جرمن (اصل میڈیا ڈیسک) جرمنی انٹیلیجنس ایجنسی ‘بی این ڈی‘ کے بیرون ملک جاسوسی کے وسیع اختیارات کو ملک کی اعلی ترین عدالت میں چیلنج کر دیا گیا ہے۔
درخواست گزاروں کا موقف ہے کہ جرمن انٹیلیجنس ایجنسی کی طرف سے صحافیوں کے ٹیلی فون ٹیپ کرنا خلافِ قانون اور شہری حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ جرمنی کی آئینی عدالت میں اس کیس کی سماعت منگل سے شروع ہوئی۔
صحافیوں کی عالمی تنظیم ‘رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز’ اور انسانی حقوق کے کارکنان کی اس درخواست میں جنوری دو ہزار سترہ میں ایک نئے قانون کے تحت بیرون ملک متحرک خفیہ ایجنسی بی این ڈی (بنڈس ناخرشٹن ڈینسٹ) کو دیے جانے والے وسیع اختیارات کو چیلنج کیا گیا ہے۔
اس قانون کے تحت جرمن انٹیلیجنس اہلکار دنیا میں کہیں بھی مبینہ طور پر مشکوک لوگوں کی ذاتی گفتگو اور ان کی نقل و حرکت کی جاسوسی کر سکتے ہیں۔
جرمنی میں سرکاری اداروں کی طرف سے عام شہریوں کی جاسوسی ایک بڑا ہی متنازعہ اور حساس معاملہ ہے۔
اس کی وجہ ہٹلر کی فوجی آمریت کے دوران جاسوسی کا بے دریغ اور غلط استعمال ہے۔ ریاستی جبر کے اس دور میں فوجی حکام نے شہریوں کی جاسوسی کے لیے وسیع جال پھیلایا اور لاتعداد بےگناہ لوگوں کو جیلوں میں بند کیا گیا اور موت کے گھاٹ اتارا گیا۔
دوسری عالمی جنگ میں شکست اور ہٹلر کے انسانیت سوز مظالم کے خاتمے کے بعد جرمنی نے جمہوریت کا راستہ اپنایا، جس میں فوج اور انٹیلیجنس اداروں کو محدود سے محدود تر رکھا گیا۔ مسلح اداروں کو آئینی طور پر منتخب اداروں کے ماتحت لایا گیا تا کہ فوج یا انٹیلیجنس ایجنسیاں دوبارہ کبھی ریاست کے اندر اپنی ریاست نہ بنا پائیں۔
جرمن انٹیلیجنس حکام کا کہنا ہے کہ ملکی سلامتی کے لیے جاسوسی کے وسیع اختیارات ناگزیر ہیں۔ عدالت میں کیس کی سماعت سے قبل بی این ڈی کے سربراہ برونو کال نے کہا کہ بیرون ملک جاسوسی کے یہ اختیارات جرمن انٹیلیجنس کے کام کا لازمی جُز بن چکے ہیں۔
بی این ڈی کے ایک سابق سربراہ گیرہارڈ شنڈلر نے ایک اخباری بیان میں خبردار کیا ہے کہ ایجنسی کے کام پر قانونی قدغنیں لگائیں گئیں تو فوج کے لیے اس کے ‘مہلک’ نتائج ہوں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسی کسی کوشش سے افغانستان اور افریقی ملک مالے میں تعینات جرمن فوج کی حفاظت میں بی این ڈی کا کام براہ راست متاثر ہوگا۔
انہوں نے کہا، “اگر جرمن آئین بنانے والے ہمارے اکابرین کو پتہ چلے کہ ہم طالبان اور داعش کے جنگجوؤں کے مواصلاتی رابطوں کو جرمن آئین کے تحت تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تو انہیں بہت کرب پہنچے گا۔”
لیکن جرمنی میں انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ وہ ایک لمبے عرصے سے انٹیلیجنس حکام سے اس قسم کی باتیں سنتے آئے ہیں اور انہیں بے دریغ اختیارات نہیں دیے جا سکتے۔
شہری حقوق کی تنظیم ‘جی ایف ایف’ کا موقف ہے کہ انٹیلیجنس حکام کو صرف انتہائی مخصوص حالات میں مشکوک شہریوں کی جاسوسی کی اجازت ہونی چاہیے۔
جرمنی کی اعلیٰ ترین عدالت میں اس کیس کی سماعت بدھ کو بھی جاری ہے۔ اس کیس کا فیصلہ آنے میں کئی ماہ لگ سکتے ہیں۔