جرمن چانسلر ہماری مدد کریں، ہانگ کانگ کے مظاہرین کی اپیل

Hong Kong Protest

Hong Kong Protest

بیجنگ (اصل میڈیا ڈیسک) ہانگ کانگ کے جمہوریت نواز کارکن جوشُوآ وونگ نے ایک کھلے خط کے ذریعے جرمن چانسلر انگیلا میرکل سے تعاون کی درخواست کی ہے۔ جرمن اخبار بلڈ کےمطابق وونگ نے میرکل سے اس عوامی تحریک کے کارکنوں سے ملاقات کرنے کی اپیل بھی کی ہے۔

جرمن روزنامے بلڈ نے ہانگ کانگ میں جمہوریت کے لیے چلائی جانے والی عوامی تحریک کے رہنما جوشُوآ وونگ کا وہ خط شائع کیا ہے، جس میں انہوں نے جرمن چانسلر سے درخواست کی ہے کہ وہ اپنے دورہ چین کے موقع پر اس تحریک کی حمایت کا اظہار کریں۔ وونگ نے اس خط میں لکھا ہے، ”محترمہ جرمن چانسلر! آپ مشرقی جرمنی (عوامی جمہوریہ جرمنی) میں جوان ہوئیں۔ آپ کو بھی ایک آمرانہ حکومت کے ظلم کا تجربہ ہے۔‘‘

وونگ اور دوسرے جمہوریت نواز کارکنوں نے ہانک کانگ میں جاری ان مظاہروں اور چینی اثر و رسوخ کا 1989ء میں عوامی جمہوریہ جرمنی میں ہونے والے امن احتجاج سے موازنہ کیا ہے۔ تب سابقہ مشرقی جرمنی میں ہر پیر کو اس طرح کے پر امن مظاہرے کیے جاتے تھے۔ اس خط میں جرمن سربراہ حکومت سے یہ اپیل بھی کی گئی ہے کہ وہ ہانگ کانگ کے مظاہرین کے حق میں بولیں۔

بائیس سالہ وونگ نے لکھا ہے، ”جرمن شہری1980ء کی دہائی میں آمرانہ طرز حکومت کے خلاف بہادری سے کھڑے ہوئے تھے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ آپ چین میں اپنے قیام کے دوران ہماری قیامت خیز صورتحال کے بارے میں اپنے تحفظات اور ہمارے مطالبات سے بیجنگ حکومت کو آگاہ کریں گی۔‘‘

جرمن چانسلر میرکل نے سابقہ کمیونسٹ جرمنی میں چار دہائیاں گزاریں تھیں اور وہ ایک محققہ کے طور پر سرد جنگ کے خاتمے اور جرمنی کے دوبارہ اتحاد یعنی 1990ء تک مشرقی جرمنی ہی میں رہی تھیں۔ میرکل نے دیوار برلن کے انہدام کو اپنی زندگی کا اہم ترین موڑ قرار دیا تھا۔

جرمن چانسلر میرکل اپنے تین روزہ دورے پر کل جمعرات پانچ ستمبر کو چین پہنچ رہی ہیں۔ اس دورے میں ایک بڑا تجارتی وفد بھی ان کے ہمراہ ہو گا۔

برطانیہ سے عوامی جمہوریہ چین کو ہانگ کانگ کی واپسی یکم جولائی سن انیس سو ستانوے کو عمل میں آئی۔ اس کے بعد سے ہانگ کانگ میں’ایک ملک دو نظام‘ رائج ہے۔

اخبار بلڈ کی رپورٹ میں وونگ نے ہانگ کانگ میں کشیدگی میں اضافے کے خلاف خبردار بھی کیا ہے، ”ہمیں ایک ایسی آمرانہ حکومت کا سامنا ہے، جو آزادی کے بنیادی حقوق کی اجازت نہیں دیتی اور جو زیادہ سے زیادہ پرتشدد اقدامات کر رہی ہے۔ ایسا لگ رہا کہ بیجنگ کے تیانانمن اسکوائرکی طرح کے ایک نئے قتل عام کی تیاری کی جا رہی ہے۔‘‘ وونگ نے اس خط میں مزید لکھا ہے کہ جرمنی کو چین کے ساتھ تجارت نہیں کرنا چاہیے کیونکہ چین بین الاقوامی شہری حقوق کے قوانین کی پاسداری نہیں کرتا اور بار بار اپنے وعدوں کی خلاف ورزی کرتا آیا ہے۔

چین کے ایک خصوصی انتظامی علاقے کے طور پر ہانگ کانگ میں گزشتہ چند مہینوں سے شدید نوعیت کا سیاسی عدم استحکام پایا جاتا ہے۔ شروع میں یہ مظاہرے ایک متنازعہ قانون کی مجوزہ منظوری کے خلاف تھے۔ اب لیکن یہ مظاہرین ہانگ کانگ کی علاقائی حکومت کی بیجنگ نواز خاتون سربراہ کیری لَیم کے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔