جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) جرمنی میں آئین سے متعلق معاملات سے نمٹنے والی عدالت نے ایک فیصلے میں کہا ہے کہ انٹیلیجنس ایجنسی بی این ڈی کی جانب سے جرمنی سے باہر غیر ملکیوں کی نگرانی جزوی طور پر آئین کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتی ہے۔
جرمنی کی اعلی ترین عدالت نے منگل انیس مئی کو اپنے ایک فیصلے میں غیر ملکیوں کے انٹرنیٹ ٹریفک کی نگرانی کو جزوی طور پر ایک غیر قانونی و غیر آئینی فعل قرار دیا ہے۔ عدالتی فیصلے کے مطابق جرمنی سے باہر مقیم غیر ملکی شہریوں کی ٹیلی کمیونیکیشن مانیٹرنگ، آزادی صحافت اور پرائیویسی کے قوانین کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتی ہے۔ فیصلے میں واضح کیا گیا ہے کہ جرمنی کا آئین غیر ملکیوں کو بھی تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اسی فیصلے میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ موجودہ قوانین، وکلا اور صحافیوں کے کام کو زیادہ تحفظ فراہم نہیں کر پاتے۔
جرمنی میں صحافیوں کی یونینز، غیر سرکاری تنظیم ‘رپورٹرز ود آٹ بارڈرز اور چند غیر ملکی صحافیوں نے بی این ڈی کے جاسوسی کے اختیارات سے متعلق قانون کو عدالت میں چیلنج کیا اور اسی تناظر میں یہ فیصلہ سامنے آیا۔ مقدمہ دائر کرنے والوں میں آذربائیجان کی خاتون صحافی خدیجہ اسمیلووا بھی شامل تھیں، جنہیں اپنے ملک میں بدعنوانی پر سے پردہ اٹھانے کے لیے سن 2017 میں ‘رائٹس لائیولی ہوڈ ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ ان کے لیے یہ حقیقت کہ جرمنی، آذربائیجان کے ساتھ انٹیلیجنس تبادلہ کر سکتا ہے، قابل فکر بات تھی۔
انہوں نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ آذربائیجان میں بے پناہ اختیارات کی حامل حکومت اور انسداد دہشت گردی کے قوانین کے غلط استعمال نے انہیں بہت تنگ کیا۔ اسی قانون کے تحت ان کی ذاتی زندگی میں مداخلت اور انتہائی نجی نوعیت کے معاملات میں دخل اندزی ممکن ہوئی۔ خدیجہ اسمیلووا نے مزید کہا کہ وہ اس بات پر کافی خوش ہیں کہ جرمنی میں جمہوری اقدار کا تحفظ جاری ہے اور قابل اعتراض معاملات کو ترامیم کے ذریعے صحیح کیا جا سکتا ہے۔
جرمن عدالت کے فیصلے کا ‘رپورٹرز ود آٹ بارڈرز کے ڈائریکٹر کرسٹین میہر نے بھی خیر مقدم کیا۔ ”جرمن آئینی عدالت نے ایک مرتبہ پھر آزادی صحافت کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ ہم خوش ہیں کہ عدالت نے بی این ڈی کی جاسوسی سے متعلق سرگرمیوں پر لگام ڈال دی ہے۔ جرمنی میں صحافیوں کی یونین DJV کے سربراہ فرانک اوبرآل نے کہا کہ جمہوریت کے تحفظ کو یقینی بنانے والی انٹیلیجنس سروس اہم جمہوری آزادیوں کو روند نہیں سکتی۔
سن 2017 میں متعارف کردہ ترمیم کے بعد بی این ڈی کو دنیا کے کسی بھی حصے میں کسی کی بھی جاسوسی کرنے کا اختیار دے دیا گیا تھا، چاہے متعلقہ شخص پر شبہ نہ بھی ہو۔ اس ترمیم کے حوالے سے اعلی حکام کا موقف تھا ہے کہ غیر ملکیوں کی جاسوسی اس لیے اہم ہے تاکہ بیرون ملک تعینات جرمن افواج کو ممکنہ حملوں سے بچایا جا سکے۔ حکام کے مطابق بی این ڈی کے قانون میں حقوق کے تحفظ کا خیال رکھا گیا تھا۔
منگل کو سامنے آنے والے آئینی عدالت کے فیصلے کی روشنی میں حکومت کو آئندہ برس کے اختتام تک کا وقت دیا گیا ہے کہ وہ بی این ڈی کے جاسوسی سے متعلق قوانین میں ترامیم متعارف کرائے۔