تحریر : اقبال زرقاش بحثیت مسلمان ہمارا کتاب کے ساتھ ایک خاص تعلق رہا ہے۔کتب کسی قوم کی علمی عظمت اور فکری بصیرت کی آئینہ دار ہوتی ہیں۔ اس سلسلے میں ہم ایک شاندار تاریخ کے مالک ہیں۔مخالف قوتوںنے جب بھی ہم مسلمانوں پر یلغارکی تو اس یلغار کی زد میںہمارے آبائواجدادکے جسم و جان ہی نہیں آئے بلکہ ہمارے کتب خانے بھی محفوظ نہ رہے۔ تاتاریوں نے مسلمانوں کے سروں کے مینار بھی تعمیر کیے مگر اس کے ساتھ ہمارے قیمتی کتب خانوں کو بھی دجلہ کی گہرائیوں میں غرق کر دیا تھاتاکہ مسلمان فکری، علمی اور ادبی لحاظ سے مفلس اور اپاہج ہوکر رہ جائیں اور مخالفین نے ہمیں یوں بھی لوٹا کہ وہ ہماری کتابوں کو یورپ کی لائیبریریوں میں لے گئے۔
وہ کتابیں جو ہمارے اسلاف کی تحقیقات کا نچوڑ تھیںاور ان سائینسی تحقیقات کی بنیادوںپر انہوں نے فلک بوس ایوان تعمیر کیے اور ہم ان کی ترقیوں کو پھٹی پھٹی نظروں اور حیران آنکھوں سے دیکھتے رہے حالانکہ اہل مغرب کی سائینسی تاب و تب میں ہمارے ہی آبائو اجدادکے خون جگر کی سرخی جھلکتی ہے۔ شاعر مشرق نے اسی ملی المیے کی طرف اشارہ فرمایا تھا۔ مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آباء کی جو دیکھیںان کویورپ میںتودل ہوتا ہے سی پارہ
بدقسمتی سے ہماری آنے والی نسل کتاب سے دور ہوتی جا رہی ہے اور ہمارے ہا ں لکھنے اور تحقیق کا کام محدود ہوتاجارہاہے۔ہمارے طالب علم نصابی کتب میںہی الجھ کر رہ گئے ہیںہماری شاندار تاریخ اور روایات ان کی نظروں سے پوشیدہ ہوتی جا رہی ہیں۔ وہ مغرب کی دلفریبیوںمیں کھوکر اپنے اسلاف کے سنہرے کارناموں سے بے خبر ہوتے جا رہے ہیں اور ہمارے کتب خانے ویران ،مٹی اور دھول میں اٹے پڑے ہیں جو کہ نہایت افسوس کا مقام ہے۔ کتب خانے کسی قوم کی ذہنی رفعت کا نشان ہوتے ہیں جس ملک میںکتب خانے قیمتی اور نایاب کتابوں سے پر ہوں گے اس قوم کا ذہنی شعور بھی اسی قدر پختہ ہو گا۔جو قوم عملی طور پر پسماندہ اور ذہنی طور پر مفلوج ہو گی وہ کتب خانوں کی تزئیںوترتیب کی طرف بالکل توجہ نہیں دے گی۔
Malian Librarian
جس قوم کے افراد علم وفضل کی دولت سے بہرہ ور ہوتے ہیں وہ سب سے پہلے اپنے آبائواجداد کی ان تصنیفات کو کتب خانوں میں محفوظ کر لیتے ہیں جن کو زمانے کی گردش سے خطرہ ہوتا ہے ویسے بھی تاریخ ان اقوام وافراد کا احترام کرتی ہے جو اپنی روایات اور اپنی تہذیب اور اپنے سرمایہ علم وفن کی حفاظت کرتے ہیں۔ اس زمانے میں انسان کی مصرفیات بڑھ گئی ہے اور اخراجات اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ ایک مجھ جیسے متوسط درجے کے انسان کے لیے دال روٹی کا حصول بھی مشکل ہو گیا ہے ۔ ادیب اور شاعر ویسے بھی مالی لحاظ سے پسماندہ ہوتے ہیں ان کے لیے بہت مشکل ہو گیا ہے کہ وہ نئی نئی کتابیں خریدیں اور پڑھیں جبکہ مہنگائی کے ساتھ ساتھ کتابوں کی قیمتوں میں بھی بہت اضافہ ہوا ہے۔ اس سلسلے میں حکومت وقت کا فرض بنتا ہے کہ وہ ملک بھر میں لائبریروں کے قیام کیلئے خصوصی اقدامات اٹھائیں تاکہ ہر تشنہ علم وفن اپنی پیاس بجھا سکے ۔ کتب خانوں کا وجود ایک قومی خدمت ہے اور زندہ قومیں کتب خانوں کے تحفظ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتی ہیں۔
یہ وقت کی ضرورت ہے کہ حکومت اپنی نوجوان نسل کو کتب بینی کی طرف راغب کرنے کیلئے اپنے حصے کا کردار نبھائے ورنہ انٹرنیٹ کے دور میں اغیار ہمارے گرد ایسا جال بن رہے ہیںکہ ہماری نوجوان نسل اپنے تاریخی ورثہ سے ناآشنا ہوتی جا رہی ہے اور شیطانی قوتیں کمپیوٹر کے راستے ہماری نسل نو کو بے راہ روی کی طرف راغب کرکے اپنے مقاصد حاصل کرنے میں سو فیصد کامیاب ہو رہی ہیں۔آوارگی تہذیب کا جھومر محسوس ہوتی جا رہی ہے۔ انٹرنیٹ پر غیر اخلاقی سرگرمیاں نگاہوں سے حیا اور دلوں سے شرم کو اڑا لے جاتی ہے۔ رقص وسرور ثقافت کا حسن بن کررگ و پے میں سما رہے ہیں۔ دل شرابی اور نگاہیں خائن ہوتی جا رہی ہیں۔
فطرت کی معصومیت سرشت کی نیکی اور دل کے گوشوں میںچھپی ہوئی نور کی کرن کوماحول کے اندھیرے نگل رہے ہیںاور ہم اس وقت جاگیں گے جب وقت اور سبق دونوں بیکار ہو جائیں گے۔ ہمارے قلم کاروں، کالم نویسوں اور دانشوروں کا فرض بنتا ہے کہ وہ وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے نوجوان نسل کو کتاب کی طرف راغب کرنے کیلئے اپنے جصے کا کام کریں بصورت دیگر تاریخ کی بے رحم موجیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔