برلن (جیوڈیسک) ایمنسٹی انٹرنیشنل اور پناہ گزينوں کے ليے سرگرم تنظيم ’پرو ازول‘ نے جرمنی سمیت یو رپی یونین کے دیگر رکن ممالک سے مطالبہ کیا ہے کہ پناہ گزینوں کو تحفظ فراہم کیا جائے اور ان کے حق میں حکومتی پالیسیاں تشکیل دی جائیں۔
جرمن دارالحکومت برلن میں بدھ کے روز منعقدہ ایک پریس کانفرنس میں انسانی حقوق کی سرگرم تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل سے منسلک مہاجرین کے امور کی ماہر فرانسسکا ولمر نے کہا کہ لیبیا کی جیلوں میں پناہ گزینوں کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی اور ان پر تشدد کی ذمہ داری یورپی حکمرانوں پر بھی عائد ہوتی ہے۔ ان کے بقول بحیرہ روم عبور کرنے کی کوشش کے دوران پکڑے جانے والے پناہ گزینوں کو دوبارہ واپس لیبیا کے ساحلی علاقوں میں منتقل کردیا جاتا ہے، جہاں ان کو شدید دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
فرانسسکا ولمر نے مزید کہا کہ یورپی یونین کی جانب سے بحیرہ روم کے ذریعے یورپ کا رخ کرنے والے پناہ گزینوں کی حفاظت کے لیے مزید امدادی جہازوں کا بندوبست کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ پناہ گزینوں کو واپس لیبیا بھیجنے کے بجائے باحفاظت یورپ کی محفوط بندرگاہوں پر منتقل کیا جانا چاہیے۔
اس مشترکہ پریس کانفرنس میں موجود پناہ گزينوں کے ليے سرگرم تنظيم ’پرو ازول’ کے سربراہ گئنٹر برک ہارٹ کا کہنا تھا،’’جو ممالک پناہ گزینوں کی حفاظت میں رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں، وہ بحیرہ روم میں ڈوبنے والے مہاجرین کی ہلاکتوں میں برابر کے ذمہ دار بھی ہیں۔‘‘
بعد ازاں برک ہارٹ نے بتایا کہ یونان میں قائم کی گئی عارضی پناہ گاہوں میں مہاجرین کی پناہ کی درخواستوں کی موثر طریقے سے جان پڑتال کیے بغیر ہی فیصلے سنا کر انہیں ملک بدر کر دیا جاتا ہے۔ ان کے مطابق یہ یورپی قوانین کی خلاف ورزی ہے کیونکہ پناہ گزینوں کو اپنی مسترد شدہ درخواستوں پر کیے گئے فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کا قانونی حق حاصل ہے۔
اس تصویر میں ایک مہاجر خاتون اور ایک بچے کی لاشیں ڈوبنے والی کشتی کے شکستہ ڈھانچے کے درمیان تیر رہی ہیں۔ انٹرنیشنل آرگنائزیشن برائے مہاجرت کے اطالوی دفتر کے ترجمان فلاویو ڈی جیاکومو نے اسے ’ڈرامائی واقعہ‘ قرار دیا۔
دوسری جانب پناہ گزینوں کے امور کی ماہر فرانسسکا ولمر نے پناہ گزینوں کے حقوق کی خلاف ورزی کی وضاحت کرتے ہوئے کہا، ’’یورپی یونین اور ترکی کے درمیان کیے گئے معاہدے کے بعد تقریباً بیس ہزار افراد یونانی جزیروں پر مقیم ہیں، جو کہ ان پناہ گاہوں کی گنجائش سے تین گنا زیادہ ہے۔ ولمر کے مطابق زیادہ تر تارکین وطن افراد کو وجہ جانے بغیر ہی واپس ترکی منتقل کردیا جاتا ہے۔
جرمنی بھر میں منائے گئے ’مہاجرین کے دن‘ کے موقع پر کی جانے والی اس پریس کانفرنس میں جرمن حکومت کی جانب سے ’محفوظ’ قرار دیے جانے والے ممالک پر بھی شدید تنقید کی گئی۔ فرانسسکا ولمر کے مطابق سن 2016 سے اب تک تقریباً 366 افغان پناہ گزینوں کو ملک بدر کیا جا چکا ہے۔ اسی تناظر میں ایمنسٹی انٹرنیشنل اور پرو ازول کے نمائندوں نے برلن حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا،’’افغانستان محفوظ نہیں ہے اور افغان پناہ گزینوں کی واپسی فوری طور پر روکا جائے۔‘