جرمن چانسلر اور امریکی صدر کے درمیان اہم امور پر بات چیت

Angela Merkel and Joe Biden

Angela Merkel and Joe Biden

امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) جرمن چانسلر کا کہنا تھا کہ افغانستان کے ساتھ مجموعی شراکت داری اچھی رہی تاہم افسوس اس بات پر ہے کہ ”ہم جس طرح چاہتے تھے اس طرح سے ملک کی تعمیر نو نہیں کر سکے۔”

جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اپنے امریکی دورے کے دوران 15 جولائی جمعرات کو وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر جو بائیڈن کے ساتھ ملاقات میں کئی اہم مختلف فیہ امور پر بات چیت کے بعد ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے بھی خطاب کیا۔

محترمہ میرکل چونکہ آئندہ وفاقی انتخابات کے بعد اقتدار سے دستبردار ہو رہی ہیں اس لیے یہ ان کا امریکا کا آخری سرکاری دورہ ہے۔ صدر جو بائیڈن نے ان کا وائٹ ہاؤس میں استقبال کیا اور دونوں رہنماؤں نے بہت اہم عالمی امور پر گفتگو کی۔

ایک ایسے وقت جب امریکا نے بھی افغانستان سے اپنی فوج کا تقریباً نوے فیصد تک انخلا مکمل کر لیا ہے، جرمن چانسلر نے کہا کہ وہاں مجموعی طور پر جرمنی کی شراکت داری اچھی رہی تاہم بعض چیزوں پر افسوس بھی ہے۔ ان کا کہنا تھا، ”بد قسمتی سے ہم جس طرح سے اس ملک کو دیکھنا چاہتے تھے ویسا ہم اسے تعمیر نہیں کر سکے۔”

تاہم انہوں نے کہا اس کے بعض مثبت پہلو بھی ہیں، ” کتنے برسوں تک ہم نے افغانستان میں ایک ساتھ مل کر خدمات انجام دیں، ایک خاص حد تک دہشت گردی کے خطرات پر قابو پا یا۔” پریس کانفرنس کے دوران دونوں رہنماؤں نے امریکا اور یورپ کے درمیان بہترین تعلقات کے حوالے سے اپنے اپنے عزائم کا اعادہ کیا اور روس کی جارحیت کے خلاف ایک ساتھ کھڑے رہنے کی بات کہی۔

صدر جو بائیڈن نے صحافیوں سے بات چیت میں کہا کہ امریکا اور جرمنی روسی جارحیت کے خلاف مشرقی یورپی ممالک کی مدد کرنے میں متحد ہیں اور اس بات پر بھی متفق ہیں کہ ماسکو کو اپنے پڑوسیوں پر دھونس جمانے کے لیے توانائی کو استعمال کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔

ان کا کہنا تھا، ” ہم نیٹو کے اپنے مشرقی یورپ کے دوست اتحادیوں کا دفاع کرنے کے لیے روسی جارحیت کے خلاف مل کر کھڑے ہیں اور ساتھ رہیں گے۔” ان کا مزید کہنا تھا، ”جب میں نے نورڈ اسٹریم 2 کے بارے میں اپنے خدشات کا پھر سے ذکر کیا تو، چانسلر میرکل اور میں اس وعدے پر پوری طرح سے متحد ہیں کہ روس کو اپنے پڑوسیوں کو مجبور کرنے یا دھمکی دینے کے لیے توانائی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔”

امریکا اور جرمنی کے درمیان اس گیس پائپ لائن منصوبے کے حوالے سے کافی اختلافات رہے ہیں۔ یہ پائپ لائن یورپ کو روسی گیس کی ترسیل کے لیے تیار کی جا رہی ہے اور اس کی تعمیر پر تقریباً گیارہ ارب ڈالر لاگت آئے گی۔یہ اپنی تکمیل کے آخری مرحلے میں ہے۔

امریکی صدر نے اس موقع پر ہانگ کانگ کے حوالے چین پر نکتہ چینی کی اور کہا کہ وہاں حالات خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ ”چینی حکومت نے ہانگ کانگ سے متعلق جو وعدے کیے تھے وہ پورے نہیں کر رہی ہے جبکہ وہاں حالات دن بدن ابتر ہوتے جا رہے ہیں۔”

دوسری جانب جرمنی اور چین کے درمیان گہرے کاروباری رشتے ہیں اسی لیے انگیلا میرکل نے موسمیاتی تبدیلیوں اور کورونا وائرس وبا جیسے امور میں بیجنگ کے ساتھ تعاون کی طرف توجہ مبذول کرائی۔

جرمن چانسلر کا کہنا تھا کہ مزدورں کے حقوق، تجارت اور سائبر سکیورٹی جیسے امور پر تمام مغربی ممالک کو چین کے ساتھ مربوط رد عمل کی ضرورت ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر، ”امریکا اور جرمنی کو اپنی مشترکہ اقدار پر مبنی کمیونکیشن کی ضرورت ہے۔”

دونوں رہنماوں کے درمیان اس کے علاوہ موسم کی تبدیلی اور ماحولیات سے متعلق لاحق خطرات، کورونا وائرس کی وبا اور دیگر اہم امور پر بھی بات چیت ہوئی۔ جمعرات کو کاروباری شخصیات سے ملاقات کرنے کے بعد جان ہاپکنز یونیورسٹی میں ایک پروگرام کے دوران جرمن چانسلر کو پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری سے نوازا گیا۔ میرکل نے وہاں شرکاء سے خطاب بھی کیا۔