تحریر: شیخ توصیف حسین دو صدیاں قبل ایک ہندو سیٹھ لکھی رام جو سخاوت کرنے میں بڑا مشہور تھا جو بھی اُس کے در پر آ تا خالی ہاتھ واپس نہ جاتا اگر کسی سائل کی کوئی خواہش ہوتی تو سیٹھ اُس کی خواہش کی تکمیل کر نا اپنا فرض عین سمجھتا تھا وقت اسی طرح گزر رہا تھا کہ ایک دن اُس سیٹھ کے پاس ایک سادھو آ گیا جس پر سیٹھ نے اُس سے پو چھا کہ کیا چاہتے ہو تو سادھو نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ مجھے کچھ نہیں چاہیے جس پر سیٹھ نے سا دھو سے کہا تو پھر تمھارے یہاں آنے کا مقصد کیا تھا یہ سننے کے بعد سادھو نے سیٹھ کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ میری یہ خواہش تھی کہ میں ایک لاکھ روپے کا ڈھیر دیکھو ں کیا آپ مجھے یہ دکھا سکتے ہیں یہ سننے کے بعد سیٹھ نے سادھو سے کہا کہ میں آپ کی خواہش دو دن کے بعد پوری کر دوں گا یہ سن کر سادھو وہاں سے چلا گیا جس کے جانے کے بعد سیٹھ نے اپنے ملازم کو بلا کر کہا کہ دو دن کے بعد ایک لاکھ روپے کے سکوں کا ڈھیر لگا دیا جائے۔
حسب وعدہ دو دن کے بعد سادھو وہاں پہنچا تو اُسے ایک لا کھ روپے کے سکوں کا ڈھیر نظر آیا جسے وہ کچھ دیر تک دیکھتا رہا کہ اسی دوران سیٹھ نے سادھو سے کہا کہ یہ ایک لا کھ روپے کے سکوں کا ڈھیر اب تمھا را ہے لہذا اسے تم اٹھا لو جس پر سادھو نے سیٹھ کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ مجھے نہیں چا ہیے یہ سننے کے بعد سیٹھ نے سادھو سے کہا کہ پھر آپ نے یہ مطا لبہ کیوں کیا تھا جس پر سادھو نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں نے تو بس ایک خواہش ظاہر کی تھی جو آپ نے پوری کر دی ہے بس میرے لیے یہی کافی ہے سادھو کے اس جواب کو سن کر سیٹھ نے دو بارہ زور دیتے ہوئے کہا کہ میں آپ کو کہہ رہا ہوں کہ اس ایک لا کھ روپے کے سکوں کو اُٹھا کر اپنے ساتھ لے جائو چونکہ اب یہ ایک لاکھ روپے کے سکوں کا ڈھیر تمھارا ہے اور ویسے بھی آپ کو میرے جیسا سیٹھ نہیں ملے گا جس پر سادھو اپنی گودڑی کندھوں پر ڈالتے ہوئے وہاں سے خالی ہاتھ یہ کہہ کر چلا گیا کہ خداوند کریم کی خوشنودگی کے سامنے یہ ایک لاکھ روپے کے سکوں کا ڈھیر کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔
Money
سچ تو یہ ہے کہ جس دولت کو سادھو اور درویش ٹھکرا دیتے ہیں وہ دولت طوائف کے قدموں میں پڑی ہو تو وہ اُسے اُٹھا نا اپنی توہین سمجھتی ہے اُسی دولت کے حصول کی خا طر آج پڑھا لکھا طبقہ اپنا ضمیر اور ایمان فروخت کرنے میں مصروف عمل ہے جن کی چند ایک مثالیں میں اپنے قارئین کی نظر کر رہا ہوں ڈاکٹرز جہنیں ماضی کے افراد مسیحا سمجھتے تھے آج دولت کے حصول کی خا طر ڈریکولا کا روپ دھار کر سرکاری ہسپتالوں میں داخل غریب مریضوں کا خون چوس رہے ہیں جو زیادہ تر اپنے فرائض و منصبی سرکاری ہسپتالوں میں ادا کرنے کے بجائے اپنے پرائیویٹ کلینکوں پر ادا کرنے میں مصروف عمل ہیں جن کے اس گھنائونے اقدام کی وجہ سے متعدد غریب مریض بر وقت طبی امدار نہ ملنے کے سبب بے موت مر رہے ہیں اور تو اور ان کی لوٹ مار اس قدر بڑھ چکی ہے کہ یہ آ پریشن کے دوران غریب مریضوں کے ورثا کو ادویات کی مد میں دونوں ہا تھوں سے لوٹنا شروع کر دیتے ہیں۔
یہی کافی نہیں بعض ڈاکٹرز تو حرام کی کمائی کے حصول کی خا طر اپنے ضمیر کو فروخت کرتے ہوئے جھوٹ پر مبنی میڈیکل سرٹیفکیٹ بنا کر دے دیتے ہیں جس کے نتیجہ میں لاتعداد افراد ناکردہ جرائم میں ملوث ہو کر بند سلاسل ہو کر رہ گئے ہیں جبکہ ان کے باقی ماندہ خا ندان بھوک اور افلاس سے تنگ آ کر بھیک مانگنے پر مجبور ہو کر رہ جاتے ہیں۔ اگر کوئی ان کے اس گھنائو نے اقدام پر آواز حق بلند کرتا ہے تو یہ غنڈہ گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے احتجاج احتجاج کے سلسلے کو جاری رکھ کر انسانیت کی تذلیل کر نے کیلئے ایمر جنسی وارڈز کو بند کر کے سڑکوں پر آ جاتے ہیں۔
Private Clinics
اگر آپ نے ان کا حسن اخلاق دیکھنا ہو تو صرف اور صرف ان کے پرائیویٹ کلینکوں پر دیکھے وہاں یہ امیر ترین مریضوں کا علاج و معالجہ اور خدمت کچھ اس انداز میں کر رہے ہوتے ہیں جیسے تابعدار بیٹا اپنے باپ کی یا پھر رن مرید اپنی بیوی کی اور اگر انھیں سرکاری ہسپتالوں میں دیکھے تو یہ غریب مریض کو ایسے دیکھتے ہیں کہ جیسے ہندو برہمن قوم اچھوتوں کو یا پھر طوائف اپنے بھوکے عاشق کو اسی طرح آپ محکمہ مال کے عملہ کو دیکھے جو پٹواری سے لیکر تحصیلدار اور تحصیلدار سے لیکر اے سی تک اپنے فرائض و منصبی دہاڑی لگائو اور مال کمائو کی سکیم پر عمل پیرا ہو کر ادا کر نے میں مصروف عمل ہیں جو کہ ایک تعجب خیز بات ہے کہ محکمہ مال کا عملہ کھلے عام لوٹ مار اور ناانصافیوں کی تاریخ رقم کرنے میں مصروف عمل ہیں جبکہ ارباب و بااختیار خاموش تماشائی جس سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس ملک میں قانون کی نہیں قانون شکن عناصر کی حکمرانی ہے بالکل اسی طرح آپ اپنے سیاست دانوں کو دیکھ لیں جن میں زیادہ تر وہ سیاست دان ہیں۔
جو الیکشن ملک و قوم کی بھلائی کیلئے نہیں لڑتے بلکہ اپنے ذاتی مفاد کے حصول کی خاطر لڑتے ہیں الیکشن کے دوران یہ کروڑوں اربوں روپے خرچ کر دیتے ہیں لیکن غریب خاندان کے بیٹوں اور بیٹیوں کیلئے چند سو روپے بھی خرچ نہیں کرتے اور تو اور یہ اگر کسی غریب خاندان کو ملتے بھی ہیں تو بڑی منافقت کے ساتھ جھوٹے وعدے اور جھوٹی تسلیاں دینے کیلئے اور بعد ازاں یہ اپنے اپنے علاقوں سے ایسے غائب ہو جاتے ہیں جیسے گدھے کے سر پر سے سینگ ذرا سوچیے کہ اگر ہمارے ملک کے تعیم یافتہ طبقہ اگر لوٹ مار ظلم و ستم اور ناانصافیوں کی تاریخ رقم کرکے ملک وقوم کو تباہ و بر باد کر نے میں مصروف عمل ہے تو ہمیں ہندوستان و دیگر دشمن ممالکوں سے شکوہ کیسا بس آ خر میں یہی کہوں گا۔ کہ بک گیا دوپہر تک بازار کا ہر ایک جھوٹ اور میں ایک سچ کو لیکر شام تک یونہی کھڑا رہا