جرمن سفیر کی ملک بدری، ترک صدر کے بیان پر جرمن حکومتی تشویش

Osman Kavala

Osman Kavala

برلن (اصل میڈیا ڈیسک) جرمنی نے ترک صدر کے اس بیان پر تشویش ظاہر کی ہے، جس میں انہوں نے جرمن سفیر کو ملک بدر کرنے کی دھمکی دی ہے۔ ترک صدر نے نو دوسرے ملکوں کے سفیروں کو بھی ملک بدر کرنے کا کہا ہے۔

جرمنی نے ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے اس بیان پر گہری تشویش ظاہر کی ہے، جس میں انہوں نے جرمنی سمیت دس ممالک کے سفیروں کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دے کر ملک بدر کرنے کی دھمکی دی ہے۔

صدر ایردوآن کی طرف سے مرکزی بینک کے سربراہ پھر برطرف، ترک کرنسی چودہ فیصد گر گئی

ان ممالک نے ترک اپوزیشن کی معروف شخصیت عثمان کاوالا کی حمایت کرتے ہوئے ایک مشترکہ بیان میں انقرہ حکومت سے درخواست کی تھی کہ اس چونسٹھ سالہ مخیر شخصیت کے مقدمے کو نمٹاتے ہوئے جلد رہا کیا جائے۔ ایردوآن نے دس ملکوں کے سفیروں کو ملک بدر کرنے کی دھمکی ہفتہ تیئیس اکتوبر کو دی تھی۔

جرمن حکومت کے ترجمان اشٹیفان زائبیرٹ نے ایک بیان میں واضح کیا کہ ترک صدر کے تیئیس اکتوبر کے بیان پر برلن کو گہری تشویش ہے اور وہ شش و پنج میں مبتلا ہے کہ اس دھمکی کی وجوہات کیا ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ برلن ان نو ملکوں کے ساتھ مشاورت جاری رکھے ہوئے ہے، جن کے سفیروں کو ترک صدر نے ناپسندیدہ شخصیت قرار دے کر بیدخل کرنے کا کہا ہے۔ ترک صدر نے یہ ہدایت اپنے ملک کی وزارتِ خارجہ کو دی تھی۔

برلن حکومت کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اگر ترک صدر کی ہدایت پر عمل کر دیا جاتا ہے تو یہ ترکی و جرمنی اور مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے دو رکن ملکوں کے درمیان پائے جانے والے گہرے دو طرفہ تعلقات کے جذبے کے منافی اقدام ہو گا۔

گزشتہ ہفتے کے دوران اٹھارہ اکتوبر کو جاری کیے گئے دس ممالک کے سفیروں کے مشترکہ بیان کو غیر معمولی قرار دیا گیا ہے۔ اس بیان میں شامل ممالک میں جرمنی کے علاوہ امریکا، کینیڈا، ڈنمارک، فرانس، نیدرلینڈز، سویڈن، فن لینڈ، نیوزی لینڈ اور ناروے شامل ہیں۔ ان ممالک کے سفیروں کو ترک وزارت خارجہ میں طلب کر کے اس بیان کو غیر ذمہ دارانہ قرار دیا تھا۔

ان دس ممالک نے اپنے بیان میں عثمان کاوالا کے مقدمات کو جلد از جلد مکمل کر کے انہیں رہا کرنے کا کہا تھا۔ یہ امر اہم ہے کہ دس میں سے سات ممالک کا تعلق مغربی دفاعی اتحاد نیٹو سے ہے۔

ترک صدر کے ملکی اور غیر ملکی ناقدین کا کہنا ہے کہ سفیروں کو ملک بدر کرنے کے بیان کا اصل مقصد ملکی عوام کی توجہ اقتصادی پریشانیوں اور ملکی کرنسی لیرا کی مسلسل کم ہوتی قدر سے ہٹانا ہے۔

ترکی کی اپوزیشن کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ریپبلکن پیپلز پارٹی کے سربراہ کمال کلیج ڈار اولو کا کہنا ہے ایردوآن تیزی کے ساتھ سارے ملک کو بلندی سے نیچے کی جانب دھکیل رہے ہیں اور انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ایسے اقدامات سے ملکی مفادات کا مناسب تحفظ ممکن نہیں۔ اپوزیشن لیڈر نے ملکی اقتصاد کو تباہ کرنے کی وجوہات کو مصنوعی قرار دیا۔

ترکی کی معروف سماجی شخصیت عثمان کاوالا سن 2017 سے حراست میں ہیں اور ابھی تک ان پر باضابطہ فرد جرم بھی عائد نہیں کی جا سکی ہے۔ وہ کئی سماجی تنظیموں کو عطیات دینے کے علاوہ امدادی گروپوں کو خیرات بھی دینے میں شہرت رکھتے ہیں۔

ایردوآن حکومت ان پر سن 2013 کے مظاہروں کے پس پردہ مالی معاونت کا الزام عائد کیے ہوئے ہے۔ اس کے علاوہ سن 2016 کی ناکام فوجی بغاوت میں بھی انہیں ملوث کیا گیا ہے۔

کاوالا ‘اندولو کلچر‘ نامی ایک غیر منافع بخش تنظیم کے بانی اور ایک معروف کاروباری شخصیت بھی ہیں۔ ان کا خاندان برسوں سے تمباکو کے کاروبار سے منسلک ہے۔