امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) عدالت نے سیاہ فام جارج فلوئیڈ کے قتل کے جرم میں سابق پولیس اہلکار ڈیرک شاوین کو ساڑھے بائیس برس کی سزائے قید سنائی ہے۔ فلوئیڈ کی موت کے سبب زبردست غم و غصے کی لہر دوڑ گئی تھی اور مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔
امریکی شہر منی ایپلس کی ایک عدالت نے پچیس جون جمعے کے روز شہر کے سابق سفید فام پولیس افسر ڈیرک شاوین کو سیاہ فام جارج فلوئیڈ کے قتل کے جرم میں بائیس برس چھ ماہ کی قید کی سزا سنائی ہے۔ استغاثہ نے انہیں کم از کم تیس برس قید کی سزا دینے کا مطالبہ کیا تھا۔ تقریبا دو ماہ قبل عدالت نے انہیں غیرارادی قتل، اقدام قتل اور دانستہ طور پر قتل کے الزامات کے تحت قصور وار قرار دیا تھا۔
پینتالیس سالہ سابق پولیس افسر ڈیرک شاوین نے گزشتہ برس مئی میں جارج فلوئیڈ کو زمین پر گرا کر ان کی گردن کو اپنے گھٹنے سے ساڑھے نو منٹ تک دبائے رکھا تھا۔ اسی وجہ سے ان کا دم گھٹ گیا تھا۔ فلوئیڈ کی موت کے بعد پولیس تشدد اور نسلی تفریق کے خلاف امریکا سمیت دنیا بھر میں مظاہروں کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔
سزا سناتے وقت جج پیٹر کاہیل نے فلوئیڈ کے اہل خانہ سے کہا، ”میں اس تکلیف کا اعتراف کرتا ہوں اور جو آپ محسوس کر رہے ہیں، میں وہ سنتا ہوں۔‘‘ پھر شاوین کو مخاطب کرتے ہوئے جج نے کہا کہ ”یہ سزا اس بنیاد پر ہے کہ تم نے اپنے اختیارات اور عہدے کا غلط استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ جارج فلوئیڈ کے ساتھ خاص طور پر ظالمانہ رویہ اپنایا تھا۔‘‘
جمعے کے روز سزا سنانے سے قبل عدالت کے باہر فلوئیڈ کے رشتے داروں اور اہل خانہ نے سفید فام مجرم کو سخت سے سخت سزا سنانے کا مطالبہ کیا تھا۔
فلوئیڈ کی سات سالہ بیٹی جینا نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ اگر وہ کچھ اپنے والد سے کہہ سکتی ہیں تو اتنا کہیں گی کہ ’’مجھے آپ کی بہت یاد آتی ہے اور میں آپ سے پیار کرتی ہوں۔‘‘ اس موقع پر شاوین نے بھی جج سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ وہ فلوئیڈ کے اہل خانہ کو اپنی تعزیت پیش کرتے ہیں۔
فلوئیڈ کے اہل خانہ کے وکیل بین کرمپ نے اس فیصلے کو سراہتے ہوئے اسے تاریخی قرار دیا اور کہا کہ اس کی وجہ سے ملک کے زخم بھرنے میں مدد ملے گی۔
مقامی عدالت نے شاوین کو سزا تو سنا دی ہے تاہم مجرم اس فیصلے کو اپیل عدالت میں چیلنج کرنے کا اختیار رکھتا ہے اور زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی جائے گی، جس کے لیے نوے دن کا وقت بچا ہے۔
اس سلسلے میں سابق پولیس افسر شاوین کے خلاف ایک وفاقی مقدمہ بھی درج ہے۔ وفاقی استغاثہ کی جانب سے یہ ایک سول رائٹ کیس ہے اور ابھی تک اس پر سماعت بھی شروع نہیں ہوئی۔ تو اس لحاظ اس کیس میں ابھی مزید موڑ آئیں گے۔
چھیالیس سالہ جارج فلوئیڈ کو ریاست مِنیسوٹا کے مرکزی شہر منی ایپلس میں پچیس مئی دو ہزار بیس کی شام کو چار سفید فام پولیس والوں نے حراست میں لیا تھا۔ اس سے متعلق ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ سڑک پر پیٹ کے بل پڑے ہوئے ہیں اور ایک پولیس اہلکار اپنے گھٹنے سے ان کی گردن پر پوری طاقت سے دباؤ ڈال رہا ہے۔
فلوئیڈ کے ہاتھ پیچھے بندھے ہوئے تھے اور وہ پولیس سے التجا کر رہے تھے، ”پلیز، مجھے سانس لینے میں پریشانی ہو رہی ہے۔ مجھے جان سے نہ مارنا۔‘‘ لیکن پولیس کی کارروائی کے چند منٹوں کے اندر اندر جارج کا وہیں سڑک پر دم نکل جاتا ہے۔
اس ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد امریکا بھر میں پولیس کی زیادتیوں، خاص طور پر سیاہ فام افراد کو نشانہ بنانے کے خلاف، مظاہرے شروع ہو گئے تھے۔ اس واقعے کی وجہ سے پولیس کی زیادتیوں کے خلاف غم و غصے کی لہر امریکا سے باہر نکل کر عالمی سطح پر پھیل گئی تھی۔ پیرس، برلن اور کوپن ہیگن سمیت یورپ کے مختلف شہروں میں اس کے خلاف مظاہرے ہوئے تھے۔ نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں بھی نسل پرستی اور پولیس کے امتیازی سلوک کے خلاف لوگوں نے احتجاج کیا تھا۔