگ کی پالیسیوں سے اتنے ہی نالاںتھے تو 2013ء کے الیکشن میں میاںبرادران سے ٹکٹ کی بھیک کیوں مانگتے رہے اور جب ایم این اے تھے تواپنی غیرت و حمیت کو مہمیز دیتے ہوئے مستعفی کیوں نہیں ہوئے؟۔