مجھے آج بھی وہ دن اچھی طرح یاد ہے جب شام کو عصر کی آذان کے ساتھ ہی نانا جان (مرحوم) کی بارعب آواز سنائی دی کہ سب اٹھ کر عصر کی نماز ادا کرلیں اور اس کے بعد وہ خود مسجد کی طرف روانہ ہو گئے نماز روزہ کے سب پابند تھے مگر اس کے باوجود نماز کے لیئے سب کو یاد کرانا وہ اپنا فرض سمجھتے تھے جیسے ہی وہ عصر کی نماز ادا کر کے آئے سب بچوں کو اکٹھا کیا اور شام کی سیر پر نکل گئے یہ پاکستان میں حیدر آباد شہر کا ایک اندرون محلہ تھا جہاں ہم والدہ کے ہمراہ گرمیوں کی چھٹیاں گزار نے جایا کرتے تھے۔
پنجاب کے برعکس اندرون سندھ اور خاص طور پر حیدرآباد میں اب بھی ہندوؤں کی دکانیں اور گھر موجود تھے اور سب اتفاق سے مل جل کر رہتے تھے نا ناجان ایک دکان پر رکے ،سلام دعا اور مزاج پرسی کے بعد آگے چل پڑے کچھ دیر بعد جونہی مغرب کی آذان ہوئی ناناجان نے ہمیں گھر چھوڑا اور خود مغرب کی نماز پڑھنے مسجد چلے گئے اس بات کو گزرے دس پندرہ سال کا عرصہ بیت چکا ہے مگر ایسا لگتا ہے جیسے کسی اور زمانے کی بات ہو۔
اس وقت ہر گھر میں تہذیب و تمدن نظر آتا، بڑے چھوٹے کا احترام ،شرم و حیا ہر عورت کا زیور ہوتا میرے نانا جان جو انگریزوں کے ساتھ پڑھے اور نوکری کرتے رہے، ماڈرن خیالات کے مالک ضرور تھے مگر اس کے ساتھ ساتھ تہذیب و تمدن،اصول پسندی اور حسنِ سلوک کی ایک اعلیٰ مثال تھے۔
کچھ سال پہلے کوئی بھی چھوٹا اپنے سے بڑے کی ڈانٹ اور نصیحت کا برا نہیں مناتا تھا بلکہ عزت و احترام سے اپنے سے بڑے کی بات سن کر اس پر عمل کیا جاتا تھا مگر جیسے جیسے وقت کے پہیے نے گردش کی گھروں کے ماحول اور حالات میں تبدیلی آتی گئی کہاں کچھ عرصہ پہلے گھروں کی عورتیں ، بڑوں کے سامنے بولنا تو دور کی بات، بغیر دوپٹہ کے سامنے نہیں آتی تھیں اور آجکل بیٹیاں، بہنیں، بیویاں شرم و حیا کی اس زینت کو کہیں پیچھے چھوڑ چکی ہیں۔
نماز روزہ کی پابندی ،رشتوں کا ادب و آداب ،بڑے چھوٹے کی عزت آجکل بھی ہزاروں گھروں میں موجود ہے مگر کسی چیز کی کمی ہے جو اندر ہی اندر اخلاقیات، پرورش اور گھروں کے ماحول میں فرق ڈال رہی ہے اور بڑوں اور چھوٹوں میں چھوٹی چھوٹی غلط فہمیا ں پیدا کرنے کا باعث بن رہی ہے نسلوں میں پیدا ہونے والے اس فرق کو جنریشن گیپ کا نام دیا گیا ہے۔
جنریشن گیپ کا تصور ۱۹۶۰ میں مغربی دنیا سے آیا جس کا مطلب دو مختلف دور کی نسلوں کا مختلف سوچ اور افکار کے ساتھ ایک جگہ پر ایک دوسرے کے ساتھ مل کر رہنا ہے خاص طور پر والدین اور اولاد کے درمیان پائے جانے والے نظریاتی اختلافات جو ان میں تناؤ پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں ،۱۹۴۰ کی دہائی کے بعد جیسے ہی ۱۹۵۰ کی دہائی کا آغاز ہوا نوجوان نسل اور ان کے درمیان نظریاتی اختلافات میں فرق بڑھنے لگاالغرض رہن سہن، سوچ، ثقافت، موسیقی،سیاحت حتی ٰ کہ بنیادی حقوق کے حصول میں بھی فرق آگیا۔
نسلوں کے درمیان پیدا ہونے والے فرق کی بنیادی وجہ تیزی سے ہوتی ہوئی ترقی اور ٹیکنالوجی کا بڑھتا ہوا ستعمال ہے اگر پچھلے کچھ عرصہ پر غور کریں تو ایک ایک گھر میں دو دو، تین تین نسلیں اکٹھی رہا کرتی تھیں دادا، دادی، چچا، تایا بمعہ اہل و عیال پیار محبت سے رہتے تھے مگر وقت کے ساتھ ساتھ اس رجحان میں کمی آتی گئی نئی آنے والی نسل کی سوچ بدلنے لگی اور بڑوں سے کہیں آگے نکل گئی۔
نوجوان نسل اب ایسی جدید ٹیکنالوجی استعمال کر رہی ہے جس کے استعمال سے ان کے والدین نا آشنا ہیں جیسا کہ لیپ ٹاپٹ ،ٹیبلٹ ،آئی پیڈ، وغیرہ اگر آشنا ہیں تو اس حد تک عبور حاصل نہیں جتنا ان کی اولاد اور نئی نسل کو ہے۔
Mind The Gap The Generation Gap
جنریشن گیپ کی عمدہ مثال ہمیں آفس اور دوسری کام کرنے والی جگہوں پر خوب ملتی ہے جب مختلف عمر کے لوگ مختلف نظریات کے ساتھ ایک جگہ پر نوکری یا کاروبار کرتے ہیں سنِ پیدائش کے اعتبار سے مختلف عمر کے لوگوں کو مختلف گروپس میں تقسیم کیا گیا ہے (حامل،۲۰۰۵) اور اس گروپ بندی کو ’جنریشن ٹائم لائن‘ کہا جاتا ہے۔
ویٹرنز (۱۹۴۵۔۱۹۲۲) پیدائش بے بی بومرز (۱۹۶۴۔۱۹۴۶)پیدائش جنریشن ایکس ( ۱۹۸۰۔۱۹۶۵)پیدائش جنریشن وائے (۲۰۰۰۔۱۹۸۱)پیدائش
ہر گروپ سے تعلق رکھنے والے افراد کی سوچ دوسرے گروپ سے مختلف ہوتی ہے حتیٰ کہ رابطہ رکھنے کا طریقہ بھی جدا ہے مثال کے طور پر ویٹرنز جو پرانے خیالات کے مالک ہیں فون کا استعمال اور فون پر جواب دینے کو فوقیت دیتے ہیں ،اس کے برعکس جنریشن وائے صرف ٹیکسٹ میسج پر جواب دینا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ مختلف گروپ سے تعلق رکھنے والے افراد کی چیدہ چیدہ خصوصیات سے انہیں سمجھنے میں خاطر خواہ مل سکتی ہے ۱۹۲۲سے ۱۹۴۵ میں پیدا ہونے والے افراد کو ’ویٹرنز‘ کہا جاتا ہے یہ افراد جس بھی کمپنی میں کام کریں بلکل ابتدا سے کام کو آگے لے جانا پسند کرتے ہیں اس لوگوں کے نزدیک کسی بھی فرد کا تجربہ بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے ان لوگوں کی مینجمنٹ بہت مضبوط ہوتی ہے یہ آمنے سامنے یا فون پر بات کرنے کو فوقیت دیتے ہیں۔ ۱۹۴۶سے ۱۹۶۴ میں پیدا ہونے والے افراد کو ’بے بی بومرز ‘ کہا جاتا ہے یہ جس بھی کمپنی میں کام کریں سالانہ رپورٹ کو بہت اہمیت دیتے ہیں یہ افراد دن میں کئی مرتبہ ای میل چیک کرتے ہیں اور ای میل پر جواب دینا پسند کرتے ہیں ۔ ۱۹۶۵ سے ۱۹۸۰ میں پیدا ہونے والے افراد کو ’ جنریشن ایکس‘ کہا جاتا ہے ، یہ افراد اپنی صلاحیتوں کو مختلف جگہوں پر آزماتے ہیں اور جیسے ہی انہیں کوئی بہتر موقع ملتا ہے یہ نوکری بدل لیتے ہیں یہ افراد بھی ای میل پر جواب دینا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ ۱۹۸۱ سے ۲۰۰۰ میں پیدا ہونے والے افرا د ’ جنریشن وائے ‘ کہلاتے ہیں اس گروپ سے تعلق رکھنے والے افراد کو اپنی صلاحیتوں پر بہت ناز ہوتا ہے نوکری میں مستقل مزاجی یہ صرف اس وقت تک دکھاتے ہیں جب تک بور نہیں ہوجاتے یہ کسی سے بھی غیر ضروری ملنے اور فون پر جواب دینے کی بجائے ٹیکسٹ میسج پر جواب دینا زیادہ پسند کرتے ہیں۔
سوچ کا یہ فرق جب گھر والوں خاص طور پر والدین اور اولاد کے درمیان آجائے تو چھوٹے چھوٹے مسائل کو جنم دیتا ہے اولاد سے بڑھ کر والدین کے لیے کوئی قیمتی سرمایہ نہیں مگر والدین اکثر اولاد کی اچھی پرورش کرتے ،ان کی اچھی صحت ،بہتر زندگی اور کرئیر بناتے ان کی نفسیاتی اور روحانی مسائل کو نظر انداز کر دیتے ہیں یہی لاپرواہی بعد میں بچوں میں منفی اثرات پیدا کرنے کا باعث بنتی ہے اور یہی منفی اثرات بچوں کی ذات کا حصہ بن جاتے ہیں۔ مائیں آجکل بیٹیوں کی بات اور ان کے مسائل سننے اور سمجھنے کی بجائے ڈانٹ ڈپٹ سے کام لیتی ہیں اسی طرح باپ بیٹے کی بات سننے کی بجائے خفگی کا اظہار کرتے ہیں اور یوں بیٹیاں ماں سے اور بیٹے باپ سے کترانے لگتے ہیں اور نتیجتاً نسلوں میں پیدا ہونے والا فرق بڑھتا چلا جاتا ہے اس لیے والدین کو اپنی مرضی اور سوچ بچوں پر مسلط کرنے کی بجائے ان کو سمجھنا چا ہیے اور محبت اور شفقت سے ان کی پریشانیوں اور روزمرّہ زندگی میں آنے والے مسائل کا حل نکالنا چاہئیے ۔ کچھ چھوٹی چھوٹی باتوں کو بروئے کار لا کر نسلوں میں پیدا ہونے والے فرق کو کم کیا جاسکتا ہے بچوں کو کبھی اس بات کا احساس نہ دلائیں کہ آپ پرانے زمانے سے ہیں یا آپ کو آجکل کے ماڈرن زمانے سے کوئی دلچسپی نہیں ،جدید ٹیکنالوجی سے دلچسپی کا اظہار کریں اور اسے سیکھنے کی کوشش کریں جب بھی بچہ آپ سے کچھ شیئر کرے تو اسے آجکل کے ماڈرن تقاضوں اور دور کو سامنے رکھتے ہوئے سوچیں اگر بچہ آپ سے موٹر بائیک کی فرمائش کرتا ہے تو یہ نہ سوچیں کہ آج سے۰ ۳سال پہلے جب آپ کی عمر پندرہ سال تھی تو آپ کے پاس تو سائیکل تھی ۔بچوں کی ضرورتوں کو آجکل کے مطابق سوچیں نہ کہ اپنے زمانے کے مطابق ،بچوں سے دوستی اور خوشگوار ماحول قا ئم کرکے جنریشن گیپ کوبہت حد تک کم کیا جاسکتا ہے جتنی زیادہ آپ بچوں سے باتیں شئیر کریں گے ،ان پر اعتماد کریں گے، زندگی کے چھوٹے چھوٹے معاملات میں ان کی مدد کریں گے ،گھر کا ماحول اتنا ہی خوشگوار ہو گا،اولاد فرمانبردار ہو گی اور غلط راستوں پر بھٹکنے سے بچے گی۔
Children
بچوں کی بات سننے اور سمجھنے کے ساتھ ساتھ ان کو اخلاق، تہذیب و تمدن، رہن سہن میں گائیڈ کریں اگر بچہ آپ کو کچھ سمجھاتا ہے تو اسے ڈانٹنے کی بجائے خوشدلی سے اس کی بات کا خیرمقدم کریں چھوٹے چھوٹے اقدام اٹھا کر ہم گھروں اور آفس کے ماحول کو خوشگوار بنا سکتے ہیں اور ایک ایسا ماحول بنا سکتے ہیں جہاں بڑوں اور چھوٹوں کے درمیان عزت و احترام کا رشتہ بھی قائم ہواور نسلوں کے درمیان اس فرق کو شیئرنگ سے کم بھی کیا جاسکے۔ جنریشن گیپ کے منفی اثرات جس میں نوجوان نسل میں بے راہ روی،ڈرگز کا بڑھتا ہوا استعمال،چڑچڑاپن شامل ہیں آجکل کے نوجوان لڑکے ، لڑکیاں اپنے گھروں کا پرسکون ماحول چھوڑکر نامعلوم منزل کی طرف گامزن ہیں پس والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کا بہتر کرئیر بنانے کے ساتھ ساتھ ان کی روحانی،اخلاقی اور سماجی تربیت بھی کریں اور اشرف المخلوقات کے منسب پرفائز ہونے کا حق ادا کریں۔