تحریر : علی عمران شاہین سڑک پر حادثہ تھا، زخمی گرم تارکول پر پڑا تڑپ رہا تھا لیکن اسے کوئی ہاتھ لگانے کے لئے تیار نہیں تھا کہ ا یسے ہر موقع کی طرح یہاں کھڑے بھی سب لوگ تماشائی ہی تھے۔ ایسا ہ منظر ہمارے معاشرے میں اکثر آفات کے موقع پر دیکھنے کو ملتا ہے جب لوگ جائے حادثہ پر آس پاس آکر توبہت کھڑے ہو جاتے ہیں لیکن سب کے سب تماشائی ،2005 کا زلزلہ ہماری قوم کا آفت زدہ انسانیت کی مدد کے حوالے سے پہلا سب سے بڑا تجربہ تھا ،جس میں جذبے اور ولولے تو بہت تھے لیکن ان متاثرہ لوگوں کی زندگی بچانے اور انہیں دوبارہ سے معاشرے کا فرد بنانے کے لئے کیا کیا احتیاطیں اور حفاظتی تدابیر ہو سکتی ہیں ،اس سے شاید ہی کوئی واقف تھا،سو اس مشن میں قوم کے ہاتھوں قوم کا نقصان بھی کافی ہوا۔اس تجربے کے بعد ہم نے سوچ بچار کی اور پھر یہ ارادہ و عزم باندھا کہ ہم ملک بھر میں کم از کم ایک لاکھ ایسے تربیت یافتہ رضا کاروں کی سریع الحرکت فورس تیار کریں گے جو کسی بھی حادثے کے موقع پر 10منٹ نہیں پہلے منٹ میں پہنچے گی اور اسے ہر طرح کی بنیادی طبی امداد دینے کی مہارت ہوگی ۔سو اس پر کام کر رہے ہیں اور کافی سفر طے کیا جا چکا ہے۔اسی کام کے لئے آج لاہور میں مرکزی تربیتی ادارے کا افتتاح کر رہے ہیں کہ قوم کے اندر اس حوالے سے آگاہی کے ساتھ ساتھ تربیت کا بھی جذبہ اور انسانی مددکا عملی شعور بیدار کر سکیں۔لاہور کے علاقے واپڈا ٹائون میں ملک بھر میں تیز ترین امدادی سرگرمیوں کا ریکارڈ رکھنے والی تنظیم فلاح انسانیت فائونڈیشن کے خوگرِ نرم دم گفتگو تو گرم دم جستجو چیئرمین حافظ عبدالرئوف اپنے مرکزی تربیتی ادارے کے افتتاح پر بریفنگ دے رہے تھے تو ہر شریک محفل جیسے ان باتوں میں کھو سا گیا تھا۔
وہ کہہ رہے تھے کہ جیسے جیسے ترقی اور انسانی آبادیوں کا پھیلائو بڑھ رہاہے ویسے ویسے حادثات کی تعداد اور نوعیت بھی بڑھ اور بدل رہی ہے۔اگر قوم کے افراد اس میدان میں تربیت اور شرکت کو بھی اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں تو بہت سی جانوں کو اسی کام سے بچایا جا سکتا ہے۔ہمارے ذرائع ابلاغ اگر اپنی روز کی نشریات و اشاعت میں کچھ حصہ لازمی اس حوالے سے مختص کر دیں،سکول سے میٹرک کا سرٹیفکیٹ اس وقت تک جاری نہ ہو جب تک طالب علم بنیادی انسانی طبی امداد کا کورس نہ مکمل کر لے تو قوم کا بہت بھلا ہو سکتا ہے۔ ہم ایسی قوم تیار کرنا چاہتے ہیں جو کسی حادثے،سانحے کی صورت میں امداد کا انتظار کرنے کے بجائے خود آگے بڑھ کر مدد کرے۔ہمیں تماشائی نہیں، مددگار بننا چاہئے۔ہم قوم کو صحیح راستے پر لائیں گے۔ فلاح انسانیت فائونڈیشن ملک بھر کی تمام بڑی شاہراہوں پر ریسکیو و فرسٹ ایڈ سنٹر بنائے گی اور اضلاع اور تحصیلوں کی سطح پر نوجوانوں کو فرسٹ ایڈ،آگ بجھانے و دیگر حادثات میں امداد کی تربیت دیں گی۔میرا ماننا ہے اگر ڈرائیونگ لائسنس فرسٹ ایڈ کی تربیت کے ساتھ مشروط کیا جائے توبے شمار حادثات میں زیادہ نقصان سے پہلے قابو کئے جا سکتے ہیں لیکن اس کے لئے تھوڑا بہت قوم کو رہنمائی مہیا کرنے کی ضرورت ہے۔
چند منٹ میں انہوں نے اس سارے کام کے حوالے سے ایسا نقشہ کھینچا کہ جیسے ہر دل پر ثبت ہو گیا۔سٹیج پر تشریف فرما ہلال احمر پاکستان کے چیئرمین و مشیر وزیر اعلیٰ پنجاب ڈاکٹر سعید الٰہی، لارڈ میئر لاہور کرنل(ر) مبشر جاویدمسلم لیگ(ن) لائرز ونگ برطانیہ کے صدر بیرسٹر چوہدری عنصر محمود، تحریک آزادی جموں کشمیر کے سیکرٹری جنرل حافظ خالد ولید، مسلم لیگ (ن) یورپ کے صدر حافظ امیر علی اعوان،مسلم لیگ (ن) جدہ سعودی عرب کے صدرخالد انصاری،جماعة الدعوة کے ترجمان یحییٰ مجاہد،حافظ طلحہ سعید، ابوالہاشم ربانی،گھرکی ٹیچنگ ٹرسٹ ہسپتال کے چیئرمین محسن گھرکی، میاں شفقت،علامہ خالد آزاد سمیت معززین شہر کی بڑی تعداد موجو د تھی جس نے حافظ عبدالرئوف کی اس بریفنگ سے پہلے محض 5منٹ کی ملٹی میڈیا بریفینگ دیکھی تو سبھی اس میں جیسے کھو سے گئے تھے۔ بریفنگ کے اختتامی لمحات میں جگہ جگہ جان لڑاتے رضاکاروں کے ساتھ ”فلاح انسانیت کا عزم لے کے بڑھتے چلو جوانو” کی نظم نے تو ایک نیا ہی سماںباندھ دیا تھا۔اس سب کا باقاعدہ اظہار لارڈ میئر لاہور کرنل(ر) مبشر جاوید نے بھی کیا اور کہا کہ وہ فلاح انسانیت فائونڈیشن کے رضاکاروں کی بغیر کسی لالچ و طمع کے یہ جانفشانی دیکھ کر حیران رہ گئے ہیں۔ کہنے لگے کہ میںیہاں آنے سے پہلے سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ اس نوعیت کا پروگرا م ہے لیکن اب میں فخر و انبساط کے ساتھ یہاں سے رخصت ہو رہا ہوںکہ میرے اس شہرمیں جہاں غریب،یتیم،بے سہارا،مجبور و مریض ہر طرح کے لوگ ہین وہیں ان کے اندر ایسے لوگوں کا گروہ بھی موجود ہے جو دوسروں کی مدد اور انسانی جان بچانے کے لئے یوں درد اور فکر اپنے اندر بسائے ہوئے ہے۔جنہوں نے اپنی حیات جاودانی کا مقصد دوسروں کے درد سمیٹنا بنا رکھا ہے۔
آپ کے ساتھ بیٹھنا تومیرے لئے دلی خوشی کا باعث ہے۔میری دعائیں ہی نہیںبلکہ دلی محبتیں اور تمام تر ممکنہ تعاون آپ کے ساتھ ہمیشہ رہے گا۔بیرسٹر چوہدری عنصر محمود مائیک پر آئے تو گویا ہوئے کہ برطانیہ اور یورپ کے لوگوں کو انسانیت کا بڑا ہمدرد سمجھا جاتا تھا لیکن آج کی اس منفردو خوبصورت محفل نے میرے سارے تصورات ہی بدل دیئے ہیں اور میں آپ کے ساتھ وعدہ کرتا ہوں کہ برطانیہ میں رہتے ہوئے میں آپ سے جو اور جیسا تعاون کرسکا ،ضرور کروں گا۔نقیب محفل حافظ خالد ولید اپنے لطیف اور محبت میں ڈوبے جذبوں سے تمام مہمانوں کو بلاتے تو رنگ ہی نکھرتا جاتا۔ مہمان خصوصی ڈاکٹر سعید الٰہی نے بات شروع کی تو بتانے لگے کہ ان کی تنظیم ہلال احمر پاکستان اصل میں تو ریڈ کریسنٹ ہی کا حصہ ہے جس کی 1919میں سوئٹز لینڈ کے دارالحکومت جنیوا میں بنیاد رکھی گئی تھی اور سوئس جھنڈے پر موجود نشان ہی اس تنظیم کا نشان بنا تھا ۔ہم پاکستان بھر میں اپنا نیٹ ورک رکھتے ہیں لیکن میں یہ بات برملا تسلیم کرتا ہوں کہ جب میں 2005ء کے زلزلے میں امدادی کاموں کے لئے پہنچا تھا تو میں نے جہاں بھی قدم رکھا تھا میں نے ان رضاکاروں کو اپنے سامنے پایا تھا۔ امریکہ کے شینوک ہیلی کاپٹر فضا میں اڑان بھر کر کسی ایک خاص جگہ ہی اتر سکتے تھے لیکن فلاح انسانیت فائونڈیشن کے رضاکار جنہیں میں تو مجاہد کہوں گا ہر قدم، ہرگام پر موجود تھے اور دن رات جانیں بچانے کے لئے جانیںلڑا رہے تھے۔
اس واقعہ کو بارہ برس بیت گئے لیکن فلاح انسانیت کی خدمت کا جذبہ آج بھی یاد ہے جب پاکستان کے ادارے،حکومتیں سب بے بس ہو چکے ہیں،بیرون ممالک سے عالمی امداد کا انتظار تھا اس کی آسائشوں کو چھوڑ کر مشکل وقت میں خدمت کرنے پر فلاح انسانیت فائونڈیشن کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔فلاح انسانیت فائونڈیشن اب ایک منظم قوت بن چکی ہے۔ میںآج کے اس نئے جذبے کو بھی سلام پیش کرتا ہوں اور کہنا چاہتا ہوں کہ ہر شہری کو فرسٹ ایڈ کی تربیت لینی چاہئے۔فلاح انسانیت فائونڈیشن اور ہلال احمر پاکستان مل کر کام کریں گی اور رضاکاروں کی تربیت کا انتظام کریں گی۔ ہلال احمر پاکستان کے وسائل تجربات اور ہر طرح کی مہارت آپ کے لئے ہماری طرف سے پیش ہے۔ہم عہد باندھتے ہیں کہ اس نیک مشن میں شانہ بشانہ چلیں گے۔چند لمحو ں بعد تقریب کا وہ مرکزی مرحلہ آن پہنچا تھا جب مہمانوں کو یادگاری شیلڈز اور پہلی کلاس کے رضاکاروں کو اسناد عطا کرنے کے بعدمہمانوں نے افتتاحی تختی کی نقاب کشائی اورانسٹی ٹیوٹ کے مختلف حصوں کا جائزہ لینا تھا۔افتتاح کے ساتھ ہی پروفیسر حافظ طلحہ سعید نے دلی سوز و محبت سے دعا کرائی اورپھر مہمانوں نے مختلف حصوں کا دورہ شروع کیا۔ حافظ عبدالرئوف ساتھ ساتھ تفصیلات بتاتے جاتے تو مہمان خاص ڈاکٹر سعید الٰہی اپنائیت بھرے جذبوں سے مختلف تجربات اور احساسات بیان کرتے جاتے۔ اپنی زندگی کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے کہنے لگے کہ ہمارے ایک دوست کرنل صاحب کے ساتھ گھر میں ایک حادثہ پیش آیا تو ان کی اہلیہ اور ملازم نے انہیں فوری پانی پلا دیا اور سر کے نیچے سرہانہ رکھ دیا جو ان کی فوری موت کا سبب بن گیا۔ ہر طرح کی طبی امداد سے لے کر آگ بجھانے ،ڈوبے لوگوں کو نکالنے ،دور دراز کے میڈیکل و سرجیکل کیمپس کے سجے سٹالز اور رضاکار فورس کو دیکھ کر ہر فرد کی زبان سے دعائیں اور فلاح انسانیت کے لئے التجائیں ہی نکل رہی تھیں۔
Ali Imran Shaheen
تحریر : علی عمران شاہین (برائے رابطہ:0321-4646375)