جرمنی (جیوڈیسک) جرمن پولیس نے تاہم خبردار کیا ہے کہ زیادہ شہریوں کے پاس لائسنس والا اسلحہ امنِ عامہ کی صورتحال کے لیے خطرناک بھی ہو سکتا ہے۔ جرمن وزارت داخلہ کے مطابق اکتیس دسمبر 2018ء تک 610,937 جرمن شہریوں کو بنیادی اسلحے کے لائسنس جاری کیے گئے۔ یہ تعداد 2017ء کے مقابلے میں53,377 زیادہ ہے، جو تقریباً 9.6 فیصد کا اضافہ بنتا ہے۔ بنیادی اسلحے میں گیس پسٹل، فلیئر گن، مرچوں والا اسپرے اور ایسے بہت سے ہتھیار، جنہیں کسی کو ہلاک کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔
پولیس کے مطابق اس پیش رفت کی ایک اہم وجہ شہریوں میں عدم تحفظ کا بڑھتا ہوا احساس بھی ہے۔ تاہم بائیں بازو کی جماعت ڈی لنکے کی داخلہ امور کی ماہر اولا یلپکے نے کہا کہ یہ رجحان امن و امان کے حوالے سے اس افراتفری کا نتیجہ ہے، جو وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر جیسے سیاستدانوں نے پھیلائی ہے۔ ان کے بقول اس میں دائیں بازو کی جماعت آلٹرنیٹو فار جرمنی ( اے ایف ڈی) کا بھی ہاتھ ہے۔
بھاری اسلحہ خریدنے والے ممالک کی فہرست میں ویت نام دسویں نمبر پر رہا۔ سپری کے مطابق اسلحے کی عالمی تجارت میں سے تین فیصد حصہ ویت نام کا رہا۔
جرمن پولیس یونین (جی ڈی پی) اولیور مالشوو نے خبردار کیا ہے کہ مسلح شہریوں کی تعداد میں اضافہ روز مرہ زندگی کو متاثر بھی کر سکتا ہے، ’’اس طرح کے ہتھیار ایک غلط احساس تحفظ فراہم کرتے ہیں جبکہ ساتھ ہی ذاتی دفاع کی خواہش بھی بڑھاتے ہیں۔ یہ دونوں چیزیں موجودہ حالات میں شدت کا سبب بھی بن سکتی ہیں اور اسلحہ بردار افراد کو ایک مجرم میں بھی بدل سکتی ہیں۔‘‘
جرمنی میں بنیادی اسلحے کے لائسنس کے حصول کے لیے اٹھارہ سال کی عمر میں درخواست دی جا سکتی ہے جبکہ درخواست گزار کا نفسیاتی اور جسمانی طور پر صحت مند ہونا بھی لازمی ہے۔ مہلک ہتھیار جرمنی میں فی الحال خریدے نہیں جا سکتے۔
امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن کے مطابق 2016ء میں جرمنی میں ایک لاکھ افراد میں سے 0.9 فیصد فائرنگ سے ہلاک ہوئے جبکہ امریکا یہ تناسب 10.6 فیصد رہا۔ اس فہرست میں لاطینی امریکی ملک ایل سلواڈور سب سے آگے ہے، جہاں ایک لاکھ میں سے 39.2 فیصد شہری فائرنگ کے واقعات میں مارے گئے۔