لندن (جیوڈیسک) فرانس اور برطانیہ شام کے تنازع پرامن حل کے لیے جنیوا میں ہونے والے امن مذاکرات کی ناکامی کے لیے شامی صدر بشاالاسد کی حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ برطانیہ کے سیکرٹری خارجہ ویلم ہیگ امن مذاکرات کی ناکامی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس کی مکمل ذمہ داری بشار الاسد کی حکومت پر ہے جبکہ فرانس کے وزیرِ خارجہ لورین فابیئس نے شامی کو حکومت پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے مذاکرات میں رکاوٹ ڈالی۔
شام کے تنازع کے لیے اقوامِ متحدہ اور عرب لیگ کے نمائندہ خصوصی الاخضر ابراہیمی نے سوئٹزرلینڈ میں منعقد امن مذاکرات کی ناکام پر شامی عوام سے معذرت کی۔
شام کے صدر بشار الاسد اور شامی باغیوں کے نمائندوں کے درمیان جنیوا میں جاری مذاکرات کا دوسرا دور مکمل ہو گیا اور الاخضر ابراہیمی کی ’ڈیڈ لاک‘ کے خاتمے کے لیے فریقین سے بات چیت کی آخری کوشش بھی ناکام ہو گئی تھی۔ بات چیت صرف 27 منٹ جاری رہی جس کے بعد الاخضر ابراہیمی نے باہر آ کر کہا تھا کہ وہ شامی عوام سے معذرت خواہ ہیں اور بات چیت نتیجہ خیز نہیں رہی۔
برطانوی سیکرٹری خارجہ ویلم ہیگ نہ کہا کہ یہ بات واضح ہے کہ شامی حکومت ملک کے لیے عبوری انتظامیہ کے قیام کی مخالف ہے اور یہ مذاکرات میں بنیادی معاملہ ہے اور جو کشیدگی ختم کرنے کے لیے ایک اہم راستہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہم پر شام کے عوام کا حق ہے کہ ہم اس تنازع کے سیاسی حل کے لیے جو کچھ کر سکتے ہیں کر لیں۔
اس لیے ہم الاخضر ابراہیمی اور جنیوا میں امن مذاکرات کے عمل کی مکمل حمایت جاری رکھیں گے۔ فرانس کے وزیرِ خارجہ لورین فابیئس نے کہا کہ شام نے عبوری انتظامیہ کے قیام میں رکاوٹ ڈالی اور عام شہریوں کے خلاف پرتشدد کارروائیوں میں اضافہ کیا۔ روس اور امریکہ کی طرف ان مذاکرات کی ناکامی پر ابھی تک سرکاری طور پر کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا۔
دونوں شام کے جنیوا مذاکرات کے مددگار ہیں لیکن دونوں مخالف فریقین کے حمایت کرتے ہیں۔ الاخضر ابراہیمی کا کہنا تھا کہ فریقین کو بات چیت کے لیے دوبارہ اپنے مرکز پر واپس جانا چاہیے اور سوچنا چاہیے کہ وہ اس عمل کو جاری رکھنا چاہتے ہیں کہ نہیں۔ انھوں نے کہا تھا کہ مذاکرات کے تیسرے دور کے لیے کوئی نظام الاوقات طے نہیں کیا گیا ہے۔
شام میں مارچ 2011ء میں حکومت مخالف بغاوت کے آغاز کے بعد سے اب تک ایک لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ 95 لاکھ افراد کو نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑا ہے۔