نسل در نسل دوستی کا نام پاک چین دوستی

Xi Jinping

Xi Jinping

تحریر : عقیل خان
چین کے صدر شی جن پنگ پیر 20 اپریل کو دو روزہ سرکاری دورے پر پاکستان پہنچیں گے۔یاد دھانی کراتا چلوں کہ گذشتہ سال اکتوبر میں چین کے صدر نے پاکستان کا دورہ کرنا تھا تاہم پاکستان کی سیاسی صورت حال میں کشیدگی کی وجہ سے انھیں اپنا دورہ ملتوی کرنا پڑا۔گذشتہ نو برسوں میں کسی بھی چینی صدر کا پاکستان کا یہ پہلا دورہ ہو گا۔چینی صدر کے دورے میں46ارب ڈالر کے منصوبوں پر دستخط کا امکان ہے۔

پاک چین دوستی سمندر سے گہری اور ہمالیہ سے کہیں اونچی ہے۔ کوئی بھی ملک آج تک اس کی گہرائی اور اونچائی کی پیمائش نہیں کر سکا۔ چین ہمارا ہمسایہ ملک ہے جس کے ساتھ پاکستان کے دیرینہ تعلقات ہیں جوروز بروز مضبوط سے مضبوط تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ چین نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کا بھرپور ساتھ دیا ہے۔

چین آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے جس کی آبادی تقریباً 130 کروڑہے۔ معاشی لحاظ سے یہ ملک امریکہ کے بعد دنیا کی مضبوط ترین ریاست ہے۔ پاکستان اور چین پڑوسی ہونے کے ناطے ہی ایک دوسرے کے قریب نہیں بلکہ دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔اِقتصادی حجم کے لحاظ سے آج چین پوری دنیا میں چوتھے درجے پر ہے۔

Pakistan China Fiendship

Pakistan China Fiendship

چین اقوام متحدہ کے بانی ممالک میں شامل ہے اس وجہ سے چین کو سلامتی کونسل میں ویٹو کا حق بھی حاصل ہے۔ دوعشروں تک مغرب کی چین دشمنی کی وجہ سے اسے اقوام متحدہ میں اپنے جائز مقام سے محروم رہنا پڑا۔ 25اکتوبر1971چین کی تاریخ میں ایک بہت بڑی اہمیت کا حامل دن ہے کیونکہ اس روز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھاری اکثریت کے ساتھ عالمی ادارے میں چین کی مراعات بحال کر دیں۔ چین کی اقوام متحدہ میں یہ غیر معمولی کامیابی دنیا کے دیگر ترقی پذیر ممالک کے لئے بھی بہت اہمیت رکھتی تھی کیونکہ چین ہر فورم پر ترقی پذیر ممالک کے حقوق کے لئے آواز اٹھاتا رہا ہے۔

ایک مشہور اورقدیم چینی کہاوت ہے کہ خوراک انسان کی سب سے اولین ضرورت ہے۔چین کے لوگ آج بھی اس مقولے پر عمل پیرا ہیں وہ خوراک کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ چین بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے اس کی بیشتر آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے۔ زراعت کو شروع ہی سے چینی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل رہی ہے۔

پاکستان کے ساتھ چین کے ساتھ تعلقات قیام پاکستان کے بعد ہی قائم ہوگئے تھے مگر اچھے تعلقات کی بنیادکی پہلی اینٹ اس وقت رکھی گئی جب پاکستان نے 1950ء میں تائیوان کی حکومت کو ماننے سے انکار کیا۔ اس کے بعد 1962 میں چین بھارت جنگ، پاکستان اور چین کو اور قریب لے آئی جس کی وجہ ہندوستان پر دباؤ قائم رکھنا تھا۔ 1978 میں چین اور پاکستان کے درمیان پہلے اور اب تک کے واحد زمینی راستے قراقرم ہائی وے کا باقاعدہ افتتاح ہوا جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تجارت اور رابطوں میں اضافہ ہوگیا۔

Nawaz Sharif and Xi Jinping

Nawaz Sharif and Xi Jinping

چین نے پاکستان کی ہر میدان میں مدد کی۔دفاعی میدان میںچین نے پاکستان کو مکمل سپورٹ دی۔ دونوں ممالک کے درمیان فوجی تعاون کے اہم منصوبے جن میں 2001 میں الخالد ٹینک، 2007 میں لڑاکا طیارے ”ے ایف ـ17 تھنڈر” 2008 میں”ایفـ22 پی” فریگیٹ اور”کےـ8 قراقرم”ایڈوانسڈ تربیتی طیاروں کی تیاری اور دفاعی میزائل پروگرام میں قریبی اشتراک شامل ہے۔ دونوں ممالک کی افواج کئی مشترکہ فوجی مشقیں بھی کرچکی ہیں جن میں سب سے اہم رواں سال ہونے والی فوجی مشق تھی جس کا مقصد انسدادِ دہشت گردی کے لیے باہمی تعاون کا فروغ قرار دیا گیا تھا۔

دفاعی تعاون کی انہی سمجھوتوں کی بدولت 2007 میں چین پاکستان کو ہتھیار فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک بن گیاتھا۔ موجودہ دور حکومت میں دونوں ممالک کے یہ تعلقات مزید مضبوط ہوئے ہیں اور حکومتی کوششوں ہی کا نتیجہ ہے کہ چین نے پاکستان میں مختلف شعبوں میں 32 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا عندیہ دیا جو بہت بڑی سرمایہ کاری ہے، دنیا کا کوئی اور ملک پاکستان میں اتنی بڑی سرمایہ کاری نہیں کر رہا۔ چینی انجینئرز اور ماہرین اس وقت پاکستان میں مختلف شعبوں کی ترقی کے لیے کام کر رہے ہیں۔ پاکستان اور چین کی اس لازول دوستی پر سٹیٹ بینک نے 20 روپے کا یادگاری سکہ جاری کیا۔

دورہ پاکستان کیسنل ہونے کی صورت میں چینی صدر نے بھارت کا دورہ کیا۔اس دورہ بھارت پر بہت سے لوگوں نے انگلیاں اٹھائیں۔کچھ لوگ سمجھ رہے تھے کہ چین بھارت کو پاکستان پر فوقیت دے رہا ہے مگر چینی حکمرانوں نے ہمیشہ پاکستان کو اہمیت دی اور باقی ممالک سے صرف تعلقات رکھے۔ چینی صدر کے اس دورے پر پوری دنیا کی نظر ہے ۔ پاک چین دوستی اب مزید مستحکم ہوگی۔ عوام پُر امید ہے کہ شاید چینی صدر کے دورے کے بعد پاکستان سے بجلی کا بحران ختم ہوجائے گا۔ملک میں خوشحالی ہوگی۔ پاک چین عوام کو اس دوستی پر نازہے اور دعا ہے کہ یہ تعلقات روز بروز مزید مستحکم ہوں۔

Aqeel Khan

Aqeel Khan

تحریر : عقیل خان
[email protected]