ٹيکساس (اصل میڈیا ڈیسک) جارج فلوئڈ کو کل انکے آبائی شہر ہیوسٹن ميں انکی والدہ کے برابر دفنايا گيا جنکو وہ مرنے سے پہلے بار بار پکار رہے تھے۔ اس سیاہ فام باشندے کی پوليس کی حراست میں ہونے والی ہلاکت نے امریکی سیاسی منظر نامے پر ہلچل مچا دی ہے۔
سیاہ فام امریکی باشندے جارج فلوئڈ کی تدفین سے قبل ایک دعائیہ تقریب کا اہتمام فاؤنٹين آف پريز چرچ ميں کيا گيا تھا۔ يہ ايک نجی تقريب تھی۔ اس جنازے ميں تقريباً پچيس سو لوگ شريک تھے جس ميں سیاسی اورمذہبی رہنماؤں کےعلاوہ شوبزکے لوگ بھی شامل تھے۔ ان ميں امریکی اداکار جيمی فاکس، ہيوسٹن کے ميئر سلويسٹر ٹرنر، چیئر آف کانگريشنل پاکستان کاکس، کانگريس وومن شيلا جيکسن لی، کانگريس مين ايل گرين، کانگريس وومن لزی فليچراور چيئرآف کانگريشنل بليک کاکس کانگريس وومن کيرن بيس کے علاوہ کئی اہم شخصيات کی شرکت قابل زکر ہے۔
اس تقريب ميں جارج فلوئڈ کی زندگی اوراسکے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی۔ ايکٹوسٹ ايل شارپٹن نے کہا کہ يہ محض ايک سانحہ نہيں بلکہ ايک جرم ہے۔ انہوں نے صدر ٹرمپ کو تنقيد کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ، ”پرامن احتجاج کرنے والے مظاہرین پر تشدد کرکے انکو منتشر کرنا اور پھر چرچ کے سامنے کھڑے ہو کر تصوير کھنچوانا ايک منافقت اور شر پسندانہ عمل ہے۔ تقريب ميں جو بائيڈن کا ويڈيو ميسج بھی دکھايا گيا جس ميں انہوں نے اپنے اوراپنی اہليہ کی طرف سے پيغام ديتے ہوۓ کہا،”جو خلا روح کے حصہ کوسپرد خاک کرنے سے پيدا ہوتا ہے وہ کبھی نہيں بھرتا۔‘‘ انہوں نے جارچ فلوئڈ کی چھ سالہ بيٹی جئيانہ کو براہ راست مخاطب کرتے ہوئے کہا،”صديوں سے افريقی امريکی بچّے يہ سوال پوچھتے آ رہے ہيں کہ انکا باپ کہاں گيا اور يہ وقت کسی بچّے پرکبھی نہيں آنا چاہيے۔‘‘ انہوں نے يہ بھی کہا کہ يہ وقت نسلی انصاف کو یقینی بنانے کا ہے۔
رياست ٹيکساس ميں مقيم پاکستانی نژاد امريکی ڈيموکريٹک ليڈر طاہر جاويد نے اس جنازے ميں مينيسوٹا کے اٹارنی جنرل کيتھ ايليسن کی نمائندگی کرتے ہوئے کی اور انکا پيغام جارج فلوئڈ کے خاندان تک پہنچايا۔ اپنے اس پيغام ميں اٹارنی جنرل نے کہا، “جب تک ہم جارج فلوئڈ کیس میں ان کے لواحقین کو انصاف نہيں دلا لیتے تب تک ہم سکون سے نہيں بيٹھيں گے”۔
اس حوالے سے ڈی ڈبلیو سے خصوصی بات چيت کرتے ہوئے طاہر جاويد نے کہا،”نسلی تعصب کو آپ جب ہی سمجھ سکتے ہيں جب آپ خود اسکا شکار ہوئے ہوں۔ کسی معاشرے ميں جب ايک مخصوص سوچ اور ذہنیت کی وجہ سے لوگ قتل ہونے لگيں تو وہ صرف ايک شخص کی نہيں، بلکہ پوری قوم کی موت ہوتی ہے۔ اگر ہم آج آواز نہيں اٹھائيں گے تو کل ہماری باری ہو گی۔‘‘
انکا کہنا تھا کہ رياست ماں جيسی ہوتی ہے، اس وقت حکومت نے وہ کردار ادا نہيں کيا جو اسے کرنا چاہيے تھا بلکہ آگ ميں اور تيل ڈالا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبليو کو بتايا کہ اس تاريخی جنازے ميں کئی پاکستانی بھی شامل ہوئے۔
جارج فلوئڈ کی آخری رسومات امریکا میں سیاسی اعتبار سے بھی خبروں کا حصّہ بنیں۔ اس حوالے سے ‘امریکی مسلمز فار ٹرمپ’ کے بانی، پاکستانی نژاد امريکی ریپبلیکن سياستدان ساجد تارڑجن کا نے ڈی ڈبلييو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ،” اس واقعے کی مذمت صدر ٹرمپ نے بہت واضع الفاظ ميں کی ہے اور اس ميں کوئی دو رائے نہيں پائی جاتی، مگر قانون کی پاسداری نہ کرنا، توڑ پھوڑ کرنا، دکانيں لوٹنا یہ کس قسم کا احتجاج ہے؟‘‘ انہوں نے کہا کہ امريکا ميں چودہ فيصد افريقی امريکی جب کہ اٹھارہ فيصد لاطينی امريکی آباد ہيں جنکے ساتھ بھی نسل پرستی کی بنياد پر زیادتیاں ہوتی ہیں مگر وہ تو لوٹ مار نہيں کرتے۔ انہوں نے اس مہم کو امريکی ہاؤس آف ريپریزنٹيٹوز کی اسپیکر نينسی پلوسی کا ايجنڈا قرار ديا۔ انہوں نے ”بليک لايئوزميٹر‘‘ کے نعرے کو نسل پرست قرار ديتے ہوئے کہا کہ “آل لائيوز ميٹر” کا نعرہ صحيح نعرہ ہے۔ ڈی ڈبليو کے اس سوال پر کہ جارج فلوئڈ کے جنازے پر ‘امريکن مسلمز فار ٹرمپ’ کی نمائندگی کيوں نہیں تھی، انہوں نے کہا،”اگر يہ صرف ايک جنازہ ہوتا تو الگ بات تھی مگر ميں يا ميری جماعت کبھی بھی اس سياست کا حصّہ نہيں بنيں گے۔‘‘
کولن پاؤل، جیمس ميٹس اور سابق صدر بش جو کہ اہم رپبليکن شخصیات ہيں، نے اس واقعہ کی روشنی ميں صدر ٹرمپ پر شديد تنقيد کی ہے اور انکی قائدانہ صلاحيتوں پر سوال اٹھایا ہے۔ ان حاليہ بيانات پرريپبليکن پارٹی کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کو ان سب کی توثيق کی کوئی ضرورت نہيں ہے، اگر فرق پڑتا ہے تواس بات سے کہ خاموش اکثريت کیا سوچتی ہے۔۔۔اور وہ صدر ٹرمپ کے ساتھ ہے۔انکا کہنا ہے کہ جيت صدر ٹرمپ کی ہی ہوگی جبکہ سياسی ماہرين کے مطابق اس وقت جو بائيڈن کا پلڑا بھاری ہے۔
جارج فلوئڈ کے جنازے کی سماجی اور سياسی اہميت پر ڈی ڈبليو نے سينيئرصحافی اور تجزیہ نگار انور اقبال سے بات کی تو انکا کہنا تھا،”جو رد عمل ہم آج ديکھ رہے ہیں وہ ايک دن ميں سامنے نہیں آتا ہے۔ یہ ايک لاوا ہے جو سالوں سے پک رہا تھا اور اب پھٹا ہے۔ يہ ان معاشروں ميں ہوتا ہے جہاں لوگ اپنے آپ کو ٹارگٹ سمجھتے ہيں۔ جس تيزی سے يہ مہم بڑھی ہے اس کی کئی وجوہات ہيں جن ميں کورونا وائرس، انتخابات، پوليس کی بربريت اور نسل پرستی جيسے مسائل شامل ہيں۔‘‘
اس مہم کے زور پکڑتے ہی نسل پرستی اور پوليس کی بربريت کے کئی واقعات کی وڈيوز پھر سے منظر عام پر آنے لگی ہيں ان ميں سے کچھ واقعات پرانے اور کچھ نئے ہيں جو ديکھنے والے سے يہ سوال کر رہے ہيں کہ امريکی معاشرے ميں چار سو سال پرانی ذہنی غلامی اور نسل پرستی کی بيماری سے آج کا نيا اورترقی پسند امريکا کيا حاصل کر پائے گا؟ کيا نسلی انصاف کا دور واقعی شروع ہو گيا ہے؟