تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری آخر جادوگروں نے جادو گری کے طریقے ایجاد کرہی ڈالے۔اور” شریف “طالبعلم کو بھی سکھادیے۔بالآخر نواز شریف صاحب نے تین ہفتے انتظار کرکے اپنے بچائو کا فارمولہ ڈھونڈ ھ ہی نکالا۔کمیشن اپوزیشن کی مرضی کا ہی ہو گا۔مگر اسے ذمہ داریاں اتنی سونپ دی گئی ہیں کہ جس کے نتائج دیکھنے کے لیے عمر خضر چاہیے۔ آج تک کے تمام باہررقوم بھیجنے والوں کی بھی تحقیقات ہوں گی۔اور بنکوں سے لی گئی رقوم معاف کروانے والے بھی کٹہرے میں کھڑے کیے جائیں گے۔پانامہ لیکس نے یہاں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں سود خورصنعتکاروں اور کرپٹ لٹیرے حکمرانوں کے پاجامے گیلے کر دیے ہیں۔
پاکستان میںآمر و جابر کرپٹ حکمرانوں کو مشیر بھی ایسے مل ہی جاتے رہے ہیں جن سے ان کا اقتدار ان کی مرضی کی مدت تک جاری رہے پہلے تو تمام عدالتیں ہی ایسے ایسے جواز مہیا کردیا کرتی چلی آرہی ہیںکہ ان کا اقتداری”کلہ”ہمیشہ ہی مضبوط رہا ہے مارشل لاء ایوبی ہو یا یحیٰی خانی یا سویلین بھٹو والا۔سبھی کو عدالتی تحفظ حاصل رہا ہے اب بڑی عوامی رائے کیمطابق یہ کمیشن اپنا کام 2020تک بھی مکمل شایدنہ کرسکے۔
مشرقی پاکستان کے ٹوٹنے سے یہ کوئی بڑا واقعہ بھی نہ ہے اس پر بننے والے حمود الرحمان کمیشن کی طرح اس کے نتیجہ آئوٹ کا امکان بھی صفر ہی ہے ۔میں نے گذشتہ کالم” انکوائری کمیشن یا ایس ایچ او”میں گذارش کی تھی کہ پانامہ لیکس کے ملزمان کو کسی دیہاتی تھانہ کے ایس ایچ اوکے حوالے کردیا جائے تو دنوں میں ہی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔ اور دودھ میں جو ملاوٹ ڈالی گئی ہو گی وہ بھی اوپری سطح پر تیرنے لگے گی۔
Police Arrest
دیہاتی تھانوں میں تفتیش کرتے ہو ئے ملزمان پر ڈانگ پھیرنے ،منجی لگانے، جگراتے اور لتر پریڈ کے معمولی مزا چکھتے ہی جو ملزم نہ بھی ہو وہ بھی مان جاتا ہے کہ ہاں میں نے ہی یہ جرم کیا ہے اور تو اوروہ دوسروں کے کیے گئے جرائم بھی اپنے کھاتہ میں ڈال لیتا ہے ہماری پولیس کی خاصیت یہ ہے کہ اگر وہ چاہے تو مقتول کو قاتل اور قاتل کو مقتول بنا سکتی ہے۔حتیٰ کہ قاتل کو مقدمہ سے بھی خارج کرسکتی ہے۔کئی بار ایسا بھی ہو ا ہے کہ جنہوں نے مقتول کی شکل تک بھی ساری زندگی نہ دیکھی ہو وہ پھانسی کے پھندے پر جھول جاتے ہیں ان کے مرتب کیے گئے چالان کی بنیاد پر ہی ایک وزیر اعظم پھانسی پر لٹکادیے گئے تھے۔
پاکستانی حکمرانوں نے بڑے بڑے معزز لوگوں کو قتل کر واڈالا مگر ایسے مقدمات کبھی بھی آمروں کی زندگیوں میں عدالتوں میں پیش ہی نہ ہو سکے۔اب موجودہ حکمران کیو نکر اپنے گلے میں قانون کا شکنجہ کسوائیں گے الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ کبھی بند اور کبھی چل پڑتی ہے یہ سب کچھ کیا ہے؟درا صل محترم وزیر اعظم نے اپنے انتخابی فارموں میں اپنی اور اپنی اولادوں کی بیرون ممالک جائدادوں کے خانے کو خالی چھوڑ دیا تھا۔جب کہ آئین پاکستان واضح کرتا ہے کہ دفعہ 62،63کے تحت جو بھی شخص جھوٹ بولتا پکڑ ا جائے یعنی وہ صادق و امین نہ رہے تو ایسا شخص اسمبلی کی ممبر شپ سے نا اہل تصور ہوگاان حالات میں جھوٹ ثابت ہی نہیں ہو گیا بلکہ سر پر چڑھ کر بول رہا ہے۔
اب شریف صاحب ممبر اسمبلی کے طور پر ہی نا اہل تصور کیے جائیں گے۔تو وزارت عظمیٰ خود بخود ہی ختم سمجھی جائے گی۔سچ بات تو یہ ہے کہ انکوائری کمیشن کا نتیجہ اول تو نکلے گا ہی نہیں اگر نکلا بھی تو اتنا لیٹ ہو گا کہ کئی حکمرانیاں تبدیل ہو چکی ہوں گی اور ہو سکتا ہے کہ ملزمان ہی دوسری دنیا کو سدھار چکے ہوں ۔اور کئی سالوں بعد تو لوگ پانامہ لیکس کو ہی بھول چکے ہوں گے غدار وطن حسین حقانی کیسے بیل آئوٹ ہوااور گیدڑوں کی طرح جان چھڑا کر باہر بھاگ نکلا۔ریمنڈ ڈیوس والا واقعہ بھی دماغوں سے کھرچا ہی نہیں جاسکتا۔ کئی ایان علیاں بھی اڑتی گھوم رہی ہیں۔
Sharif Brothers
بہر حال شریفانہ جادو گری کی چال چلی جا چکی ہے اب ان کے وارے نیارے ہیں شریف خاندان و دیگر ملزمان موجیں اڑائیں اور شہنائیاں بجائیں کہ ان کے مشیر بہت قابل ہیں۔اپوزیشن بھی تنقید نہیں کرسکتی کہ کوئی بے انصافی توہو ہی نہیں رہی یہ شریفوں کا کارنامہ رہتی دنیا تک یا د رہے گا۔اپوزیشن اب خواہ پہاڑ سے سر پھوڑے کہ انصاف کا ڈنڈا سامنے دیوار بن کر کھڑا ہو گیا ہے اور یہ ڈنڈا اسی وقت برستا ہے جب وقت گزر چکا ہو تا ہے۔
آف شور کمپنیوں میں شامل ،رقوم باہر بھیجنے والے اور بنکوں کے قرضے معاف کروانے والے تو ہزاروں ہوں گے ہر ملزم کو اپنا دفاع کرنے اور وکیل کی تعیناتی کا حق تو قانون میں لکھ ڈالا گیا ہے۔اب ایک ایک ملزم پر فرد جرم عائد کرنے اس پر استغاثہ اور پھر ملزمان کی طرف سے گواہیاں پیش کرنے کے لیے ہزاروں دنوں کی ضرورت ہو گی۔ پھر وکلاء کی ہڑتالیں بھی وقت ضائع کریں گی اور کیس کولمبا کر ڈالنے کا فن تو کوئی ہمارے معز ز جید وکلاء سے ہی سیکھے۔
اسطرح ملزمان اور استغاثہ کے وکلاء کی مو شگافیاں بھی علیٰحدہ ہفتوں کا وقت لے سکتی ہیں اسطرح ہزاروں ملزمان کے لیے درجنوں ہزاروں دن چاہئیں۔ پس قصہ تمام ہوا اور عوام، اپوزیشن و حکمران اپنے اپنے دائروں میں سابقہ تنخواہوں پر گزارا کرتے،چیختے چلاتے دفاع کرتے نظر آتے ہیں۔سانپ گزر جائے گا اور ہم لکیر پیٹتے رہ جائیں گے۔