تحریر: رشید احمد نعیم ۔پتوکی سرور ِ کائنات حضرت محمدۖ کا ارشاد ِ گرامی ہے”حسن اور حسین، یہ دونوں میرے لیے دنیا کی خوشبو ہیں”۔ دوسری جگہ ارشاد فرمایا ” حسین میرے ہیں اور میں حسین کا ہوں، جو حسین کو محبوب رکھتا ہے اللہ اس کو محبوب رکھے، حسین میرے ایک نواسے ہیں”نبی ِ اکرم ۖ نے یہ الفاظ ِ مبارک جلیل القدر صحابی رسولۖ،شہیدِسعید اور آل بیت رسول کے عظیم فرزند حضرت امام ِ حُسین کے بارے میں فرمائے۔ حضرت امام حُسین نبی ِ اکرم ۖ کی سب سے پیاری بیٹی حضرت سیدہ فاطمتہ الزہرا کے لخت ِ جگر اور حضرت علی کے صاحبزادے تھے۔آپ کی ولادت شعبان چار ہجری میں ہوئی۔باغ محمدۖ کے یہ حُسین پھول انتہائی عزت و شرافت کے مالک تھے۔پیغمبرِ خداۖ کی خوشبو حضرت امام حسین نے حیاتِ مستعار کے چھٹے سال میں قدم رکھا ہی تھا کہ بنی اکرم ۖ اس جہان فانی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے الوداع کہہ کر رب کریم کی جوار ِ رحمت میں جا بسے۔سیدنا حسین سیرت و کردار کے اس عظیم مقام پر متمکن ہوئے جہاں تک پہنچنے سے بڑے بڑے عظیم لوگ رہ جاتے ہیں۔عظیم قربانیاں اور شجاعت و بہادری کی داستانیں اس بات کا واضح ثبوت ہے۔آپ نے جہاد فی سبیل اللہ کے کسی میدان سے بھی راہ فرار اختیار نہ کی ۔
آپ نے نے جہاد میں بھر پور کردار ادا کیا۔ دین خدا وندی کی نصرت و حمایت اور اعلائے کلمتہ اللہ کے لیے سیدنا حسین نے بے حد بلند نمونہ پیش کیا۔ آپ بھلا میدانِ جہاد سے کیونکر پیچھے رہ سکتے تھے کہ آپ اس نانا کے نواسے تھے جن کا شوق ِ شہادت عظمتوں کی اس بلندی تک پہنچا ہوا تھا کہ بنی اکرمۖ کا فرمان ہے ” اس ذات کی قسم جس کے قبضہ ِ میں محمدۖ کی جان ہے ! میری تمنا ہے کہ میں راہ ِ خدا میں جہاد کے لیے نکلوں اور مارا جائوں پھر ( زندہ کیا جائوں اور) نکلوں اور مارا جائوں پھر ( زندہ کیا جائوں اور) نکلوں اور مارا جائوں”۔ ایسے نانا کی گود میں پرورش پانے والے حسین میں جذبہ جہاد و شہادت کیوں نہ پیدا ہوتا؟سیدنا حسین جس تقویٰ و ورع،زہد وعبادت اور علم و معرفت کے مالک تھے ان سب کے ہوتے ہوئے آپ اعلائے اسلام کے ساتھ محاربہ اور نشرو اشاعت کے لیے اسلامی سرحدات کی حفاظت میں اپنا عظیم کردار ادا کرنا کیسے بھول سکتے تھے۔ کیونکہ یہ واجبات ایمانیہ و دینیہ کا تکملہ ہے ۔یہ جہاد مومن کا تاج ِ آبرو اور اس امت کی سیاحت ہے ۔سیدنا حسین نے ہمارے سامنے جہاد فی سبیل اللہ میں بے پناہ صبر کرنے ،ڈٹے رہنے اور حوصلہ ظاہر کرنے کی بابت نہایت عظیم اور بلند مثال پیش کی۔ اپنا فرض نبھایا، اپنی ذمہ داری ادا کی اور اس اندازمیں اپنی ذمہ داری ادا کی کہ زمین و آسماں اور ہوا و فضاء بھی گواہ بن گئی کہ آپ نے ادا کرنے کا حق ادا کر دیا۔
Karbala
میدانِ کربلا میں نواسئہ رسولۖ، جگر گوشئہ بتول نے کس ہمت، جر ات،شجاعت، بسالت، بہادری اور دلیری کے ساتھ ڈٹ کر دکھایا۔ وہ بھی کیل کانٹے سے لیس اور آلات جنگ و قتال سے مسلح کسی لشکر ِ جرار کے ساتھ نہیں بلکہ گنتی کے چند سر فروشوں ، نہتے جانبازوں اور بے خان مان مجاہدوں اور فدائیوں کے ساتھ پوری جواں مردی سے ڈٹ کر مقابلہ کیااور دنیا کو قیامت تک کے لیے یہ درس ِ عبرت دے گئے کہ حق پر جمنے کے لے مومن دل چاہیے نا کہ تیر و تفنگ اور آلات ِ جنگ کا انبار اور جنگجو جاں بازوں کا لشکر ِ جرار۔واقعہ ِ کربلا میںآپ کا دست ِ بازو بننے والوں کی تعداد بہتر سے متجاوز نہ تھی،جو ظلم و جور کے پانچ ہزار سے زائد کوفی نمائندوں کے سامنے شہادتوں کی مسندیں سجائے میدان قتال میں اترے ، جن کی جبینوں پر شوقِ شہادت کی لکیروں کی چمک میں خوف، کمزوری ، پست ہمتی ، بے حوصلگی اور تردد و تذبذب کا نام و نشان تک نہ تھا۔ چنانچہ جناب سیدنا حسین نے آل بیت رسولۖ کی عظمتوں اور رفعتوں کی لاج رکھی اور خاندان ِ نبوت ورسالت ۖ کے آئینہ شجاعت و وقار پر خراش تک نہ آنے دی اور بڑی شان کے ساتھ شہادت پا کر رب کے حضورسر خرو ہو کر پہنچ گئے۔حضرت امام احمد نے اُم المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ اوراُم سلمہ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرمۖ نے ان دونوں میں سے کسی ایک سے فرمایا” آج میرے پاس گھر میں ایک ایسا فرشتہ آیا ہے جو اس سے پہلے کبھی نہیں آیا اور اس نے (مجھ سے یہ ) کہا ہے کہ یہ آپ کا بیٹا حسین مقتول ہو گا۔ اگر آپ چاہیں تو میں آپ کو اس سر زمین کی مٹی بھی دکھلا سکتا ہوں جہاں یہ شہید ہو گا۔ پھر اس نے سرخ رنگ کی مٹی نکال کر دکھلائی” پھر وہی ہوا جس کی نبی اکرمۖ کو خبر دی گئی تھی۔ چنانچہ اکسٹھ ہجری میں سیدنا حسین سر زمین عراق میں شہید کر دیے گئے۔
آپ کو شہید کرنے والے سازشیوں کو اللہ اور اور اس کے رسولۖ سے ذرا شرم نہ آئی۔ جناب سیدنا حسین کے قاتلوں نے آل ِبیت کی حرمت پامال کرتے ہوئے آپ جیسے سراپا عدل و دیانت صحابی رسول ۖ کے ساتھ عذر و خیانت کا ارتکاب کیا اور ظلم و عدوان کی بدترین مثال قائم کرتے ہوئے پہلے آپ کا محاصرہ کیا اور پھر شہید کر دیا۔ شہادت سے قبل جناب حضرت سیدنا حسین نے جب دیکھا کہ اہل کوفہ تمام باتوں سے مکر گئے ہیںاورا نہوں نے آپ کی مدد کرنے کے وعدہ پر کوفہ آنے کی دعوت دینے کے بعد اب آپ کی مدد کرنے سے انکار دیا اور اب آپ کا ساتھ دینے کے لیے تیار نہیں ہیں تو آپ نے محاصرین سے تین باتوں کا مطالبہ کیا کہ یا تو آپ کو واپس جانے دیں یا پھر جہاد کے کسی محاذ پر جانے کا رستہ دے دیں یا پھر یزید کے پاس شام ہی جانے دیں ۔ لیکن محاصرین نے آپ کی ہر بات ماننے سے انکار کر دیا۔ بلکہ آپ کے سامنے دو باتیں رکھ دیں۔اول۔یا توآپ گرفتاری دے دیں ۔ دوم۔یا پھر قتال کریں۔ آپ نے گرفتاری کی ذلت کو آل بیت رسولۖ کی حرمت و شرافت کے سخت خلاف محسوس کرتے ہوئے لڑکر شہید ہونے کو ترجیح دی۔چنانچہ ان نامرادوں نے آپ کو اورآل بیت کرام کے چند دوسرے عظیم فرزندوں کو نہایت بے دردی کے ساتھ شہید کر دیا۔
Hazrat Sayeda Zainab
واقعہ کربلا کے بعد حضرت سیدہ زینب کویزید کے دربار میں پیش کیاگیاتو آپ نے وہاں نہایت فصیح وبلیغ خطبہ دیا جو تاریخ میں سنہری حروف میں رقم ہے۔سیدہ زینب نے خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے کہا”تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جوسارے جہانوں کاپالنے والاہے اوردرودوسلام حضورنبی کریم ۖاوران کے اہل بیت پر۔اللہ رب العزت کافرمان ہے کہ ان لوگوں کاانجام برُاہے جوبُرے کام کرتے ہیں اوراس کے احکامات کوجھٹلاتے اوران کا تمسخراڑاتے ہیں۔اے یزید!تونے ہم پرزمین تنگ کردی اورہمیں قیدکیااورتوُسمجھتاہے کہ ہم ذلیل ہوئے اور تو برتر ہے تویہ سب تیری اس سلطنت کی وجہ سے ہے اورتونے شاید اللہ پاک کافرمان نہیں سناکہ کفاریہ گمان نہ کریں کہ ہم نے ان کے ساتھ جونرم رویہ رکھاہے۔
وہ ان کے لئے بہترہے بلکہ صرف یہ مہلت ہے تاکہ وہ دل کھول کرگناہ کریں پھران کے لئے ایک دردناک عذاب ہے تونے آلِ رسول ۖاوربنی عبدالمطلب کاناحق خون بہایا اور عنقریب توبھی ایک دردناک انجام سے دوچارہوگا۔میں اللہ پاک سے امیدرکھتی ہوں کہ وہ ہماراحق ہمیں دے گا اور ہم پرظلم کرنے والوں سے بدلہ لے گااوران پراپناقہرنازل فرمائے گا۔توعنقریب اپنے گناہوں کے ساتھ حضورنبی کریم ۖکی بارگاہ اقدس میں حاضرہ وگا اورجواللہ کے راہ میں شہیدہوئے ان کے بارے میں اللہ ہی کافرمان ہے کہ وہ زندہ ہیں انہیں رزق ملتاہے اورجن لوگوں نے تمہارے لئے تمہاراراستہ آسان کیاوہ بھی عنقریب تیرے ساتھ بربادہونے والے ہیں۔اے یزید!اگرتوہماری ظاہری کمزوری کوخودکے لئے غنیمت سمجھتاہے توکل بروزِقیامت تو اپنا کیاہواپائے گا اللہ اپنے بندوں پرظلم نہیں کرتا۔اورنہ ہی ہم اس سے کوئی شکوہ کرتے ہیں بلکہ ہم ہرحال میں صابراوراس پربھروسہ کرنیوالے ہیں تواپنے مکروفریب سے جوچاہے کرلے مگرتوہرگزہمارے ذکر کومٹانہیں سکے گااورنہ ہی ہمارے مقام کی بلندی کوچھوسکے گا۔تیری یہ سلطنت عارضی ہے اورعنقریب منادی کرنیوالامنادی کرے گااورلعنت ہوایسی قوم پرجس نے یہ ظلم وستم کیا۔پس اللہ پاک کی حمدوثناء ہے جس نے ہمارے اپنوں کاایمان کے ساتھ اورشہادت کے ساتھ خاتمہ فرمایااوروہ نہایت مہربان اوررحم والاہے اورہمارے لئے کافی ہے کیونکہ وہ بہترین کارسازہے” ْیہ حقیقت ہے کہ حسین آج بھی زندہ ہے ۔ کروڑوں دل آج بھی ذکر ِ حسین سے منور ہوتے ہیں۔آج بھی جذبہ حسینی کی مثالیں دی جاتی ہیں۔آپ کا یہ راستہ آج بھی ملت ِ اسلامیہ کے لیے زادِ راہ کی حیثیت رکھتا ہے مگر آج یزید کا کوئی نام لیوا نہیں ہے۔
Rasheed Ahmad Naeem
تحریر: رشید احمد نعیم ۔پتوکی چیف ایگزیکٹو حبیب آباد پریس کلب سینئر ممبر کالمسٹ کونسل آف پاکستان 03014033622 [email protected]